بنگلہ دیش کی سیاست اور مطیع الرحمان نظامی کی شہادت(2)

بنگلہ دیش کی سیاست اور مطیع الرحمان نظامی کی شہادت(2)
 بنگلہ دیش کی سیاست اور مطیع الرحمان نظامی کی شہادت(2)

  

جنگی جرائم کے الزام کی حقیقت :

اس امر کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان سے وفاداری، اس کے تحفظ کی جدوجہد اور آخری لمحے تک جدوجہد ایک چیز ہے، اور زمینی حقائق کے نتیجے میں سیاسی نقشے کی تبدیلی کے بعد نئی مملکت سے تعلق اور وفاداری ایک دوسری شے۔ اول الذکر کو دوسرے پہلو سے دشمنی یا مخالفت کی دلیل بنانا، بدنیتی اور خلط مبحث ہی نہیں، تاریخی حقائق کا بھی مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کانگریس، خدائی خدمت گار، احرار اور جمعیت علماے ہند نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی لیکن پاکستان کے قیام کے بعد جب انھوں نے پاکستان کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کرلیا تو وہ قومی زندگی کا حصہ بن گئے اور کانگریس کے ارکان نے پارلیمنٹ میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اسی طرح آل انڈیا مسلم لیگ کی پوری قیادت نے پاکستان کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی مگر تقسیم کے بعد ہندستان کا حصہ بننے والے علاقوں کی مسلم لیگ کی قیادت بھارت کی وفادار شہری بنی اور پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر اپنا کردار ادا کرنے لگی۔ یہی معاملہ ان 150سے زیادہ ممالک کی سیاسی قوتوں کے بارے میں رہا جنھوں نے تحریکاتِ آزادی میں حصہ لیا تھا یا اس کا مقابلہ کیا تھا لیکن آزادی کے بعد آزادی سے پہلے کی سیاسی صف بندیوں کو قصۂ ماضی بناکر نئے دروبست میں نیا کردار ادا کیا۔

مجھے خوشی ہے کہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کے فیصلے پر بحث کرتے ہوئے اس نکتے کو واضح کردیا ہے اور بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے کے دور کے سیاسی موقف اور جنگ کے دوران یا اس کے بعد انسانی جان، مال اور عزت کے باب میں جرائم کو دوالگ الگ ایشوز تسلیم کیا ہے۔ اس تاریخی فیصلے میں جہاں پروفیسر صاحب کے بارے میں یہ بات صاف الفاظ میں کہی گئی ہے کہ 1971 ء تک پاکستان سے وفادار ہونے، 1971ء کے بعد بنگلہ دیش سے باہر رہنے، 1973ء میں بنگلہ دیش میں ان کو شہریت سے محروم کر دینے اور 1978ء میں بنگلہ دیش واپس آکر شہریت سے محرومی کے علی الرغم بنگلہ دیش میں رہنے سے ان کے حقِ شہریت اور بنگلہ دیش کی آزاد مملکت سے وفاداری پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ رہا معاملہ جنگی جرائم یا کسی دوسرے پہلو سے کسی ایسے جرم کا جسے وارکرائم یا Collaborators Act میں جرم قرار دیا گیا ہو تو 1992ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے تک بھی پروفیسر صاحب کو کسی ایسے جرم میں ماخوذ نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بہت واضح ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے 2010ء سے جو محاذ کھولا ہے، وہ طبع زاد ہے اور 1992ء سے 2008ء تک پروفیسر صاحب یا جماعت اسلامی کی قیادت پر قتل و غارت اور اخلاقی جرائم کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جو کچھ گذشتہ چھے سات سال سے کیا جارہا ہے، وہ حکومت کی صریح دروغ بیانی ہے۔ جنگی جرائم کے نام نہاد ٹریبونل نے جو کچھ کیا ہے، وہ انصاف کا قتل ہے۔ غضب ہے کہ ان بے داغ سیاسی قائدین پر ایک سے ایک کریہہ اتہام لگایا جارہا ہے اور ظلم کی انتہا ہے کہ ان ناکردہ گناہوں پر ان کو پھانسی اور عمرقید کی سزائیں دی جارہی ہیں۔

