کیا انسان، اللہ تعالیٰ کے علم پر حاوی ہو جائے گا؟

کیا انسان، اللہ تعالیٰ کے علم پر حاوی ہو جائے گا؟
کیا انسان، اللہ تعالیٰ کے علم پر حاوی ہو جائے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کتنی عجیب بات ہے کہ ہم تین ہزار سال پرانے علم پر اپنا تکبرِ علم رکھتے ہیں، اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ اس تین ہزار پرانے علم میں میں نے اعشاریہ ایک فیصد بھی اضافہ نہیں کیا لیکن اس بوسیدہ، تین ہزار سال پرانے علم کو استعمال کرتے ہوئے میں آئندہ آنے والے تین ہزار سال کو جاننا چاہتا ہوں......

علم اللہ کا عطا کردہ ہے اور ہمیں اتنا ہی عطا کیا جاتا ہے جتنا اللہ نے چاہا۔ اس کے علاوہ چاہے ہم سر کے بل بھی کھڑے ہو جائیں ،ہم ان چیزوں کااحاطہ نہیں کر سکتے جو ہمارے علم کی حدود سے باہر ہیں۔ ہم روح کے بارے میں بات تو کر سکتے ہیں لیکن ہم روح کے بارے میں کچھ سمجھ نہیں سکتے۔ اسی طرح ہم مقدر کے بارے میں گفتگو تو کر سکتے ہیں لیکن ہم مقدر کے بارے میں بھی کچھ نہیں جان سکتے۔
مثال کے طور پر اگر میں ایک ادبی جملہ کہوں کہ:
’’حادث کو قدیم سے جدا کرنے والا، مقدر ہوتا ہے۔‘‘
یہ مشکل صرف اس لیے لگتا ہے کیونکہ ادبی ہے، لیکن فلسفیانہ نہیں۔
یعنی جو شخص ماضی کو مستقبل سے الگ کر سکے، وہ حال کے بارے میں جان سکتا ہے۔ لیکن اس جملے سے ہم سمجھیں گے کیا؟
ایک مطلب تو یہ ہو سکتاہے کہ جو شخص ماضی سے سبق حاصل کر سکے وہ حال سمجھ سکتا ہے، مگر آپ ماضی کو مستقبل سے جدا کیسے کریں گے؟ آپ کے پاس ایسا کون سا سکریو ڈرائیور ہو گا جو ایسا کر سکے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں، اور یہ جملہ محض ایک اچھا ادبی جملہ ہونے سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
ایک اچھے بزرگ نے بڑی خوب صورت بات کی کہ وقت کا ولی (یعنی اللہ کا دوست) وہ ہے جو ماضی کے علوم پر حاوی ہو، حال کے علوم پر پہرا دیتا ہو اور مستقبل کے لیے اشارے چھوڑ جائے۔ اب اتنا بہت سا علم رکھنے والا شخص، محض ایک وقت کا ولی ہوا جو کہ کوئی بہت بڑی شخصیت نہیں، ایک معصوم اور معمولی سے کچھ بہتر انسان ہو گا۔
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم اپنی اس محدود عقل اور علم کے ساتھ ان چیزوں کو سمجھنا چاہتے ہیں جو شاید اس لیے بھی ہماری عقل کی حدود سے باہر رکھی گئیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا چاہا ہی نہیں؟ جو اللہ تعالیٰ کے معاملات ہیں وہ ہم صرف اس وقت سمجھ سکتے ہیں جب اللہ ہمیں ایسا سمجھانا چاہے۔
پھر یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ اگر اسے ہمارے فہم سے باہر ہی رکھنا تھا تو اسے بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ خدا کو کیا ضرورت تھی کہ وہ مقدر بناتا؟
اس پر دو طرح کی بحث ہو سکتی ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مقدر نہ بناتا تو اس کائنات کی تمام چیزیں (جن کا ہم ایک معمولی سا حصہ ہیں) ایک تھیوری کے تحت، جسے Chaotic Chaos Theory کہا جاتا ہے، ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو جاتیں اور ایک پریشانی کا عالم یا حادثاتی صورت حال پیدا ہو جاتی۔
لیکن پھر عقلِ انسانی نے کچھ ترقی کے ساتھ یہ کہا کہ پریشانی کا عالم یعنی ایک حادثہ بھی ہے، در اصل ایک بہت بڑے پلان یا منصوبے کا سوچا سمجھا حصہ ہوتا ہے جس کی ایک باقاعدہ ترتیب ہوتی ہے اور وہ پہلے سے قائم شدہ ہوتا ہے۔ ہم اسے حادثہ اس لیے کہتے اور سمجھتے ہیں کیونکہ ہمیں اس کے آگے پیچھے کی سمجھ نہیں آ رہی ہوتی۔
