شیخ رفیق احمد۔۔۔ چند تاثرات!
پیپلزپارٹی والے الطاف احمد قریشی بڑے ستم ظریف ہیں وہ اپنے صحافتی پس منظر کاپورا فائدہ اٹھاتے اور تنقید کرنے والوں میں پیش پیش ہوتے ہیں آج کل شاید ان کے پاس ایسا موقع نہیں، وہ فیس بک پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی تصاویر پوسٹ کرنے کے ساتھ ساتھ پیغام بھی تحریر کرتے رہتے ہیں۔ پرانے دور کی بات ہے پیپلزپارٹی بہرحال چاروں صوبوں کی زنجیر کا نعرہ لگاتی تھی تو چاروں صوبوں میں بھی تھی، یہ اسی اچھے دور کا ذکر ہے، شادیوں کا ایک سیزن ایسا آیا کہ ایک ایک روز میں دو دو تین تین شادیوں کی دعوت ہوتی تھی۔ایسے ہی ایک روز پاکستان پیپلزپارٹی کے دو راہنماؤں کی طرف سے دعوت تھی۔ ہمیں بھی جانا تھا، چنانچہ یہی طے کیا کہ دونوں دعوتوں میں جائیں، لیکن کھانا ایک ہی جگہ کھایا جائے۔ پہلی جگہ پہنچے تو پیپلزپارٹی کی قریباً ساری قیادت موجود تھی۔ ان میں الطاف احمد قریشی ، میاں مصباح الرحمن ، نوید چودھری، خالد کھرل اور دوسرے رہنماؤں کے ساتھ شیخ رفیق احمد (مرحوم) بھی موجود تھے۔ میزبان سب کو روک رہے تھے کہ کھانا بہرحال کھا کر جائیں، ان کو دوسری شادی کا بھی علم تھا لیکن وہ بضد رہے۔
ہم نے اور چند دوسرے حضرات نے یہاں تھوڑا کھایا کہ دوسرے گھر بھی یہی مجبوری ہوگی، ہم سب میں میاں مصباح الرحمن اس معاملے میں کاریگر ہیں کہ وہ ایک دن میں شادی کی پانچ چھ تقریبات بھی بھگتا لیتے ہیں، بلکہ ان کا ریکارڈ گیارہ کا ہے، وہ ہم سب سے گپ لگا رہے تھے لیکن کھانے کے وقت غائب تھے کہ چپکے سے کھسک لئے۔ بعد میں نوید چودھری کی فقرے بازی سے سب محظوظ ہوئے۔ بہرحال ہمارے محترم شیخ رفیق احمد نے حق ادا کیا۔ ہم نے دریافت کر لیاکہ انہوں نے اگلی تقریب پر بھی جانا ہے، ان کا جواب تھا ضرور، ہم نے ازراہ ہمدردی کہہ دیا کہ پھر یہاں کم کھا لیں، الطاف قریشی قریب تھے بولے! فکر نہ کرو، شیخ صاحب وہاں بھی پورا انصاف کریں گے، چنانچہ یہی ہوا کہ اگلے گھر بھی شیخ رفیق نے ڈٹ کر کھانا کھایا کہ یہ کھانا بھی اچھا پکا ہوا تھا۔یہ بھی یوں یاد آیا کہ منگل (14جولائی) کو مرحوم کی برسی تھی۔ ان کو وفات پائے آٹھ سال ہو گئے۔ ہمیں یاد نہیں تھا،تاہم برادرم ضیاء کھوکھر نے ایک سے زیادہ مرتبہ یاد دلایا، تو ہم نے منگل کو سیاسی ایڈیشن بناتے وقت مختصراً ان کا ذکر کرکے تصویر بھی لگا دی، تاہم تشنگی رہی کہ حق ادا نہیں ہوا۔
شیخ رفیق کوئی معمولی آدمی نہیں تھے وہ بہت پکے پپلئے تھے اور پارٹی کے ترقی پسندوں میں سے تھے اور بات بھی کرتے رہتے تھے۔ ہماری ان کے ساتھ یاد اللہ کورٹس رپورٹنگ کے دور سے تھی کہ وہ وکیل تھے، شیخ رفیق احمد، مرحوم سابق وفاقی وزیر قانون میاں محمود علی قصوری کے چیمبر میں بیٹھتے تھے اور ان کے ساتھ ہی ان کی سیاست بھی تھی دونوں نیشنل عوامی پارٹی میں تھے۔1967ء میں جب پیپلزپارٹی بن گئی تو بہت سے نامور حضرات نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی انہی دنوں میاں محمود علی قصوری نیشنل عوامی پارٹی کی تقسیم سے نالاں اور دل برداشتہ تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو مشورہ دیا گیا اور انہوں نے چند حضرات کی ذمہ داری لگائی۔ چنانچہ ایک روز گرین سگنل مل گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو میاں محمود علی قصوری کی رہائش گاہ (عقب ہائی کورٹ) چل کر آئے، یہاں میاں محمود علی قصوری نے باقاعدہ پریس کانفرنس میں ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کیا کہ ان کو جماعت کا منشور پسند آیا ہے، ان کے ساتھ ہی شیخ رفیق احمد بھی پیپلزپارٹی میں چلے آئے۔
میاں محمود علی قصوری تو لاہور کے مشہور معرکہ والے حلقے سے ضمنی انتخاب میں ایم این اے منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے یہ نشست خود بھٹو مرحوم نے جیت کر خالی کی تھی۔ مدِ مقابل فرزندِ اقبال تھے اور شیخ رفیق احمد پنجاب اسمبلی کے رکن بنے، پھر ایک تاریخ ہے کہ ایک کے دو ملک بنے اور موجودہ پاکستان کا اقتدار پیپلزپارٹی کو ملا تو میاں محمود علی قصوری کو قانون کی وزارت کا قلمدان سونپا گیا۔ زیادہ دیر نہ گزری، میاں محمود علی قصوری کے اختلافات ہوئے اور انہوں نے وزارت کے ساتھ پیپلزپارٹی بھی چھوڑ دی اور ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی تحریک استقلال میں چلے گئے۔اس کو بہت مختصر کیا کہ ذکر شیخ رفیق کا مقصود ہے جو اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، بہرحال شیخ رفیق احمد ساتھ تو ضرور آئے تھے لیکن پھر ساتھ واپس نہیں گئے اور پیپلزپارٹی کے ہو کر رہ گئے، یہاں ان کو بہت عزت بھی ملی، وہ پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے اور یہ فرائض زبردست طریقے سے نبھائے کہ خود اچھے وکیل تھے۔وہ خوش خوراک تھے تو کچھ عرصہ وزیر خوراک بھی رہے۔ایک بات یہ بھی بتانا ٹھیک ہی ہوگا کہ میاں محمود علی قصوری بلند آواز سے بولتے تھے تو شیخ رفیق بھی کچھ کم نہ تھے بلکہ کہاجاتا تھا کہ شیخ صاحب بول رہے ہیں ان کو مائیک کی کیا ضرورت ہے؟
شیخ رفیق احمد پارٹی کے کئی عہدوں پر بھی فائز رہے اور بڑی تکلیفیں بھی برداشت کیں، ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں وہ خود، ان کی اہلیہ اور صاحبزادے بھی اسیر رہے، تھانے، حوالات اور جیل ایسے ہی لوگوں کے لئے ہوتی ہے۔ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو والے دور میں بھی وہ اعتماد کے اہل تھے ان کو پیپلزپارٹی لاہور کا صدر بنایا گیا تو لاہور کو صوبے کا درجہ بھی دے دیا گیا۔ چنانچہ وہ لاہور کے صدر ہوتے ہوئے بھی صوبائی تنظیم کے ماتحت نہیں تھے۔ مرحوم کو صدمات بھی بہت پہنچے، ایک صاحبزادے کا قتل ہوا تو دوسرے صاحبزادے بیمار ہو گئے، حتیٰ کہ ان کو پاؤں میں گینگرین کی وجہ سے ان کا پاؤں بھی کاٹنا پڑا۔ وہ بڑے حوصلہ مند تھے اور جدوجہد سے بھرپور زندگی گزاری، وہ خود کو لیڈر نہیں کارکن سمجھتے تھے، ایسے حضرات کی پیپلزپارٹی میں کمی ہی کمی ہے۔