سپریم کورٹ کے 1992ء کے فیصلے میں پروفیسر غلام اعظم صاحب کے بارے میں جسٹس بدرالعالم چودھری نے اپنے فیصلے کے پیراگراف ۴۷ میں لکھا ہے:

ان افراد کے مقدمے اور سزا کے لئے، جنھوں نے جنگِ آزادی کے دوران افواجِ پاکستان سے خفیہ تعاون کیا اور یہ کرتے ہوئے دیگر مجرمانہ افعال کے لئے ایک خصوصی قانون بنا: Bangladesh Collaboration (special tribunal) Order 1972 (PO No.89 1972) بنایا گیا۔ اس قانون کے تحت کچھ لوگوں پر مقدمہ چلایا گیا اور سزا دی گئی۔ لیکن بعد میں سزایافتہ اور ان افراد کو جو مقدمات کے لئے مطلوب تھے، معافی دے دی گئی، سواے ان لوگوں کے جو سنگین جرائم، مثلاً قتل، عصمت دری، آتش زنی وغیرہ میں سزا یافتہ تھے یا مطلوب تھے۔ بالآخر یہ قانون منسوخ کر دیا گیا۔ لیکن نہ تو ۲۷۹۱ء کا PO No.8 اور نہ PO No.149 میں کوئی ایسی دفعہ ہے جو کسی کی بنگلہ دیش کے شہری ہونے کی اہلیت ختم کردے۔بھارتی فوج کے ساتھ جنگِ آزادی کے دوران تعاون کرنے اور قتل، عصمت دری یا آتش فشانی کرنے یا اس میں مدد دینے یا آزادی کے بعد بنگلہ دیش دشمن سرگرمیوں میں حصہ لینا، اس قسم کے کسی جرم کا ارتکاب درخواست گزار کے خلاف کسی بااختیار عدالت میں ابھی تک رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی آگے بڑھ کر درخواست گزار کے خلاف کریمنل لا کے تحت پولیس میں ایف آئی آر درج کرواکر یا کسی مجسٹریٹ کے سامنے درخواست دائر کر کے کارروائی کا آغاز نہیں کیا ہے۔

اسی طرح سپریم کورٹ کے جسٹس انوارالحق چودھری نے اپنے فیصلے کے پیراگراف 126میں پروفیسر صاحب کے بارے میں ان تمام الزامات کوغیرمتعلق اور غیرمؤثر قرار دیا جو اٹارنی جنرل نے اخباری تراشوں کی مدد سے پیش کیے اور جن پر 1992ء کے عدالتِ عالیہ کے اس فیصلے کے علی الرغم جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت نے فیصلے صادر فرمائے ہیں۔ ملاحظہ ہو:مزید یہ کہ درخواست گزار نے بعد کی مطبوعات میں درج کیے گئے واقعات کی سچائی کو چیلنج کیا ہے۔ سواے چند خبروں اور ایک تصویر کے جن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ درخواست گزار جنرل ٹکا خان یا جنرل یحییٰ سے ملا ہے، کوئی چیز بھی نہیں ہے جو درخواست گزار کو ان مظالم میں ملوث کرے جن کا پاکستانی فوج اور ان کے حلیفوں البدر اور الشمس کے رضاکاروں پر الزام لگایا جاتا ہے۔ کوئی بھی چیز درخواست گزار کو براہِ راست ملزم ثابت نہیں کرتی سواے اس بات کے کہ درخواست گزار آزادی کی اس جنگ کے دوران فوجی جنتا کے ساتھ ملتاجلتا تھا۔(جاری ہے)

مزید :

کالم -