رسول پاک ﷺ سے ایک صحابیؓ نے پوچھا ’’یا رسول اللہﷺ ! ایک زمانہ وہ تھا جب ہم اللہ کے پاس تھے، اور پھر ایک زمانہ وہ ہو گا جب ہم اللہ کے پاس ہوں گے، تو یہ زمانہ جس سے ہم ابھی گزر رہے ہیں، یہ زمانہ کیا چیز ہے؟‘‘
اب دیکھئے، ایک سادہ سے بدو کا سوال لیکن آج چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ اتنا ہی بڑا فلسفہ ہے، جتنا شاید اس زمانے میں تھا۔
فرمایا’’ یہ نیند کا زمانہ ہے، ہم سب سو رہے ہیں۔‘‘
اب ذرا غور کیجیے، جب اللہ کے رسول ﷺ ایک بات کہہ رہے ہیں تو عین ممکن ہے کہ میری سمجھ میں یہ نیندوالی بات نہ آئے لیکن اللہ کے رسول ﷺ تو ہمیشہ حق بات کرتے ہیں، سو، جب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سو رہے ہیں، تو اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔
اس کی تفسیر عبداللہ ابن عباسؓ نے اس طرح کی کہ وہ زمانہ جب ہم اللہ کے پاس تھے، ہم زندہ تھے، ہم جاگ رہے تھے پھر اس زندگی کو اللہ نے طوالت دی اور ہمیں اپنے باپ کے جسم سے ماں کے رحم میں منتقل کیا، وہ بھی زندگی تھی۔ پھر موت وارد ہوئی، پھر زندگی وارد ہو گئی۔ ہم پہلے بھی زندہ تھے اور آئندہ بھی زندہ کیے جائیں گے۔
اس پر انھوں نے جس حدیث کو روایت کیا وہاں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ یہ دنیا، یہ وقت جو ہے، یہ موت ہے (ایک جگہ فرمایا ، ہم سو رہے ہیں، ایک جگہ فرمایا، یہ موت ہے)، تو ایک صحابیؓ نے پوچھا ’’یا رسول اللہؐ ! پھر اگر یہ موت ہے تو ہم زندہ کب ہوں گے؟‘‘
فرمایا’’ جب قبر میں پہلی رات آنکھ کھولو گے۔‘‘
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھیں کہ ایک عام انسان کی عقل، پیغمبر وں کی عقل سے کتنی مختلف ہوتی ہے۔
وجہ؟ سیدھی سی بات ہے کہ پیغمبر اپنی دانش سے نہیں سوچتا، بلکہ وہ تو اللہ کے الہام سے سوچتا ہے۔
ایک حدیث قدسی ہے کہ جب تمھاری روح، جب تمھارا نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن کا تھا، (ایک روایت میں ایک سو بیس دن بھی ہے) تو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو تمھاری ماں کے رحم پر بٹھایا اور اس فرشتے نے اللہ کی طرف پلٹ کر پوچھا کہ اے اللہ! مجھے بتا کہ میں کیا لکھوں۔ پھر اللہ نے لکھایا اور فرشتے نے جو لکھا، اُسے انسان کا مقدر کہتے ہیں۔
اسی روایت کے حوالے سے عبداللہ ابن عباسؓ نے کہا ’’ خدا یہ کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘
اور ہم نے اپنی عقل و دانش سے اس کو ایسے منسوب کر لیا کہ جناب، اللہ کا یہ کام تو اب انسان بھی کر سکتا ہے یعنی الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے اب ولادت سے پہلے ہی پتا چل جاتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ اہلِ علم نے اس بات کو قربِ قیامت سے منسوب کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وقتِ آخر کی نشانیوں میں سے ہے کہ انسان، اللہ تعالیٰ کے علم پر حاوی ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کے علم پر کبھی بھی ، کوئی بھی حاوی نہیں ہو سکتا!
اس حدیث میں کی جانے والی بات سے مراد ماں کے پیٹ میں لڑکے یا لڑکی کی موجودگی کا سوال نہیں، بلکہ وہ مقدر ہے جو اللہ کے حکم سے فرشتے نے لکھا اور جس کا احاطہ کرنا، رہتی دنیا تک عقلِ انسانی کے بس کی بات ہے ہی نہیں!

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -