عوام بہت قربانی دے چکے،اشرافیہ کی مراعات ختم ہونی چاہئیں 

عوام بہت قربانی دے چکے،اشرافیہ کی مراعات ختم ہونی چاہئیں 
عوام بہت قربانی دے چکے،اشرافیہ کی مراعات ختم ہونی چاہئیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایٹمی پاکستان کا خزانہ بالکل خالی ہوچکاہے اور اُس میں بمشکل چند ارب ڈالر موجود ہیں اور اُن میں بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کا حصہ شامل ہے۔ایسے ہی حالات میں ایمرجنسی لگاکر مالی اور معاشی بے ضاطگیوں اوربنیادی معاشی مسائل کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ ایک دوست نے مجھے ایک خط دکھایا جس میں مالی ایمرجنسی نافذ کرنے کے احکامات شامل تھے  لیکن اگلے ہی روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تردید کرکے بات ختم کردی۔میں وزیراعظم اور وزیر خزانہ سے یہ پوچھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ معاشی ایمرجنسی لگانے کے لیے اور کیسے حالات کا انتظار کیا جارہا ہے۔کیا اب بھی کوئی کسر باقی رہ گئی ہے؟ ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے چند روز پہلے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر اعلیٰ   عدلیہ کے ججوں کی تنخواہوں، پنشن اور مراعات میں کٹوتی کی جائے۔ یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت دائر کی گئی ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت بھاری تنخواہوں، پنشن اور دیگر مراعات میں کٹوتی کرنے کی بجائے سارا بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے، اعلیٰ عدلیہ اور دیگر اداروں میں بھاری پنشن و دیگر الاؤنسز پر نظرثانی کی ہدایت کی جائے۔

ملک میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں،خراب معاشی حالات کی وجہ سے عوام خودکشیوں پر مجبور ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ایڈ ووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے اپنی درخواست میں عوام کے جذبات کی درست ترجمانی کی ہے۔یاد رہے کہ مرکز اور صوبائی دفاتر میں چھوٹے بڑے رینک کے افسروں کی فوج ہر ماہ اربوں روپے بطور تنخواہ اور مراعات وصول کرتی ہے۔گریڈ17سے گریڈ 22 تک کے تمام سرکاری افسروں کو بھاری تنخواہوں کے علاوہ بجلی، گیس، ٹیلی فون، موبائل، دو دو تین گاڑیاں مع ڈرائیور، گھریلو چوکیدار اور اندورن ملک اور بیرون ملک مفت سفرکرنے کی سہولت، ٹی اے ڈی سمیت فراہم کی جاتی ہے۔ریگولر سرکاری افسروں کے علاوہ ہر حکومت اپنے من پسند لوگوں کو بغیر تجربے اور اہلیت بھاری تنخواہوں پر بھرتی کرتی ہے،جہاں ایک افسر سے کام چلایا جا سکتا ہے وہاں 20،15افسربٹھا دیئے گئے ہیں اِس وقت اتحادی حکومت کے کم و بیش 50کے لگ بھگ وزیر، مشیر، وزیر مملکت، معاون، معاون خصوصی قومی خزانے پر بوجھ کی شکل میں موجود ہیں۔ایک وزیر/ مشیر قومی خزانے سے ایک کروڑ روپے کی ماہانہ تنخواہ اور دیگر سہولتیں وصول کرتا ہے جبکہ اِن تمام وزراء کو بلٹ پروف اور قیمتی گاڑیاں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔اِسی طرح پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا،بلوچستان اور گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کو بالترتیب اڑھائی لاکھ روپے فی ممبر، ایک لاکھ75 ہزار روپے فی ممبر، ڈیڑھ لاکھ روپے فی ممبر، بلوچستان اسمبلی کے ممبران کو ایک لاکھ 25ہزار روپے فی ممبر ادا کیے جاتے ہیں۔گلگت بلتستان میں شاید بلوچستان کا ریٹ ہی رائج ہو گا۔اِس طرح قومی اسمبلی کے ممبران کو تین لاکھ روپے فی ممبر اور سینیٹ کے اراکین کو چارلاکھ روپے فی ممبر قومی خزانے سے ادا کیے جاتے ہیں،اِس طر ح صرف پارلیمان کے اراکین کی تنخواہوں پر سالانہ 35 ارب سے زائد خرچ ہوتے ہیں۔


ہاؤس رینٹ، گاڑی، گھر کے بل، ہوائی ٹکٹ، بیرون ملک دورے اور رہائش کے اخراجات اِس کے علاوہ ہیں۔ اِس میں سپیکر، ڈپٹی سپیکر، وزراء، وزیر اعلیٰ، گورنر، وزیراعظم، صدر کی تنخواہیں شامل نہیں ہیں۔مختلف اجلاسوں کے اخراجات اور بونس ملا کرسالانہ خرچ 85 ارب کے قریب پہنچ جاتا ہے۔اُن میں سے اکثر لوگ پورا ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ کیا اُن کے بارے میں معلومات جاننا عوام کا حق نہیں؟کیونکہ یہ سارا پیسہ عوام ہی کے ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے۔۔۔ حیرت کی بات تویہ ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کی صورت میں سینیٹ اور قومی اسمبلی  کے تمام ممبران  کو لاکھوں روپے فی ممبر پنشن بھی ملتی ہے اور دیگر مراعات بھی۔اِس میں صدر، وزرائے اعظم، چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کو تاحیات بھاری پنشن اور مراعات حاصل رہتی ہیں۔ عدلیہ اور فوج کے افسران بھی تا حیات مراعات لینے والوں میں شامل ہیں، اگر ملک کا خزانہ خالی ہے توعوام پر سارا بوجھ ڈالنے کی بجائے گریڈ17سے گریڈ 22کے تمام افسروں کی تنخواہوں اور مراعات کو نصف کرکے لاکھوں روپے پنشن لینے والوں کو بھی زیادہ سے زیادہ50ہزار لینے کا پابند کیا جائے اور تاحیات تمام مراعات یکسر ختم کردی جائیں۔یہ سب کچھ مالی ایمرجنسی لگا کر ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -