روس۔ یوکرین وار: چند بنیادی تقاضے

اِس کے باوجود کہ میرے اکثر موضوعات پاکستان کی داخلی سیاست پر نہیں بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی حالات پر تحریر ہوتے ہیں، بہت سے قارئین کے فون آتے رہتے ہیں کہ فلاں مسئلے پر لکھیں اور فلاں موضوع پر اپنی حتمی رائے کا اظہار کریں۔ میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ دوسرے کالم نگار بھائیوں کے ساتھ بھی صورتِ حال یہی ہو گی۔شاید اِسی لئے بیشتر اردو کالم نگار حضرات ملک کی داخلی سیاسیات پر تبصروں اور تجزیوں ہی کی عکاسی کرتے رہتے ہیں۔
اردو پرنٹ میڈیاکے ساتھ یہ مسئلہ ایک طویل مدت سے چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ جب کوئی قاری مجھ سے بین الاقوامی موضوع پر لکھنے کو کہتا ہے یا سوال کرتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے کہ ہم میں سے کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے آنگن سے باہر جھانک کر کوئی نئی بات پڑھنا یا سننا چاہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں بہت سے قارئین نے یوکرین۔ روس وار پر تازہ ترین صورتِ حال کے بارے میں پوچھا کہ بتایئے وہاں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے اِن کو بتایا کہ پہلے اپنی چارپائی کے نیچے ”ڈنگوری“ پھیرنی چاہیے، دوسروں کے پلنگ کے نیچے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن وہ یہ سن کر ایک طویل بحث شروع کر دیتے ہیں جو میرے لئے اِس حوالے سے طمانیت افزاء ہوتی ہے کہ چلو کوئی طبقہ تو ہے جو بیرونِ در دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ نام لینا کوئی اچھی بات تو نہیں لیکن لاہور سے منیب صاحب اور فرحان صاحب، ملتان سے نسیم احمد صاحب، کراچی سے منظور صاحب اور مانسہرہ سے نذیر شاہ صاحب اِس موضوع پر ایک تواتر سے ترغیب دیتے رہتے ہیں کہ کچھ لکھئے۔
پچھلے دنوں دیر بالا سے بھی ایک صاحب نے فون کیا اور اپنا نام جمال منیجر بتایا۔ یہ نام مجھے کچھ اجنبی سا لگا اور پوچھا کہ آپ کس بینک کے منیجر ہیں؟۔۔۔ وہ یہ سن کر ہنس دیئے اور کہا کہ: ”یہ والدین سے پوچھیں جو قبرستان میں سو رہے ہیں۔ میری عمر 75سال سے زیادہ ہے۔ 1965ء کی جنگ کل کی طرح یاد ہے۔ میرا ایک بیٹا نادرا راولپنڈی میں ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں اِس کے پاس گیا تو ایک بازار میں آپ کی کتاب دیکھی۔ اِس کا نام ”ضیاء الحق کے ہمراہ“ تھا۔ آدھی پڑھ چکا ہوں۔ ضیاء الحق ہمارا ہیرو تھا۔ اِس نے پاکستان کو ایٹم بم دیا اور وہ پکا مسلمان تھا۔ اِس کتاب کے تعارف میں آپ کا فون نمبر دیا ہوا تھا، میں نے سوچا ٹرائی کرتا ہوں۔ الحمدللہ! آپ سے بات ہوئی۔ آپ یوکرین اور روس کے درمیان جو جنگ ہو رہی ہے، اِس پر لکھیں۔ ہم نیٹ پر روزنامہ ”پاکستان“ دیکھتے ہیں تو اِس میں کبھی کبھی اِس جنگ کی خبر بھی ہوتی ہے لیکن وہ جنگ جو ہمارے سیاستدان لڑ رہے ہیں، اِس پر تو پورا اخبار ’لکھا‘ ہوتا ہے۔۔۔ معاف کرنا میری زبان پشتو ہے اور بڑی سخت پشتو ہے۔ آپ یہاں دِیربالا میں تشریف لائیں۔ میں آپ کو دروش (چترال)لے جاؤں گا اور وہاں کا فرستان کی ”پریاں“ دکھاؤں گا۔ وعدہ کریں آپ ضرور آئیں گے۔۔۔ اور ہاں سچ روس اور یوکرین کی جنگ پر بھی کوئی مضمون یا کتاب ضرور لکھیں گے“۔
جمال صاحب تادیر گپ شپ لگاتے رہے اور میں نے محسوس کیا کہ لوگ واقعی پاکستان کے سیاسی حالات کی روز روز کی چخ چخ سے تنگ آچکے ہیں اور کوئی نئی خبر اور نیا موضوع پڑھنے کو مانگتے ہیں۔
