عدلیہ کا تاریک دور (3)
لاہور ہائی کورٹ کے دو ججز پر مشتمل جسٹس امیر عالم خان اور جسٹس کرامت نذیر بھنڈاری نے ایک آئینی پٹیشن سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کی جس میں قانونی نقطہ یہ تھا۔کیا ایک جج کی تقرری 1973ء آئین پاکستان کے تحت اس کی پہلی سروس کی Continuation میں شمار ہو گی یا نہیں؟دوسرا نقطہ یہ تھا کہ الجہاد ٹرسٹ بنام فیڈریشن آف پاکستان میں ججز کی دوبارہ تقرری جو کہ پہلے ایڈیشنل جج تھے اور مستقل نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی ان کو دوبارہ توسیع ملی۔ اگر یہ سوال نہ میں ہے تو کیا حکومت ایک ایگزیکٹو آرڈر یا Decree سے دوبارہ تقرری کر سکتی ہے؟کیا حکومت کسی جج کی سنیارٹی کا تعین کرتے وقت بغیر کسی نوٹس اور شنوائی بغیر کسی ایگزیکٹو آرڈر سے عدلیہ کے کاموں میں مداخلت کر سکتی ہے اور اس کی سنیارٹی کو Distrub کر سکتی ہے؟اس میں تمام ججز بشمول جسٹس افتخار حسین چودھری Respondents تھے۔ میں نے بھی سنیارٹی پٹیشن سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کی کہ میں ان دونوں جج صاحبان سے بھی سینئر ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کیس کا کبھی بھی فیصلہ نہ ہو سکا اور ایک منصف کو آج تک انصاف نہیں ملا۔ یہ پٹیشن ہزاروں پٹیشن میں گم ہو گئی۔
میرا زیادہ وقت تعلیمی سرگرمیوں میں گزرتا تھا۔ سینئر پیونی جج کی حیثیت سے مجھے پتہ چلا کہ ایڈیشنل سیشن ججز کے امتحانات میں بہت گھپلے ہوتے ہیں۔
امیدار اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے پرچہ حاصل کر لیتے تھے لہٰذا اس سال میں نے طریقہ کار بدل ڈالا اور خود تمام پرچے بنائے۔ میں نے کچھ اپنے ساتھی ججز سے درخواست کی کہ وہ ان پرچوں کی مارکنگ میں میری مدد کریں۔ میں نے امتحان کے ٹائم سے ایک گھنٹہ قبل ہائیکورٹ میں تمام پرچے اپنی نگرانی میں پرنٹ کروا کے امتحانی ہال میں بھجوائے۔
ہائیکورٹ میں ایک ایسی مشین ہے جو کہ ایک منٹ میں ساٹھ پیپر کے پرنٹ نکال دیتی ہے۔ میں نے وہ مشین اپنے ریٹائرنگ روم میں منگوائی پرچے نکالے اور مشین کے ذریعے ان پرچوں کے پرنٹ نکلوائے۔ اس سال نقل کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ محنتی، قابل اور میرٹ پر ایڈیشنل سیشن ججز سامنے آئے اور جو ججز انٹرویو میں پاس ہوئے وہ تمام قابل حضرات تھے۔ ان میں سے کوئی بھی سفارشی نہیں تھا۔ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
لہٰذا اس سال ایک اور غلط کام ہوا ان ایڈیشنل سیشن ججز حضرات کی تعیناتی کی فائل 9 ماہ تک چیف جسٹس افتخار حسین چودھری کے پاس پڑی رہی۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ذاتی پسند اور نا پسند کو پس پشت رکھ کر ہم اپنے ملک کی خدمت کا جذبہ کیوں نہیں رکھتے ہیں؟ اگر مرضی کے امیدوار اہم عہدوں پر نہ آئیں تو میرٹ کا بھی گلا دبا دو۔
ان ججز کی تعیناتی میں تاخیر کی وجہ سے بہت سی درخواستیں سپریم کورٹ میں چلی گئیں اور سپریم کورٹ نے میری فائنل کردہ لسٹ کو بحال رکھا اور ان تمام ججز نے بطور ایڈیشنل سیشن جج اپنا کام شروع کر دیا۔ یہ میری اخلاقی فتح تھی۔
اسی اثناء میں مجھے ایک اہم کام سونپا گیا کہ میں ماتحت عدلیہ، مختلف ضلعوں کی عدالتوں اور دفتروں کا معائنہ کروں اور ایک مکمل رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کو دوں۔ میں نے اِس سلسلے میں جنوبی پنجاب کی تمام عدالتوں کا معائنہ کیا اور ایک رپورٹ تیار کی۔
میری رپورٹ کے مطابق یہ جج صاحبان گندے اور مکھیوں سے بھرے ٹوٹے ہوئے فرنیچر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کورٹ روم میں اپنا کام سر انجام دے رہے تھے۔
سائلوں کے کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا یہ ججز بارہ بارہ گھنٹے اپنی ڈیوٹی انہی گندے کورٹ رومز جنہیں عدالت کہنا بھی نامناسب ہے۔
اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔ ملتان کچہری کے بارے میں میری رپورٹ تھی کہ یہاں جو کورٹ رومز ہیں یا تو انہیں مسمار کر کے دوبارہ ڈبل سٹوری کورٹ رومز بنا دیئے جائیں یا پھر پولیس لائن کے پاس ایک بہت بڑا رقبہ پڑا تھا وہاں نئی جدید عدالتیں بن سکتی ہیں۔
مگر افسوس کہ ان تجاویز پر سوچ و بچار کئے بغیر ملتان کچہری کومتی تل قصبہ کے کھیتوں میں منتقل کر دیا گیا جہاں پر سہولتوں کا فقدان ہے۔ حالانکہ قانون کا منشا یہ ہے کہ انصاف سائل کو اس کی دہلیز پر میسر ہو۔
میری تفصیلی رپورٹ چیف جسٹس آف پاکستان اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کو ارسال کر دی گئی۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے میری تفصیلی رپورٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ماتحت عدلیہ کے عدالتی کمروں کی مرمت اور تزئین و آرائش کے لئے کئی ملین ڈالرز مختص کئے اور ان کی ایک ٹیم نے ہائیکورٹ کا دورہ کیا اور چیف جسٹس افتخار حسین چودھری کو چیک پیش کیا۔
2004ء میں ان فنڈز کو ہائیکورٹ کے مغربی حصے کی تزئین و آرائش کے لئے مختص کر دیا گیا۔ یہ بلڈنگ ایک انٹرنیشنل تاریخی ورثہ تھی اس کا آرکیٹیکچر صدیوں پرانا تھا۔ راتوں رات یہ خوبصورت بلڈنگ گرا دی گئی اور تاریخی عمارت کا ایک حصہ منہدم کر دیا گیا۔
بعد میں بہت سی این جی اوز، نیشنل کالج آف آرٹس، پنجاب یونیورسٹی کے طالبعلم سڑکوں پر نکل آئے۔ اس وقت کے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احمد اویس اس احتجاج میں شامل ہوئے اور انہوں نے اس المیہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بنچ نے چیف جسٹس افتخار حسین چودھری کو حکم دیا کہ وہ ایک کمیٹی بنائیں اور یہ کمیٹی اس بلڈنگ کو اپنی اصلی حالت میں واپس تعمیر کرے۔ بلڈنگ تو تعمیر ہوئی لیکن بلڈنگ کے وہ صدیوں پرانے خدوخال واپس نہ لائے جا سکے اور یہ مغربی حصہ باقی بلڈنگ سے الگ ہی نظر آتا ہے۔میرے خیال میں ڈکٹیٹر شپ کی سب سے بڑی خامی اہم اداروں کی سربراہی غلط ہاتھوں میں دینا ہے۔ چیف جسٹس صاحب کو جنرل مشرف کی آشیر باد حاصل تھی۔ وہ اپنے آپ کو ہر احتساب سے ماورا سمجھتے تھے۔ ان کے دور میں وکلاء کے چیمبرز واقع فین روڈ رات کی تاریکی میں گرا دیئے گئے اور اس جگہ پر پنجاب جوڈیشل اکیڈمی اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے شاندار دفاتر تعمیر کروائے گئے۔ ایوانِ اوقاف کے سامنے جی پی او چوک کا گراؤنڈ بھی ہائیکورٹ میں شامل کیا گیا۔ (جاری ہے)
انہی دنوں اخبارات میں نیو سنٹرل جیل فار وومن ملتان اور نیو سنٹرل جیل بہاولپور میں خواتین کے بارے میں یہ خبر شائع ہوئی کہ جیلوں میں خواتین حوالاتیوں کی تعداد اتنی ہو گئی ہے کہ جیلر کے پاس انکو رکھنے کی جگہ ہی نہیں ہے۔
میں نے بطور سینئر پیونی جج لاہور ہائیکورٹ ان خبروں کا از خود جائزہ لیا اور ایک روز میں اور ڈسٹرکٹ سیشن جج ملتان نے نیو سنٹرل جیل فاروومن ملتان میں ریڈ کیا۔
یہ جیل میری جانی پہچانی تھی جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے کیسز کرنے کے جرم میں ایک سیاسی قیدی کی حیثیت سے میں نے تین ماہ سزائے موت کے قیدیوں کے انہی سیل میں گزارے تھے۔
میں جانتی تھی کہ پتھروں کی ان چار دیواریوں میں قیدی کتنا بے بس ہوتا ہے اور ان پر کیا گزرتی ہے میں نے جیل کے ہسپتال کا رخ کیا اور یہ دیکھ کر مجھے تکلیف ہوئی کہ میرے آنے سے دس منٹ پہلے ایک عورت نے بچے کو جنم دیا تھا اور وہ ننگا لوہے کی چارپائی پر ایک چادر میں لپٹا پڑا تھا۔میں نے پوچھا یہ عورت کس مقدمے میں گرفتار ہے؟ جواب ملا زنا آرڈیننس کے تحت قید ہے۔ میں سمجھ گئی یہ بھی وہی کیس ہوگا جس میں ایک عورت نے اپنی مرضی سے شادی کی ہو گی اور پولیس نے مرد اور عورت دونوں کو والدین کے ایماء پر گرفتار کر لیا ہوگا۔
