جاوید انور۔۔۔ دابیوروکریٹ، دارائٹر اینڈ دامسنگ لنکس (1)
یونانی دیومالائی اساطیر دیکھ لیں یاویدک پران کتھاشاستر، ابتدائے آفرینش سے طاقت کے دیوتاؤں کی ایک طویل فہرست یہ ثابت کرتی ہے کہ طاقت کا حصول انسان کی سرشت میں شدت سے موجود ہے۔ اقتدار کے حصول، تحفظ اور اسے عمر خضر بخشنے کے لئے جدوجہد، باہمی داروگیر اور کشاکش ایک فطری، ازلی اور مقناطیسی کشمکش ہے۔ اس ضمن میں ابلیس کی بغاوت کو بھی شامل کرنا چاہوں گی کہ اس کی بغاوت کہیں نہ کہیں اس طاقت کو برقرار رکھنے کی کوشش تھی جو اسے اللہ کا سب سے زیادہ مقرب ہونے کی صورت میں حاصل تھی اور جس کے خمارنے اسے غرور میں مبتلا کردیا تھا۔۔۔ غرور کچھ اور نہیں سوائے اس کے کہ صحیح اور غلط میں تمیز کی صلاحیت سے آدمی محروم ہو جاتا ہے۔ طاقت نے اسے غرور میں مبتلا کیا اور غرور نے اسے راندہ درگاہ کرکے نشان عبرت بنادیا۔یونانی دیومالائی اساطیر اور ابلیس کی مزاحمت سے قطع نظر نیچر(فطرت) عین فطرت میں خود بہت طاقتور ہے اور منفی اور مثبت دونوں طرح کی طاقتوں کا منبع و مخرج ہے۔ زن، زر اور زمین کے علاوہ غیر مرئی ذرائع اس کی طاقت کا سرچشمہ بنتے رہے۔ مراعات اور غیر مراعات یافتگان کی اس دنیا میں طاقتور کی طاقت، کمزور کی کمزوری سے مشروط ہے۔ عہدِ حاضر میں بھی فرد سے معاشرے اور پھر ریاستی حوالے سے اسی طاقت نے اپنے پنجے مضبوطی سے مجبور و کمزور کی پیٹھ میں گاڑ رکھے ہیں۔ باطنی کینوس سے ذات و تشخص کے وہ رنگ جو انسانیت اور باہمی اقدار کی مثبت طاقت سے متصل تھے معدوم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان حالات میں اگرکوئی صاحب حیثیت مذہبی، معاشرتی اور سماجی ناانصافیوں پر انسانیت کے حوالے سے ہمارے ادراک و شعور کو جھنجھوڑتا ہے تو یہ کچھ عجیب بھی نہیں کہ مثبت طاقت نے ہمیشہ کمزور کے لئے منفی حالات کے خلاف جنگ کی ہے۔خیر اور شرکی جنگ دنیا کے آخری دو انسانوں تک قائم رہے گی۔ جاوید انور کے پاس بھی ایک طاقت ہے، موسسہ کا حصہ ہونے کی طاقت، قلم کی طاقت، قوت فکر کی طاقت اور خواب کو حقیقت میں بدلنے کی طاقت لیکن اس طاقت نے انہیں گمراہ نہیں کیا بلکہ اس کی حدت نے اس ’’تثلیث‘‘۔۔۔ جاوید انور ایک بشر دوست، جاوید انور ایک فرض شناس بیوروکریٹ اور جاوید انور ایک حساس تخلیق کار۔۔۔ کو الفت و مواخاۃ کے تغارچے میں تحلیل کردیا کہ سارے جہاں کا درد جگر میں سمیٹنے والا یہ شخص غیر متوازن، متکبر اور متعصب کیسے ہو سکتا ہے۔ میں واپس نفس مضمون کی طرف آتی ہوں۔ مجھے اس مضمون میں جاوید انور پر بات کرنی ہے کہ ایک تخلیق کار کو اس کے پس منظر سے غائب کرکے کوئی حال پیدا نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی تخلیق کو اس کے تخلیق کار کے لوکیل سے الگ دیکھ کر اس کے ساتھ کماحقہ انصاف کرسکتے ہیں۔
شخصیت پر بات کرتے ہوئے میں انہیں خارجی صفات پر گفتگو مرکوز رکھوں گی جو میرے مشاہدات میں آئیں کہ باطن کا حال تو صرف اللہ واحد کو معلوم ہے۔ جاوید انور متوسط درجے کے زمینداروں کے درمیان آنکھ کھولتے ہیں۔ خاندانی شرفا کی شرافت و نجابت اور رعب و دبدبے میں پرورش پاتے ہیں۔ طبقاتی تفاوت کو دیکھتے ہیں، کمیوں، مصلیوں اور ذلتوں کے مارے ہوؤں کی محرومیوں کو محسوس کرتے ہیں۔ آگے بڑھتے ہیں، انگریزی ادب میں ایم اے کرتے ہیں اور محنت سے امتحان پاس کرکے اقتدار میں شریک ہو جاتے ہیں۔ خاندانی مراعات، ادب کی جمالیات اور بیوروکریسی کی سوفسطائیت اگر انہیں ’ذلتوں کے مارے ہوؤں‘ سے مزید دور کردیتی تو یہ کوئی حیرت و استعجاب کی بات نہیں تھی کہ عموماً اس قسم کا پس منظر رکھنے والے یہی کرتے ہیں۔ پرانی دنیا کی راکھ جھاڑتے ہیں، ایک نئی دنیا آباد کرتے ہیں اور سارے پرانے کپڑے، اس میں رچی بسی مٹی کی مہک، زمین سے جڑی قدروں کی شکن، رشتے ناطے اور دوستیوں کی تھکن اتارکرنئے پیرہن میں، نئے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ ماضی، گاؤں، چوپال، کھیت ، کھلیان، پگڈنڈیاں غرض یہ کہ رفتگاں کی ساری بستیاں پیچھے کہیں واپسی کی راہ دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ لیکن جاوید انور ایسا نہیں کرتے تھے وہ واپس آتے ہیں، خزاں کے زردپتوں کو چومتے ہیں، چوپال لگاتے ہیں، گزشتگاں کے سارے کرداروں کو زندہ کرتے ہیں، ان سے بات کرتے ہیں، بات کرواتے ہیں اور ان کا نام گردرکھ دیتے ہیں۔ ’’مدتوں بعد گاؤں کی یادستائی تو واپس لوٹا۔ گاؤں سے کوس بھر دور وہ بوڑھا برگدجہاں بھوتوں کے بچے مدرسہ لگاتے اور جنوں کے قافلے پڑاؤ کرتے تھے مجھے نچا کھسا ادھورا نظر آیا۔۔۔برگد
جاوید انور ایک بیوروکریٹ ہیں۔ یہ ان کی پہلی شناخت ہے لیکن جب آپ ان کی تخلیقات کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم پڑے گا کہ اصل زندگی کا بیوروکریٹ اپنے افسانے میں کہیں سانس لیتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔ ان کے افسانے بیورو کریسی کے شائبے سے عاری ہیں۔ کوئی یوٹوپیا نہیں ہے۔ کوئی مثالی دنیا نہیں ہے اور نہ ہی اپنے قارئین کو اس قسم کے تخیل میں پناہ لینے دیتے ہیں۔ عام زندگی کے عام کردار ہیں، ان کے حالات ہیں، ان کی مشکلات ہیں اور ہم ہیں۔ تو میں بات کر رہی تھی کہ جاوید انور کے افسانے سے بیورو کریٹ غائب کیوں ہے؟ کیا اس لئے کہ وہ اقتدار میں رہتے ہوئے اپنے طبقے، محکمے اور حکومت کے خلاف لب کشائی کی آزادی سے محروم ہیں یا اس لئے کہ ان کے پاس اظہار کی وہ جرات و ہمت ہی نہیں جو ایک غیر جانبدار تخلیق کار کی تخلیق میں وجدان و عرفان کے لئے لازمہ خیال کی جاتی ہے یعنی کہ اب میں ان کی تخلیقات پر بات کرنے جا رہی ہوں۔
جاوید انور کے افسانوں کی زمین چاند تارے، آسمان، ستارے، کائنات اور وسعت افلاک نہیں ہیں بلکہ ان کے اندر زندہ اور پوشیدہ ایک چھوٹا سا معصوم دہقانی مزاج ہے جو کبھی برگد، نارسائی اور دشت وحشت کی شکل میں الگ الگ ڈالیوں اور ٹہنیوں سے لٹکتے، پھدکتے جھولتے ہوئے خوش خرام نیچے آتا ہے اور اپنی زمین کو بوسہ دے کر پانی مٹی کی پہنائی میں گم ہو جاتا ہے تو کبھی آخری گجرا، بھٹی اور شیر کی شکل میں سماجی تفاوت اور عدم مساوات کا جبرپیش کرتے ہوئے وہ بالکل نہیں ہچکچاتے کہ اقتدار میں شامل ہونے کی وجہ سے وہ بھی ذمہ دار ہیں۔ آپ ان کا احتساب کر سکتے ہیں کہ انہوں نے ان غیر مراعات یافتہ لوگوں کے لئے خود کیا کیا اور مجھے یقین ہے کہ وہ مایوس نہیں کریں گے کیوں کہ ان افسانوں کو میں ان کے مشاہدات سے جوڑتے ہوئے ان کی زندگی کا احتساب سمجھتی ہوں۔ یہ افسانے اسٹیٹمنٹ ہیں اس بات کا۔
گو میں رہا رہین ستم ہائے روز گار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
(غالب)
یہ بیورو کریٹ اپنے اوریجن (Origin) سے کبھی اپ روٹ (Uproot) نہیں ہو سکا اور برگد اسی کا ماحصل ہے بہت ممکن ہے کہ جاوید انور کے اندر اور بھی دنیائیں ہوں، مکروہ دنیا، کینہ کپٹ، بغض و حسد اور کبرونخوت کی دنیا، محرومیوں سے گرست ایک عام آدمی کی دنیا لیکن ہم تک اس کی ترسیل نہیں ہو پائی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی کی وجہ سے مجھ تک جو چیزیں پہنچی ہیں ان میں کوئی ایسی خاص کجی نظر نہیں آئی جو ہدف تنقید ہو سوائے اس کے کہ وہ بہت جلد چیزوں کو درگزر یا معاف کر دیتے ہیں۔ اب یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے یا تعریف پسندی یہ وہی بہتر جان سکتے ہیں۔ سو ظاہر میں جو نظر آیا ہے اسی ظاہر کے حوالے سے ان کے افسانوں کا تدارک کیا ہے۔
جاوید انور مادی ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے آخری سیڑھی پر پہنچتے ہیں جسے ہم نے طاقت سے منسوب کیا ہے تو ان کا شعور و لاشعور ان کچی سڑکوں پہ ایک گھنے، گھنیرے چھتنار برگد کے سائبان میں لا کھڑا کر دیتا ہے جس کے اردگر دور تک فسوں خیز اور وحشت انگیز تنہائی ہے اور جس کے راستے اس طرف جاتے ہیں جہاں وہ اپنا بچپن چھوڑ گئے ہیں۔ وہ ’بیورو کریٹ‘ ان رستوں کی جانب گامزن ہوتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ وہ حکومتی منصب کے ایسے تخت پر براجمان ہے جہاں سے واپس پلٹ کے دیکھنا محال ہے مگر اس کا تحت الشعور اور لاشعور اس کو ان دیہات کے مناظر میں جا پھنکتے ہیں جہاں سونے جیسی لہلہاتی فصلوں کے درمیان سے راستہ نکلتا ہے اور چھیداں کی بھٹی پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ وہ ان لوگوں سے جا ملتا ہے جن کے ہاتھوں پہ محنت کی لکیریں تو ہیں مگر حشمت و طاقت کی نہیں۔ وہ ان میں سے نہیں کیونکہ وہ کمزور ہیں۔۔۔ مگر وہ کسی مثبت طاقت کی طرح انہی کے اردگرد موجود رہتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ مادی وسائل سے مطمئن شخص خود کو ان جھونپڑیوں میں کیوں لے جاتا ہے جہاں حسوکی ماں رابو اس نکمے شوہرکی بیوی بن کے رہتی ہے جو سارا دن ریڈیو پہ گانے سنتا ہے، مرغ لڑاتا ہے، جوا کھیلتا ہے، دوسرے مردوں کی طرح ہنکارے بھرتا ہے اور رابو دوسری بیویوں کی طرح کمائی کرنے نکلتی ہے۔۔۔ وہاں سے نکل کر محمد علی ماشکی سے جا ملتا ہے اور اس کے بیٹے کی سائیکل کے تڑے مڑے حصے ہی ٹرالی سے اترتے نہیں دیکھتا بلکہ سانولا بازو بھی چار پائی سے لٹکتا دیکھتا ہے جس میں گھڑی ہوتی ہے لیکن وقت بتانے والی سوئیاں نہیں اور پھر وہ کونسا جذبہ ہے جو آخری گجرے کی خوشبو کو صرف اہدیت ہی عطا نہیں کرتا ہے بلکہ باپ کی میٹھی گنڈیری کی روایت سے بھی جوڑ دیتا ہے۔ یہ سوالات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ جاوید انور جیسے مراعات یافتہ شخص کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ برگد کے نیچے کھڑا اپنی طاقت کی کہانی نہیں بلکہ ان کمزور لوگوں کی کہانیاں بیان کر رہا ہے۔
ان کے افسانے پڑھنے اور سوشل میڈیا پر ان کی شائستگی اور بردباری کو دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ وہ بنیادی طور پر بہت ہی حساس اور انسان دوست ہیں۔ ان کی مقصدیت کسی ازم سے نہیں جڑی ہے بلکہ یہ ان کی اپنی طبیعت کی گداختگی ہے۔ وہ مثبت طاقت انہیں بار بار کرسی سے اٹھا کر ان اذیت گزیدوں میں لے جاتی ہے جو محنت تو بہت زیادہ کرتے ہیں مگر ان کے حصے میں تنگی، بھوک، مفلسی اور سماجی نا انصافی سے زیادہ کچھ نہیں آتا۔ وہ ان کی آواز بن جاتے ہیں جن کی آواز منفی طاقتور کے قدموں کے شور میں کمزور ہو گئی ہے۔ ان کے اندر کا تخلیقی انسان اور حکومتی منصب پہ بیٹھا شخص ایک دوسرے سے گتھم گتھا نہیں ہوتے۔ وہ اپنے اپنے حصے کا کام بڑی خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں، بیچ میں ایک محبت ہے جو ہر دو فریق کے مساموں سے پھوٹتی ہے اور ان کے افسانوں اور شعروں میں جذبات و احساسات کی مختلف سطخوں میں کار فرما نظر آنے لگتی ہے کہیں بھی کوئی ایک دوسرے کے لئے رکاوٹ نہیں بنتا کیونکہ دونوں مثبت طاقت کی مثال ہیں۔
گو کہ جاوید انور کا فنی سفر دیر سے شروع ہوا مگر ان کے افسانوں میں مشاہدے کی گہرائی، موضوعات کا تنوع اور زبان و بیان کا سلیقہ یہ بتاتا ہے کہ وہ کئی سال سے یہ ساری کہانیاں اپنے اندر بن رہے تھے۔ صفحہ قرطاس تک پہنچتے پہنچتے ان کہانیوں نے اپنی عمر کے کئی سال اس برگد کے چہار جانب سے نکلنے والے رستوں میں گزار دیئے۔ گویا ان سنجیدہ اور ذہین کہانیوں کے بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے تجربات کی بھٹی نے انہیں خوب کندن بنایا ہے۔ ایک خیال وہ اپنے مشاہدے کی بھٹی سے اٹھاتے ہیں اور اسے اپنی زنبیل میں ڈال کر فائلوں میں سر دے لیتے ہیں اور اپنے منصبی فرائض سے فارغ ہونے کے بعد اس زنبیل سے ایک خیال نکالتے ہیں اور تخلیق کے ایک اور جہاں میں جا پہنچتے ہیں۔ زندگی کہیں نہیں رکتی اور ان کے فن کی اپچ تو سانس بھی نہیں لیتی۔ کہانیاں ان کے اندر ایک جہان بسائے رکھتی ہیں کبھی کسی قبر کے اندر سانس لیتی ہوئی اور کبھی کسی ماشکی کی زندگی سے بھرپور بیٹے سے سانس چھینتی ہوئی۔ کبھی کبھی لگتا ہے وہ پرانے زمانوں کے داستان گو ہیں جو برگد کے نیچے ہر شام محفل سجاتے ہیں اور اس کی افسانہ طرازی، داستانوی ماحول اور منظر کشی کے بیان کو ظاہری مفاہیم کے ساتھ عصری رویوں میں مضمر جہات کی عقدہ کشائی کرتی چلی جاتی ہے۔ بے شمار تراکیب، علامات اور ان سے منسلک استعارات و تلازمات ان کے بیانیہ میں جامد نہیں متحرک محسوس ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)
’دشت وحشت‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں ’’گاڑی جب اسٹیشن چھوڑتی ہے تو ایک اداسی پیچھے پلیٹ فارم پر رینگتی اور خالی پٹڑی سے چمٹی رہ جاتی ہے۔ گاڑی خود بھی بہت اداس ہوتی ہے لیکن بہت سی رونق اپنے اندر سمیٹ کر چلتی ہے۔ ص83۔ یوں تو یہ سرحد پر جانے والی ایک عام گاڑی کے بارے میں ہے لیکن متن کو جیسے ہی اس کے سیاق و سباق سے ماورا دیکھنے کی کوشش کریں گے آپ کو لگے گا کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ جاوید انور اپنی زندگی کے سفر کی گاڑی کا ذکر کر رہے ہیں۔ گاڑی آگے بڑھ گئی ہے لیکن اداسیوں کا ہیولیٰ تعاقب کئے ہوئے ہے۔ بیانیہ اور منظر کشی پر قدرت کے حوالے سے یہ پیرا گراف ملاحظہ کریں ’’سورج دن بھر گاڑی کے آگے پیچھے پھرتا بالآخر ایک سمت ہو کر بیٹھ گیا اور صحرا بتدریج تاریکی میں ڈوب گیا، ایک پر اسرار خاموش اندھیرا چاروں طرف محو خواب تھا اور تاروں بھرا آسمان گاڑی پر تنا ساتھ ساتھ بھاگا جاتا تھا۔ دشت وحشت ص 91۔‘‘
ان کا موضوعاتی وجود رواں صدی کے سماجی رویوں، نفسیاتی عوامل، وجودی محرکات کو مقامیت میں گوندھ کر اٹھایا گیا ہے۔ وہ انسانی روابط کو مضبوط بناتے ہوئے داخلی منظر نامے سے مربوط کر دیتے ہیں گویا خارجیت سے داخلیت یا احتساب و مشاہدۂ ذات کا سفر۔ افسانہ بھٹی کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں ’’اس سے پہلے کہ چھیداں یا کوئی بھی موجود فرد اس کی کیفیت بھانپ سکتا اس نے طوفان کی طرح لپک کر بھٹی کے ایندھن والی سمت دھانے پر اپنی مشک پہنچائی اور ڈھیروں پانی بھٹی میں انڈیل دیا۔ بھٹی سے گھٹی چیخیں اور دل دوز آہیں نکلیں۔ دھواں اور آگ ملے پانی کی ناخوشگوار مہک ہر خوشبو پر غالب آ گئی اور پورے گاؤں پر سوگ پھیل گیا۔ ص 52-51‘‘