اب آ جاتے ہیں یوکرین۔روس جنگ کی طرف۔۔۔ گزشتہ تقریباً ایک سال سے یہ جنگ جاری ہے اور میں نے گاہے بگاہے اِس موضوع پر لکھا بھی ہے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے جو خیال بار بار تنگ کرتا ہے وہ ہم پاکستانیوں کی وہ عادتِ خواندگی ہے جو جنگ و جدال کے موضوع پر خواندگی کے بنیادی تقاضوں پر پورا نہیں اترتی۔۔۔ چند پہلوؤں کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں:
اول یہ کہ اِس روس۔یوکرین جنگ کے جغرافیائی نقوش سے اکثر پاکستانی حضرات واقف نہیں۔
دوم یوکرین کے شہروں اور قصبوں کے نام سخت نامانوس ہیں اور اِن کو اردو میں لکھنا، بولنا اور پڑھنا ایک تکلیف دہ ایکسرسائز ہے۔
سوم اِن دونوں ملکوں کی تاریخ سے پاکستانی قارئین کی اکثریت آگاہ نہیں۔ گزشتہ صدی میں اِن ممالک میں دونوں عظیم جنگیں (اول اور دوم) لڑی گئیں۔ اِن جنگوں کی تاریخ سے بہت کم قارئین آگاہ ہیں۔ صرف وہی لوگ اِس کی خبر رکھتے ہیں جو فوج میں رہے اور ہیں اور جنگ و جدل کی تاریخ کی معلومات اِن کی مجبوری تھی یا وہ لوگ جو اِن ملکوں کے پاکستانی سفارت خانوں میں تعینات رہے۔چاہیے تو یہ تھا کہ یہ سفارت کار جب واپس پاکستان آتے یا ریٹائر ہوتے تو اِن ممالک میں اپنے قیام کے تاریخی، سفارتی، سیاسی اور سماجی حالات پر (اردو میں) کوئی کتاب لکھتے تاکہ پاکستان کا اردو خواں طبقہ اِس سے کوئی استفادہ کر سکتا۔
چہارم ہم کئی برسوں سے اِن دونوں ملکوں سے گندم درآمد کرتے آ رہے ہیں۔ ہمارا بہت سا دفاعی ساز و سامان (ٹینک، توپخانہ،کلاشنکوف رائفل، بکتر بند گاڑیاں وغیرہ) بھی اِن دونوں ملکوں سے خرید کردہ ہے۔ جو پاکستانی ہماری اِن درآمدات کی خرید سے متعلق رہے تھے اِن کا فریضہ تھا کہ وہ اِن ملکوں کی زرعی اور دفاعی پیداوار کی کامیابیوں پر کوئی مضامین اور کتابیں لکھتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
پنجم ہمارے کئی پاکستانی طالب علم اِن دونوں ملکوں کی یونیورسٹیوں اور دوسرے تربیتی اداروں میں ایک عرصہء دراز سے بھیجے جا رہے ہیں۔ اِن کی طرف سے بھی ایسی کوئی کاوش نہیں کی گئی جو پاکستان کے سوادِ اعظم کو اِن ممالک کے حالات و واقعات سے آگاہ کرتی۔
قارئین ِ محترم! حقیقت یہ ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی اور ایک جوہری ملک کے شہری ہونے کے باوجود بھی نہ تو روس کے بارے میں کچھ زیادہ جانتے ہیں اور نہ یوکرین کے حالات سے کوئی تعلق گردانتے ہیں۔ اگر میں اِس جنگ کے بارے میں لکھوں بھی تو مجھے گراؤنڈ وار فیئر میں علاقوں، شہروں اور قصبوں کے نام تو لکھنے پڑیں گے۔ جنگ اور جغرافیے کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ میدانِ جنگ کی نقشہ کشی، طرفین ِ جنگ کی عسکری استعداد، گراؤنڈ (ٹیرین) کی طبعی جغرافیائی تفاصیل ازقسم دریا، جھیلیں، کوہستان، میدان، درے، شاہرائیں، جنگلات، آب و ہوا لوگوں کے پیشے وغیرہ جب تک بیان نہ کئے جائیں کسی بھی چھوٹے بڑے جنگی آپریشن کی کوئی تفصیل پلّے نہیں پڑتی۔اِس خطے میں آج تک بہت سی جنگیں لڑی جا چکی ہیں اِن کا سرسری احوال بھی قاری کو معلوم ہونا چاہیے۔ روس اور یوکرین کی یہ جنگ فی الحال زیادہ تر گراؤنڈ فورسز کے درمیان لڑی جا رہی ہے۔ گراؤنڈ پر نقشے میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اِن ممالک کے فضائی اور بحری مستقروں (Bases) کی لوکیشن کیا ہے۔ اِس طرح کے اور بھی درجنوں پہلو ایسے ہیں کہ جب تک اِن کی ابتدائی جانکاری کسی قاری کو نہ ہو، جنگ یا لڑائی کے بارے میں میرا لکھنا کارِ لاحاصل ہے۔
تاہم کوشش کروں گا کہ آئندہ چند کالموں میں قارئین کے تقاضوں کے مطابق کچھ نہ کچھ تفصیلات ضرور سپردِ قلم کروں۔ انشاء اللہ……