پولیس نے مجبور کیا ہوگا کہ وہ اپنے خاوند کے خلاف بیان دے اور اس نے بیان نہیں دیا ہوگا لہٰذا اسے جیل ہو گئی۔ بعد میں پوچھنے پر یہی کہانی سامنے آئی۔ دکھ کی بات تھی کہ ایک معصوم بچہ جو جیل کی چار دیواری کے اندر لوہے کی چارپائی پر پیدا ہوا اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس کے بعد میں سزائے موت کے قیدیوں کی بیرکوں میں گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بارہ فٹ کے ایک سیل میں چھ چھ حوالاتی عورتیں قید تھیں۔ یہ ڈبل بیرک تھیں اس کے بعد میں ان بیرکوں میں گئی جہاں عورتیں چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔
یہ وہ بچے تھے جنہیں کوئی بھی رکھنے کو تیار نہیں تھا اور وہ جیل کی زہریلی فضا میں رہ رہے تھے ان کے معصوم ذہن پراگندہ ہو رہے تھے۔ دل اتنا دکھا کہ رہا نہ گیا اور میں نے سیشن جج سے مشورہ کیا اور حکم دیا کہ جون، جولائی کی تپتی ہوئی دھوپ میں کیکر کے درخت کے نیچے عدالت لگائیں اور جیلر سے کہا کہ وہ ان عورتوں کے چالان نکالے جو بال بچے دار ہیں۔
ان سب عورتوں کو میں نے جنرل ضمانت دے دی اور حکم دیا کہ اگر کسی عورت کے پاس ضامن نہیں ہے تو وہ اپنے ذاتی مچلکہ پر رہا کر دی جائے۔ اسکے بعد میں نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو بلا کر کہا کہ تم نے جگہ کی تنگی کی بات کی تھی۔ اب مجھے سزائے موت کی کوٹھری میں کوئی حوالاتی عورت نظر نہ آئے۔
دوسرے روز تمام ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں اور میڈیا میں میرے اس کام کی دھوم مچ گئی۔ خبریں آ رہی تھیں کہ ایک بہادر جج کے مضبوط فیصلہ نے بچوں والی خواتین کو اس خوفناک گرمی میں جنرل ضمانتیں دے دی ہیں۔ یہی اقدام میں نے بہاولپور جیل میں بھی کیا۔ میرے پے در پے ریڈ سے مردانہ اور زنانہ جیلوں کی حالت سدھر گئی۔ CNN اور BBC نے میرے فیصلوں کو ایک بہادر جج کا فیصلہ قرار دیا۔
میں جب لاہور واپس آئی تو مجھے جسٹس افتخار حسین چودھری صاحب نے بلایا اور کہا کہ میں نے بغیر نوٹس دیئے قیدی عورتوں کو ضمانت دی ہے۔
میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ افتخار صاحب اس جھلسا دینے والی گرمی میں سسکتے تڑپٹے ننگے بچوں کی نہ دیکھ سکی اور میرے دماغ میں انصاف کی گھنٹی بج گئی میں نے انصاف کر دیا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے کوئی قانونی غلطی کی ہے تو کوئی دو جج بٹھا کر میرا فیصلہ معطل کر دیں مگر اسے کبھی یہ ہمت نہ ہو سکی۔ مگر بہت بعد میں جب میری ریٹائرمنٹ قریب آئی تو جسٹس افتخار حسین چودھری صاحب میرے اس فیصلے کو نظر ثانی کرنے بیٹھ گئے اور انتہائی گھناؤنی سازش کے تحت مجھے ملوث کرنے کی ناکام کوشش کی۔
دراصل میں نیچرل جسٹس پر اعتماد رکھتی تھی اور Technical اندازِ فکر کبھی کبھی انصاف کی فی الفور فراہمی کے لئے ایک منصف کو تکنیکی پیچیدگیوں کو پس پشت ڈال کر فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ میرے جیل کے دورے کے دوران چھوٹے چھوٹے بچوں والی ماؤں کی ضمانت سے بھی تاکہ بچے اس زہریلے ماحول سے نکلیں۔
لیکن چیف جسٹس نے دو سال کے بعد میرے اس فیصلے کو ایک اسکینڈل بنانے کی کوشش کی۔ وہ تو بھلا ہو ان قیدی عورتوں کا جنہوں نے چیف جسٹس کی نگرانی میں تحریر کردہ درخواست پر دستخط سے انکار کر دیا۔
میں آج بھی ان خواتین کا سوچتی ہوں جن کا میں نام تک نہیں جانتی تھی اور وہ کردہ یا نا کردہ جرائم میں اپنے بچوں کے ساتھ جیلوں میں قید تھیں۔ ان خواتین کا ضمیر کتنا مضبوط تھا۔ اس واقعہ کا میں بعد میں ذکر کروں گی۔