پنجاب کا سیاسی میدان 

پنجاب کا سیاسی میدان 
پنجاب کا سیاسی میدان 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا ہے کہنے کو تو وزیراعظم شہباز شریف نے کہہ دیا ہے کہ عمران خان کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے اور وفاقی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا چھکا لگا کر عمران خان نے ایک بڑی سیاسی ہلچل مچا دی ہے۔ وقت گزرے گا تو معلوم ہوگا کہ حالات کس طرف کو جاتے ہیں لیکن ایک اچھی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے تمامتر رکاوٹوں کے باوجود کراچی اور حیدر آباد ڈویژنوں میں بلدیاتی انتخابات کرا دیئے ہیں۔ ایک طرح سے اپنے آئینی اختیار کو منوایا ہے جس کے خلاف سندھ میں بہت مزاحمت ہوئی۔ حتیٰ کہ آخری وقت تک یہ خدشہ موجود رہا کہ کسی آرڈیننس کا سہارا لے کر انتخابات ملتوی کرا دیئے جائیں گے تاہم الیکشن کمیشن اپنے فیصلے پر مضبوطی سے جما رہا اور بالآخر سب کو اُس کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑا۔ اب ایک مرحلہ پنجاب کے انتخابات کا آئے گا۔ جہاں آئینی طور پر الیکشن کمیشن نے 90 دن کے اندر انتخابات کرانے ہیں اگر یہاں بھی الیکشن کمیشن نے کسی رکاوٹ کو آڑے نہ آنے دیا تو صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہو جائیں گے۔اِسی طرح اگر خیبرپختونخوا کی اسمبلی بھی تحلیل کر دی جاتی ہے تو وہاں بھی انتخابات کرانے پڑیں گے۔ اگرچہ آئینی طور پر ایسی کوئی مجبور ی نہیں کہ دو صوبوں میں انتخابات ہوں تو وفاق اور باقی دو صوبوں میں بھی بیک وقت کرائے جائیں تاہم اگر اِن دو صوبوں کے انتخابات کو سیاسی صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو آگے چل کر اُن کے نتائج لازماً عام انتخابات پر اثر انداز ہوں گے۔جب عام انتخابات کا اعلان ہوگا تو اِن دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوں گی بلکہ یہاں حکومتیں اپنا کام جاری رکھیں گی۔اگر بالفرض اِن دو صوبوں میں ایک بار پھر تحریک انصاف اور اُس کے اتحادیوں کی حکومتیں قائم ہو جاتی ہیں تو اِس کا فائدہ بھی تحریک انصاف کو ہی ہو گا تاہم ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اِن دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج واقعی یکطرفہ ہوں گے یا ایک بار پھر پہلے جیسے نتائج آئیں گے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی واضح برتری رہی ہے۔ البتہ پنجاب میں بڑی مشکل سے مسلم لیگ(ق) کے ساتھ اتحاد کے بعد حکومت بنائی گئی تھی۔ اگر اِس بار بھی ایسا ہی مینڈیٹ آتا ہے تو تحریک انصاف کو کوئی بڑا سیاسی فائدہ نہیں ہوگا۔


پنجاب میں مسلم لیگ (ن) ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ہمیشہ موجود رہی ہے بلکہ کہا یہی جاتا رہا ہے کہ پنجاب میں اکثریت کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کو مرکز ی اقتدار ملتا رہا ہے  تاہم اَس بار اِس جماعت میں ایک انتشار اور بددلی نظر آ رہی ہے، اِس کی ایک وجہ تو ملک کے معاشی حالات ہیں جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کو شدید سیاسی نقصان پہنچایا ہے۔ اپریل میں حکومت کی تبدیلی کا اگر کسی سیاسی جماعت کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو وہ بلا شبہ مسلم لیگ (ن) ہے۔ پیپلزپارٹی اگرچہ اُس اتحاد کا حصہ ہے جو اِس وقت ملک پر حکمرانی کر رہا ہے مگر آصف علی زرداری نے بڑی خوبصورتی سے پیپلزپارٹی کو مہنگائی کے اَثرات سے بچا لیا ہے اور یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے ہیں کہ جو اقتصادی فیصلے بھی کئے گئے ہیں اُن میں اُن کا ا کوئی کردار نہیں، یہ فیصلے شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے کئے ہیں، ویسے بھی پنجاب میں پیپلزپارٹی کا فی الوقت اتنا بڑا ووٹ بینک موجود نہیں جس کے متاثر ہونے کا خطرہ ہو، ابھی تو یہ فیصلہ بھی ہونا ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کا مقابلہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کیا جائے گا یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گی اگر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے تو اِس کا فائدہ بھی پیپلز پارٹی اُٹھائے گی۔ پیپلز پارٹی کی پنجاب اسمبلی میں پانچ نشستیں تھیں تو اِنہیں کم از کم 10کرنے میں تو کامیاب رہے گی۔ حالیہ دنوں میں یہ خبریں بھی آ چکی ہیں کہ پیپلزپارٹی تحریک انصاف سے نکلے ہوئے رہنماؤں کے ساتھ کسی سیاسی اتحاد کے لیے کوشاں ہے۔ جہانگیر ترین، علیم خان اور چودھری محمد سرور کے ساتھ بیک ڈور رابطوں کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے۔آصف علی زرداری چونکہ سیاست کے ایک منجھے ہوئے کھلاڑی اور جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اِس لئے امکان بہر حال موجود ہے کہ وہ اِس موقع کو گنوانا نہیں چاہیں گے۔ اُن کی جنوبی پنجاب پر نظر ہے اور وہ بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ انتخابات میں الیکٹیبلز کو ساتھ ملا کر وہ انتخابات میں سرپرائز دیں گے، وہ سرپرائز دینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں تاہم اُن کے لئے یہ اچھا موقع ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے لئے وہ سیاسی جگہ بنائیں اور کم از کم اتنی نشستیں ضرور حاصل کر لیں کہ جب عام انتخابات ہوں تو قومی اسمبلی کی پنجاب سے خاطر خواہ نشستیں حاصل کر کے بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کا اپنا خواب پورا کر سکیں۔


عمران خان نے پنجاب اسمبلی اِس اُمید پر توڑی ہے کہ انتخابات میں وہ دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہو کر واپس آئیں گے جس کے بعد پنجاب میں اُن کی مضبوط حکومت ہو گی اور جب مرکز کے انتخابات ہوں گے تو یہ مضبوط حکومت اُن سے تحریک انصاف کے لئے ایک بڑا سیاسی ستون ثابت ہو گی۔کیا وہ واقعی اتنی بڑی اکثریت حاصل کر لیں گے؟ ابھی اُن کے سامنے بھی کئی مشکلات ہیں سب سے پہلی مشکل تو یہ ہے کہ اُنہیں مسلم لیگ (ق) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنی ہے اگر وہ اِس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ مسلم لیگ (ق) کو تحریک انصاف میں ضم ہو کراُس کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لینا چاہئے تاہم یہ اتنا آسان نہیں مسلم لیگ (ق) ایک بڑی سیاسی حقیقت ہے اور  کئی دہائیوں سے سیاست میں اہم کردار ادا کر رہی ہے،ایک علیحدہ جماعت ہونے کی حیثیت سے چودھری برادران نے ہمیشہ بڑے سیاسی فائدے اٹھائے ہیں اب بھی چودھری پرویز الٰہی کو پہلے پنجاب کی سپیکر شپ اور بعد ازاں وزارت اعلیٰ اِس لئے ملی تھی کہ اُن کے 10ووٹ بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ اگر وہ تحریک انصاف میں شامل ہوتے تو اُن کے ہاتھ میں بارگیننگ پاور نہ ہوتی اور ایک دو وزارتیں دے کر اُنہیں سائیڈ لائن کر دیا جاتا۔ اِس بار مسلم لیگ (ق) پہلے سے زیادہ نشستیں مانگے گی کیونکہ چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی توڑ کر جس وفاداری کا ثبوت دیا اُس کی وجہ سے اُن کا اتنا حق تو بنتا ہے۔دوسری طرف خود عمران خان کے لئے تحریک انصاف کے امیدواروں کو ٹکٹوں کی تقسیم ایک دشوار مرحلہ ہوگا، حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اندر سے اگر عمران خان کے بیانئے اور کردار کو نکال دیا جائے تو اُس کے ارکان اسمبلی نے گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں اپنے حلقوں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ بھی ہیں کیا۔ میں ملتان کی مثال دیتا ہوں جس کی حالت اِس عرصے میں سنوارنے کی بجائے بگاڑی گئی ہے۔ملتان کو کوئی ایک میگا پراجیکٹ بھی نہیں دیا گیا، ارکان اسمبلی میں گروپ بندی عام رہی اور عوام اپنے مسائل کے حل کی خاطر مار مارے پھرتے رہے،شاہ محمود قریشی جو پارٹی اور حکومت میں انتہائی مضبوط پوزیشن کے حامل تھے،  اپنے حلقے تک کے مسائل حل نہ کروا سکے۔عمران خان سے تو کہتے ہیں کہ اُنہیں اپنے صوبائی ارکان اسمبلی پر فخر ہے کہ وہ دباؤ کے باوجود پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے مگر شاید وہ اِس حقیقت کو نہیں جانتے کہ اُن ارکان اسمبلی کی جو کارکردگی رہی ہے اِس کی وجہ سے وہ کسی اور سیاسی جماعت میں جانے کے قابل نہیں رہے۔


پنجاب میں تقریباً ہر جگہ یہ صورت حال ہے کہ نظریاتی اور پرانے کارکنوں اور رہنماؤں کو نظر انداز کر کے پیرا شوٹرز کو ٹکٹ دیئے گئے تھے چونکہ اِس وقت مقصد اقتدار کا حصول تھا اِس لئے الیکٹیبلز کی طرف زیادہ توجہ دی گئی۔ اب عمران خان نے کہا ہے کہ وہ نظریاتی کارکنوں اور نوجوانوں کو ٹکٹ دیں گے۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے تو کروڑوں روپے کی ضرورت ہوتی ہے پارٹی بھی ٹکٹ دینے کے لئے لاکھوں روپے کے عطیات مانگتی ہے۔ کیا ایسے میں کسی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کا رکن کو ٹکٹ مل سکتا ہے۔ پھر پارٹی کے اندر جس قدر گروپ بندی ہے،ہر بڑے رہنما نے اپنے علاقے میں موثر گروپ بنا کر اِس کی سرپرستی شروع کر رکھی ہے کیا وہ عمران خان یا پارلیمانی بورڈ کو میرٹ پر ٹکٹیں تقسیم کرنے کی اجازت دیں گے؟ اگرچہ تحریک انصاف کے پاس اِس وقت بڑا اچھا موقع ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہر نوجوان قیادت کو سامنے لائے کیونکہ موجودہ انتخابات عمران خان کے بیانیے پر ہوں گے اور ووٹ بھی اُن کے نام پر پڑیں گے مگر اِس کے لئے شاید عمران خان کے اردگرد موجود پارٹی کے سینئر رہنما تیار نہ ہوں اور پھر انہی لوگوں کو ٹکٹ دلوانے کی کوشش کریں جو ان کے گروپ میں شامل ہیں تاکہ حکومت بننے کی صورت میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھ سکیں۔ بہر حال وقت گزرے گا دھند چھٹے گی تو صورتحال بہتر ہوتی جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان تو کر دیا ہے مگر ساتھ ہی اِس کے کارکنوں کو مایوس کن خبر بھی دی گئی ہے کہ نواز شریف فی الحال موجودہ سیاسی صورت حال میں پاکستان نہیں آئیں گے۔ تو الیکشن مہم کا سارا بار مریم نواز کے کاندھوں پر آ جائے گا۔ کیونکہ شہباز شریف تو وزیراعظم کی حیثیت سے اور پارٹی کے اہم رہنما وزارتوں میں ہونے کے باعث سیاسی مہم میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ ایک طرف تحریک انصاف کی دھواں دار انتخابی مہم ہو گیا ور دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی نیم دلانہ مہم اور اقتصادی ناکامیوں کا ملبہ کیا پنجاب کا میدان ایسے مارا جا سکے گا؟

مزید :

رائے -کالم -