شہرت کے یہ طلب گار

شہرت کے یہ طلب گار
شہرت کے یہ طلب گار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’جانے کی باتیں ہوئی پرانی ۔۔خداکے لئے! اب آجاؤ‘‘ بڑے شہروں کی شاہراؤں پر جھولتے یہ پوسٹر کس کی طرف سے ہیں؟حیرت ہے پوسٹرز کے نیچے پارٹی کا نام اورفون نمبر بھی دئیے گئے ہیں ‘ایک آدھ ٹی وی چینل نے اس شخص سے انٹرویو بھی کیا ‘پھر بھی سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات لگارہے ہیں ‘کوئی اسے اپوزیشن کی کارستانی‘ کوئی حکومت کی کارروائی اور کوئی فوج کی خواہش قرار دے رہا ہے ۔فوج کے ترجمان نے برملااس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے‘ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے جنوری میں بھی ٹویٹ کیا تھا کہ آرمی چیف ملازمت میں توسیع نہیں لیں گے اور مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہوجائیں گے۔اب پھرکوئی محب وطن ’’خدا کے لئے آجاؤ‘‘ کی دہائی دے رہا ہے ۔یہ محب وطن کون ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں‘ اوراسے کس کی سپورٹ حاصل ہے؟ ’موو آن پاکستان‘ پارٹی کے سربراہ فیصل آباد کے بزنس مین میاں کامران ہیں‘ان کے پانچ بھائی ہیں۔یہ سب بڑا اچھا کاروبار کرتے ہیں ‘ ایک سکول چلاتے ہیں اورایک مقامی اخباربھی نکالتے ہیں ۔پیسہ ان کے پاس بہت تھا لیکن گمنامی سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہورہی تھی اور شہرت کی تمنّانے مچل مچل کرہلکان کردیا تھا۔ مقامی اخبار نے بھی تسکین کا سامان پیدا نہیں کیا ۔چند ماہ قبل انہوں نے مختلف شہروں میں’’جانے کی باتیں جانے دو‘‘کے پوسٹر آویزاں کئے لیکن بات بنی نہیں البتہ اس بار کام بن گیا اور شہرت کو ترستے محب وطن کا نام گونج اٹھا۔’’خدا کے لئے اب آجاؤ ‘‘ کہنے والاکوئی ایک شخص نہیں بلکہ یہ ایک مائنڈسیٹ ہے‘ ایک طبقہ ہے جو سپہ سالاروں کی راہیں تکتا رہتا ہے۔


سپہ سالاروں سے ہمارا بڑارومانوی تعلق رہا ہے۔ خالد بن ولید‘فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبی ‘صلیبی جنگوں کے ہیرونورالدین زنگی ‘فاتح سپین طارق بن زیاد ‘فاتح سندھ محمد بن قاسم ‘موسی بن نصیر ‘ٹیپو سلطان ‘حیدر علی اور اسی طرح بہت سے نام ہمیں سرشار کردیتے ہیں ‘ذہن میں عظمت کاایک احساس پیدا کرتے ہیں۔ان سپہ سالاروں کے کردار ہمارے افسانوں‘ ناولوں اور جنگی ڈراموں میں ہیرو بنے ۔ہمارے تخیل میں اب بھی شہسوار گھوڑوں پرتلواریں لہراتے دشمن کی صفوں کو چیرتے آگے بڑھتے اور بڑھتے جارہے ہیں ۔


آرمی چیف جنرل راحیل شریف اس وقت پسندیدگی کی بلندیوں پر ہیں ۔ وہ 29نومبر2013کو چیف بنے، ان کی تین سالہ مدت28 نومبر کوپوری ہوجائے گی ۔اگر وہ اپنے عزم پر قائم رہے تو وہ جنرل ڈگلس گریسی ‘جنرل ٹکا خان ‘جنرل مرزا اسلم بیگ اورجنرل عبدالوحید کاکڑکے بعدپانچویں چیف ہوں گے جواپنی مدت پوری کرکے ایکسٹینشن کے بغیر ریٹائر ہوں گے ۔کئی لوگ ان کی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں ‘بلکہ کئی تواشارے کنایوں میں سول حکومت گرانے کے بھی مشورے دے رہے ہیں‘کچھ سوشل میڈیا پر ایک انداز کی تحریک چلارہے ہیں اور کچھ سڑکوں پر نکل کر مظاہرے بھی کررہے ہیں ۔ایکسٹینشن کا مطالبہ کرنے والوں کی رائے ہے کہ جنرل راحیل شریف دہشت گردی کے خلاف موثر جنگ لڑ رہے ہیں اور جنگ کے فیصلہ کن مرحلے پر کمانڈر کو تبدیل نہیں کیا جانا چاہئے‘اس سے جنگ متاثر ہوسکتی ہے ۔انہیں خدشہ ہے کہ کہیں دہشت گردی کے خلاف پالیسی ہی نرم نہ پڑجائے ‘کہیں تتر بتر ہوئے دہشت گرد پھر سے منظم نہ ہوجائیں۔یہ خوف کچھ بے جا بھی نہیں کہ ہماری عسکری تاریخ میں سپہ سالار بدلنے سے پالیسیاں تو بدلتی رہی ہیں۔البتہ سول حکومت گرانے کا مشورہ دینے والوں کے مقاصد نیک نہیں کہے جاسکتے۔منتخب آئینی حکومت گرانے کا سادہ مطلب ملک کو اندھیروں میں گراناہے‘اس کا خیال ہی لرز ہ خیز ہے۔