ان کی کہانیوں کی ایک خاص بات ہے کہ وہ کہیں پندو نصائح یا وعظ سے کام نہیں لیتے، اپنا کوئی فیصلہ صادر نہیں کرتے ہیں بلکہ جو کچھ ہے اور جیسا ہے قاری کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر ایک منظر کھینچتے ہیں، ان میں کرداروں کو ان کی پوزیشنوں پر کھڑا کرتے ہیں اور ہر کردار ہاتھ باندھے اپنی باری کا انتظار کرتا ہے۔ ہر کردار اپنے وقت پہ اپنا مکالمہ ادا کرتا ہے۔ یوں نہ کم نہ زیادہ والا معاملہ گتھی سلجھاتا یا الجھاتا آپ کے سامنے ہوتا ہے اور داستان گو آپ کے اندر شعور ولا شعور کی کئی نئی جہتیں کھولتا، نئے روزن وا کرتا، فکر کی ایک نئی چنگاری روشن کر کے خاموش ہو جاتا ہے۔ دیہی کرداروں کی تحلیل نفسی اور جزئیات نگاری میں ان کا قلم فلم کی طرح چلتا ہوا نظر آتا ہے۔
نفسیاتی حوالے سے اگر ان کے کچھ افسانے دیکھے جائیں تو بھڑ، غرض اور دلہن میں مرکزی کرداروں کی نفسیات کو اس انداز میں کھول کے رکھ دیا ہے کہ قاری اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ایگو۔ ڈیفنس میکانزم کو جس طرح راجہ میں بیان کیا گیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک کمال ہے۔ چونکا دینے والی صاف گوئی ان کی تحریر میں جا بجا ملتی ہے اور آپ حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب وہ اپنے ہی طبقہ کے خلاف سماجی نا انصافیو ں کی بات کرتے ہیں۔ چودہ افسانوں اور تیرہ افسانچوں میں زندگی کے وہ تمام اہم رنگ موجود ہیں جنہیں کائنات کو پینٹ کرنے کے لئے ایک مصور کو ضرورت پڑتی ہے۔ سائنس فکشن پہ مبنی افسانچے را طوطا صاحب اور جشن گو کہ علامتی تحریریں ہیں مگر ان میں جس طرح سے معاشرے کے طاقتور کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ خاص طور پر را طوطا صاحب تو مکمل طور پہ سیاسی استحصال کے اردگرد گھومتی ہے۔ جاوید انور نے صرف خارجی طاقتوں کو ہی موضوع بحث نہیں بنایا ہے بلکہ ان داخلی طاقتوں پر بھی خامہ فرسائی کی ہے جو ایک خوف کی صورت میں ہماری نفسیا ت و حسیات میں پیوست ہیں اور ہماری جرأت و استقلال کو دیمک کی طرح چاٹ ڈالتی ہیں ’آخری بات‘، ’آخری رات‘ اور ’گھر‘ اس کی شاندار مثالیں ہیں۔ جاوید انور بلاشبہ ایک خاص آدمی ہیں۔ خاص آدمی اس معنی میں کہ وہ بیورو کریسی کی آخری سیڑھی پر ہیں مگر عام آدمی کو اپنے اندر سے مرنے نہیں دیتے۔ اسے زندہ رکھتے ہیں کہ یہی عام آدمی ان کی کہانی ہے اور کہانی زندہ رہے گی کہ یہی زندہ رہنا ہی دراصل اس کی موت ہے۔
ملان کندرا ایک جگہ لکھتا ہے کہ کئی برسوں بعد جب میں اپنے ملک چیک جمہوریہ واپس گیا تو میرے دوست مجھے اپنی اپنی کہانیاں سنانے میں مگن ہو گئے۔ کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا کہ ان برسوں میں میں کیا کر رہا تھا۔ ایک کہاوت ہے ’’Every body loves good audience" ہر ایک اپنی کہانی سنانا چاہتا ہے، ہر ایک کو اچھا سامع پسند ہے۔ کندرا بھی سنانا چاہتا تھا۔ لیکن جاوید انور اپنی کہانی نہیں سنا رہے ہیں(کیا ان کے پاس کہانیاں نہیں ہوں گی؟) وہ عام لوگوں کی کہانی بیان کر رہے ہیں’ کچھ خواب کچھ اصل ہے، کچھ طرز ادا ہے، لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بیورو کریٹ او ر رائٹر کی کہانی میں کچھ زیادہ دوری نہیں پائی ۔بیورو کریٹ اور رائٹر کے درمیان کچھ خاص گیپ نہیں ہے۔ کچھ زیادہ سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ کچھ ایسا ہے جو ان دو کے درمیان مسنگ ہے۔ بیچ میں کوئی ایک کڑی کمزور ہے۔
اب وہ مسنگ لنکس یا کمزور کڑیاں کیا ہیں آئیے ان پر بات کرتے ہیں۔ جاوید انور کے افسانوں میں افسانے کے تمام فنی لوازمات موجود ہیں، سارے افسانے اپنی بنت میں میچور ہیں لیکن کہیں ’حال‘ وجد آفرین کیفیت میں تبدیل نہیں ہو پایا ہے او ر مجھے اس کی جو وجہ سمجھ میں آ رہی ہے وہ یہ کہ جاوید انور قومی مقتدرہ کا حصہ ہیں۔ اس لئے بہ حیثیت ایک تخلیق کار کے جب وہ غربتوں کے مارے ہوؤں پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس تخلیقی عمل میں دیر تک قیام نہیں کر پاتے جو کیفیت کے لئے لازمی ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اب وہ عمر کے ایک ایسے مرحلے میں ہیں جہاں کیفیت اپنے مدار کو پار کر کے میچور ہو گئی ہے۔ بہرحال جو بھی وجہ ہو لیکن ایک آنچ کی کمی ضرور نظر آتی ہے۔ کتاب ختم کرنے کے بعد اطمینان تو محسوس کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک خلش بھی ٹیسیں مارنے لگتی ہے۔ تعین قدر کی خلش ۔کوئی ایک ایسی چیز درمیان میں موجود ہے جو تعین قدر کی راہ میں حائل ہے اور اسے میں ’مسنگ لنکس‘(گم شدہ کڑیوں) سے تعبیر کروں گی جو تخلیقی عمل میں کیفیات کے انجذاب و تحلیل کے فقدان کی صورت میں کہیں کہیں نظر آئی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر اس کینوس کا فقدان ہے جو افسانوں کو ایک بڑا افسانہ بناتا ہے۔ برگد، آخری گجرا اور دشت وحشت میں ایک بڑے افسانے کی ساری خوبیاں موجود ہیں لیکن یہی بات تمام افسانوں کے بارے میں وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتی ہوں ہر چند کہ موضوعاتی تنوع ہے لیکن اس ’فلسفیانہ‘ اساس و تفکر کی کمی محسوس ہوئی ہے جو افسانے کی تہہ داریوں میں معنوی امکانات کا جہان تلاش کرنے کے لئے رکنے پر مجبور کرتی ہے۔ ان اعتراضات کے باوجود جاوید انور کو میں یہ اسپیس دوں گی کہ انہوں نے صرف اور صرف اپنی تخلیقی صلاحیت کی بنیاد پر بہت کم عرصے میں اور بہت آسانی سے خود کو معاصرین کے درمیان منوایا ہے اور یہ میں کوئی احسان نہیں کر رہی ہوں بلکہ یہ ان کا حق ہے۔ ایک سال کے اندر شاعری اور افسانے کی دو کتابیں منظر عام پر لانا ایک عام ذہن کے بس کی بات نہیں۔ یہاں لوگ دس دس سال سے قلم گھسیٹ رہے ہیں اور نہیں لکھ پا رہے ہیں۔ یہ قلم معجزہ ہے ہر ایک کو نہیں دیا جاتا۔ امید ہے جلد ہی اور خوبصورت کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔ اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے۔