فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر477

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر477
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر477

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجابی فلموں میں اکمل کو 60کی دہائی میں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی۔ انہیں پنجابی فلموں کا دلیپ کمار بھی کہا جاتا تھا۔ وہ کود کو بھی دلیپ کمار ہی سمجھتے تھے بلکہ نمبر ون دلیپ کمار کہلوانا چاہتے تھے ۔مگر بدقسمتی یہ تھی کہ دیسی کے دیسی ہی رہے اور دلیپ کمار کی شخصیت کے گھن نہ پاسکے۔دلیپ کی شخصیت سازی نے ان کو یوسف سے دلیپ بنایا تھا جبکہ اکمل احساس برتری کے زعم میں پٹری سے اتر گئے۔وہ مشہور و معروف کریکٹر ایکٹراجمل کے چھوٹے بھائی تھے۔ میک اپ مین کی حیثیت سے فلمی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ پنجابی فلم ’’جبرو‘‘ میں ہدایت کار مظفر نے انہیں یاسمین کے ساتھ ہیرو بنا کر پیش کیا اور یہ پہلی فلم ہی کامیاب ہوگئی۔ اس طرح اکمل کے فلمی سفر کا آغاز ہوا رفتہ رفتہ وہ پنجابی فلموں کی ناگزیر ضرورت بن گئے ۔ وہ مزاحیہ ، ڈرامائی ، ایکشن ہر قسم کے کردار کرنے پر قادر تھے ۔ فردوس کے ساتھ ان کی جوڑی بہت مقبول ہوئی تھی۔ انہوں نے اس وقت کی سبھی پنجاب ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ بے اعتدالی اور منشیات کے باعث ان کی صحت نے جواب دے دیا اور وہ جوانی ہی میں انتقال کر گئے۔ یہ پنجابی فلموں کے لیے بہت بڑا جھٹکا تھا لیکن وقت ہر زخم کو مندمل کر دیتا ہے۔ ان کی جگہ دوسرے مقبول ہیرو آگئے مگر لوگ اکمل کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر476پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں


اکمل کے بیٹے شہباز اکمل نے بھی پنجاب فلموں میں اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ ان کی پہلی فلم ’’شکرا ‘‘ تھی جس کے ہدایت کار ظہور حسین تھے۔ یہ اوسط درجے کی فلم تھی مگر اس کے بعد شہباز کو کامیابی نہیں ملی اور وہ فلمی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
فلم ساز و ہدایت کار پرویز ملک بے شمار کامیاب فلمیں بنا چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے بڑے بیٹے عمران ملک کو اپنی فلم ’’شہزادہ ‘‘ میں اہم کردار سونپا تھا مگر یہ فلم ناکام ہوگئی ۔ اس کے ساتھ ہی عمران ملک بھی فلمی افق سے غائب ہوگئے۔ شاید اس لیے بھی کہ پرویز ملک نے اس کے بعد کوئی اور فلم نہیں بنائی۔ مگر عمران نے پرویز صاحب کے ٹی وی سیریلز تم سے مل کر ۔ ارمان اور یادیں میں مرکزی کردار ادا کیے ہیں ۔ اب وہ ٹی وی اداکار بن چکے ہیں اور اس کے بعد ٹی وی کی ہدایت کاری کے میدان میں بھی قدم رکھ رہے ہیں۔ ’’یادیں‘‘ کے ہدایت کار عمران ملک ہی ہیں۔ ان کی سیریل ’’تقدیر ‘‘ کے ہدایت کار بھی وہی ہیں۔
دلجیت مرزا پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑانام رہے ہیں۔ انہوں نے مزاحیہ اداکار کی حیثیت سے فلم سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد فلم سازی بھی کی اور کامیاب فلموں کے ہدایت کار بھی رہے۔ دلجیت مرزا نے طویل عرصے کے بعد ایک فلم ’’رقعہ ‘‘ بنائی تو اس میں اپنے صاحبزادے دلاور کو مرکزی کردار سونپا۔ یہ فلم ایک اچھے موضوع پر بنائی گئی تھی مگر ایک تو دلجیت مرزا نے اس فلم کو ڈبل ورژن میں بنایا۔ یعنی اردو اور پنجابی زبانوں میں ڈبنگ کے بعد پیش کیا دوسرے یہ کہ فلم کے لیے مطلوبہ سہولیتں مہیا نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ’’رقعہ ‘‘ بری طرح فلاپ ہوگئی تھی اور اس کے ساتھ ہی دلاور کے فلم کیرئیر کا بھی بظاہر خاتمہ ہوگیا۔ اب نہ شاید دلجیت مرزا دوسری بار فلم بنائیں گے اور نہ ہی دلاور کو اداکاری کا موقع ملے گا۔
پنجابی فلموں کے ہدایت کار حسن رانا نے پانے بیٹے احسن رانا کو اپنی فلم ’’یار چن ورگا‘‘ میں پیش کیا تھا مگر یہ فلم نام کے برعکس ثابت ہوئی اور فلاپ ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی احسن پر رانا کا چاند بھی گہنا گیا۔
سرفراز ہمارے زمانے میں ہدایت کار تھے پھر وہ بھی فلمی صنعت سے کنارہ کش ہوگئے تھے۔ کافی عرصے بعد انہوں نے ’’دوستی ‘‘ کے نام سے ایک فلم کاآغاز کیا اور اپنے بیٹے عارف خان کو ہیرو کے کردار میں پیش کیا۔ ’’دوستی ‘‘ کی ناکامی کے ساتھ ہی عارف خان کی ناکامی پر بھی مہر ثبت ہوگئی ۔
طالش ہمہ گیر صلاحیتوں کے مالک فنکار تھے بلکہ انہیں بجا طور پر پاکستان کا سب سے اچھا اداکار کہا جاتا ہے۔ ان کے بیٹے سنی طالش نے فلم ’’عاشقوں کی بارات ‘‘ میں اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی اس لیے سنی دوبارہ فلموں میں نظر نہیں آئے۔ اب وہ ٹی وی ڈراموں میں اداکاری اور ہدایت کاری کر رہے ہیں اور ایک ہونہار اور ذہن ٹی وی ہدایت کار ہیں ہدایت کاری وہ کام ہے جو کہ ان کے والد مرحوم نے بے پناہ اداکارانہ صلاحیتیں اور بے اندازہ تجربہ حاصل کرنے کے بعد بھی نہیں کیا تھا۔ آغا طالش کو صرف اداکاری سے دیوانہ وار عشق تھا۔ وہ ایک ذہین اور باشعور اداکار تھے۔ اپنے کردار میں ڈوب کر نہیں، اسے سمجھ کر اداکاری کرتے تھے اور بہترین حقیقی اداکاری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ وہ اداکاروں اور ہدایت کاروں کے اس سکول سے تعلق رکھتے تھے جس کا خیال ہے کہ ادکاری کی معراج یہ ہے کہ وہ دیکھنے والوں کو اداکاری نہ لگے بلکہ یوں محسوس ہو جیسے ایک حقیقی کردار ان کے سامنے موجود ہے۔ سنی طالش ٹی وی ڈراموں میں ہلکے پھلکے کردار بھی کرتے ہیں اور کامیابی سے کرتے ہیں۔ انہیں ایک بے حد کامیاب اور نامور ادکار کا ہونہار بیٹا کہا جا سکتا ہے۔
سدھیر کے نام سے پاکستان میں کون واقف نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بلکہ اس سے پہلے سے وہ اداکاری کرتے رہے ہیں اور پاکستان کے سپراسٹار کہلاتے تھے۔ ان کی وجہ شہرت پنجابی فلمیں ہیں مگر انہوں نے اردو فلموں میں بھی بہت خوبصورت اداکاری کے نمونے پیش کیے ہیں۔ ایک زمانے میں سنتوش کمار اور سدھیر ہی پاکستانی فلمی صنعت کے سپراسٹار تھے۔ دونوں میں دوستی بھی گہری تھی مگر پیشہ ورانہ رقابت بھی تھی اور کام کے ذریعے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ سنتوش صاحب نے بھی ’’شام ڈھلے ‘‘ ’’دامن‘‘ اور ’’دیور بھابی ‘‘ جیسی فلمیں پروڈیوس کی ہیں۔ سدھیر صاحب نے بھی فلم سازی کے میدان میں بہت کامیابی حاصل کی۔ فلم بینوں کے ایک طبقے میں ان کی مقبولیت آسمان کو چھو رہی تھی۔ وہ جنگ جو ہیرو ۔ عوامی ہیرو اور باغی ہیرو کے لقب سے بھی پکارے جاتے تھے۔ کئی یادگار اردو اور پنجابی فلموں میں انہوں نے لازوال اداکاری کا مظاہر کیا تھا۔
سدھیر صاحب کا اصلی نام شاہ زمان تھا۔ انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام بھی شاہ زمان ہی رکھا تھا۔ سدھیر صاحب نے اپنی فلم ’’قاتل کی تلاش میں شاہ زمان کو ہیرو کی حیثیت سے روشناس کرایا تھا۔ یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی۔ اس طرح شاہ زمان فلمی روایات کے مطابق فلمی افق سے غائب ہوگئے۔ بعد میں انہوں نے پشتو فلموں کا رُخ کیا اور چند پشتو فلموں میں اداکاری کی جن میں بھڑاس ، زبدبدمعاش ، خاندانی بدمعاش وغیرہ شامل ہیں لیکن پھر وہ پشتو فلموں سے بھی غائب ہوگئے۔ ایک نامور اور تاریخ ساز اداکار ، فلم ساز اور ہدایت کار کے بیٹے کا یہ انجام افسوس ناک اور عبرت انگیز ہے۔
نعمان حسن کو آپ کسی فنکار یا فنکارہ کا بیٹا تو نہیں کہہ سکتے لیکن وہ ایک مصنف باپ دبیرالحسن کے بیٹے اور ایک بہت نامور ہیروئن ، فلم ساز اور ہدایت کارہ شمیم آرا کے سوتیلے بیٹے ہیں۔ شمیم آرا نے اپنی فلم ’’چپکے چپکے ‘‘ میں انہیں ایک نئی اداکارہ نیہا کے ساتھ متعارف کرایا تھا لیکن یہ فلم چپکے سے ہی نا کام ہوگئی اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی ۔ دراصل اس کی کہانی غیر موثر تھی اس کے علاوہ فلم کے ہیرو اور ہیروئن دونوں نووا در تھے ۔ ان کی مناسب پبلسٹی بھی نہیں کی گئی ۔ مجموعی طور پر یہ ایک غیر معیاری فلم تھی ۔ نعمان حسن کو فلم بینوں کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ اس طرح صرف ایک فلم میں کام کرنے کے بعد وہ فلمی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
(جاری ہے)