بلاشبہ جنرل راحیل کی قیادت میں پاک فوج نے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔مذہب کی آڑمیں قتل و غارت اور حملے کرنے والے دہشت گردوں کا صفایا کیا اور سیاست کے لبادے میں ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری کرنے والے جرائم پیشہ پر ہاتھ ڈالا گیا۔ملک بھر میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز کئے گئے ۔ شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب جون 2014میں شروع ہوا، جسے ان کے پیش روشائد اس خوف سے شروع نہ کرسکے کہ اس کا ردعمل پاکستان کے اندر ہوگا۔وزیر ستان میں دہشت گردوں کی کمیں گاہوں اوران کے انفراسٹرکچر کو تباہ کیا ‘ساڑھے تین ہزار دہشت گردوں اور ساڑھے آٹھ سو کمیں گاہوں کو تباہ کیا ۔ملک بھر میں تیرہ سو بیس آپریشنز میں 185ہارڈ کور دہشت مارے گئے جبکہ 22ہزار سے زائد گرفتار کئے گئے ہیں ۔اس جنگ میں پانچ سو سے زائد آفیسر اور جوان شہید ہوئے ۔یہ دشمنوں کی وہ جنگ ہے جو ملک کے اندر لڑی جارہی تھی ‘ ملک کے کئی حصوں پر ریاست کی عملداری نہیں تھی‘کئی علاقے حکومت کے لئے نو گو ایریاز تھے ۔ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی شہ رگ جرائم پیشہ مافیاکے قبضے میں تھی جبکہ قانون نافذ کرنے والے سول ادارے بے بس اور ملٹری ادارے خاموش دکھائی دیتے تھے۔لیکن اب شہر میں کافی حد تک امن بحال ہوچکا ہے اور روشنیاں پھر سے جگمگارہی ہیں۔ ان کو ششوں کے نتیجے میں 2015گزشتہ دس سالوں میں محفوظ ترین سال قرار پایا۔


جنرل صاحب کی کامیابیاں متاثر کن ہیں :انہوں نے فوج کا وقار اور مورال بلند کیا ہے‘فوج کے اندر ہونے والے احتساب کو عوام کے سامنے پیش کیا ‘قومی ایکشن پلان کے ذریعے قوم کو دہشت گردی کے خلاف یکسواور اداروں کو متحرک کیا ۔لیکن ان کا سب سے نمایاں کام پینتیس سالہ سیکورٹی پالیسی کی تبدیلی ہے ۔انہوں نے سٹرٹیجک گہرائی اورجنگجوؤں کو اثاثہ سمجھنے کی پالیسی ترک کرکے ملک کو ہر قسم کی دہشت گردی سے پاک کرنے کی پالیسی اپنائی۔شائد ان کامیابیوں ہی کی بنیاد پر انہیں دنیا کابہترین آرمی چیف قرار دیا گیا ۔ ابھی ان کی مدت میں چار ماہ باقی ہیں ‘ان کے کریڈٹ پر کیا کچھ ہوگا اور وہ تاریخ میں کیسا نام بنا پائیں گے ‘حتمی طور پراسی وقت کہا جاسکے گا جس دن کمانڈ سٹک اگلے چیف کے سپرد کریں گے۔


کیا ’’خدا کے لئے! اب آجاؤ‘‘ کہنے والے ملک سے بلکہ خود فوج اور اس کے نیک نام سربراہ سے مخلص ہیں ؟یہاں ہردور میں فوج کو دعوت دینے والے ‘اس کی آمد پر مٹھائیاں بانٹنے والے اور آرمی چیف کو بڑے بڑے خطابات دینے والے موجودرہے ہیں ۔ہمارے ملک کی سیاسی زندگی کے نصف حصہ پرچار جرنیلوں کی حکومت رہی۔ انہوں نے خود ہی فیصلہ کیا اور قوم کے ان داتا بن گئے اورپھر اپنی مدت ملازمت میں خود ہی توسیع کرتے رہے۔فیلڈمارشل بھی بنے ‘امیر المومنین بھی کہلائے اورکمال اتاترک کے پیروکار بھی۔ایک ایسا بھی رنگیلا آیا جسے ہوش رُبارنگینیوں میں یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ ایسٹرن کمانڈ کودشمن کے سامنے ہتھیار پھینکنے کا حکم جاری کرچکا ہے‘ اپنی وردی کو کھال کہنے والے کو اپنی کھال بھی اتارنا پڑی اور قصر سلطانی سے بے آبروہوکر نکلنا بھی پڑا ۔ کیا فوجی حکومتوں نے ملک کے مسائل حل کردئیے؟کیا فوجی حکومتوں کی وجہ سے دنیا میں ہمارا وقار بلند ہوا‘ہم ایک ذمہ دار اور باشعور قوم کی حیثیت سے مانے گئے ؟ ’’خدا کے لئے! اب آجاؤ‘‘ کہنے والے تاریخ سے ناواقف ‘ ذہنی طور نابالغ اور سیاسی طور پر ناپختہ لوگ ہیں۔ فوجی مداخلت ایک غیر معمولی واقعہ ہوتی ہے اورملک کے لئے ایک زلزلہ‘ایک بھیانک خواب۔ ادارے قواعد و ضوابط کے تحت چلیں تو بتدریج مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں‘اسی طرح ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی رہے تو جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔اگر جمہوریت عوام کے مسائل حل نہیں کررہی تو مزید جمہوریت لائیں ‘زیادہ سے زیادہ باشعورافراد سیاسی عمل میں شریک ہوں ‘ شفاف الیکشن ‘بہتر نمائندے اور اداروں کی نگرانی سے بہتر حکمرانی کی طرف بڑھ سکتے ہیں ۔عزت ‘وقار اور ترقی کا یہی واحد راستہ ہے !

مزید :

کالم -