اگر آپ خدا کو پہچاننا چاہتے ہیں تو یہ کام کریں

اگر آپ خدا کو پہچاننا چاہتے ہیں تو یہ کام کریں
اگر آپ خدا کو پہچاننا چاہتے ہیں تو یہ کام کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک کلیہ یاد رکھیں جب آپ اللہ کو پہچاننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے خود کو پہچانیں تب ہی خداوند تعالیٰ کو پہچان پائیں گے ۔ یہاں میں حضرت علیؓ کا یہ قول بھی بتاتا جاؤں کہ ’’ میں خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانتا ہوں۔‘‘
اب یہ تمام معاملات اس قدر فلسفیانہ ہیں کہ اگر آپ ان خیالا ت کو درس گاہوں میں، ان مجالس میں جو درس گاہوں، خانقاہوں، درباروں یا افراد کی ہیں، قائم نہ کر سکیں تو پھر جو خلا معاشرے میں پیدا ہوا ہے وہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے مجلس تو علم کی ہوتی ہے لیکن ہم موبائل فون بند کرنا ہمیشہ بھول جاتے ہیں۔ ہم مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں اور وہاں یہ بھی لکھا دیکھتے ہیں کہ فون بند کر دیں کیونکہ اب آپ کا رابطہ زمانے سے کٹ گیا ہے لیکن اِس کے باوجود کم از کم میں نے تو آج تک کوئی نماز باجماعت ایسی نہیں پڑھی جس میں کسی نہ کسی کا فون نہ بجا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ ہو یا فرد ہو ، جب تک اس میں دو چیزیں نہیں ہوں گی نہ وہ معاشرہ قائم رہ سکتا ہے نہ ہی فرد۔
معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا، یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے البتہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ فردکیسے قائم نہیں ہو سکتا ۔ فرد کے قائم نہ ہونے کی چھوٹی سی دلیل یہ ہے کہ آج کا استاد طالب علم کو متاثر کرنے میں ناکام ہے، والدین، اولاد کو قابو کرنے میں ناکام ہیں ۔ یہ افراد کی ناکامی ہے اس لیے معاشرے کے کامیاب ہونے میں ذرا دِقت نظر آتی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فرد اور معاشرے دونوں کی اساس دو چیزوں پر رکھی جاتی ہے اور وہ ہیں قانون اور اخلاقیات۔
اب ضروری نہیں ہے کہ قانون اخلاق بھی ہو۔ ممکن ہے کہ قانون آپ کو بہت غیراخلاقی لگ رہا ہو لیکن ایک قانون وہ ہے جس کو ہم مذہب کی زبان میں شرع کہتے ہیں لہٰذا لازمی طور پر اس کا ایک اخلاقی پہلو ہو گا۔
اب ان معاملات کو اگر اس طرح سے دیکھیں کہ قانون آپ کو نصف دے سکتا ہے ،انصاف دے سکتا ہے، (انصاف سے مراد ہوتی ہے نصف) ۔ سو، قانون آپ کو زیادہ سے زیادہ کیا دے سکتا ہے؟ انصاف ! یعنی آپ نے جو کام کیا اُس کا آپ کو بدل دے دیا جائے ۔ اس سے زیادہ قانون آپ کو کچھ نہیں دے سکتا ۔ اگر ایک منصف کے پاس یہ فیصلہ چلا گیا کہ ایک سڑک کے کنارے ایک سبزی والے کو کھڑے ہونا چاہیے یا نہیں ، تو وہ یقیناً یہی فیصلہ کرے گا کہ اس کو یہاں کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ انصاف نہیں ہے ، یہ قانون ہے لیکن اس ریڑھی والے کے وہاں کھڑے ہونے سے معاشرے کو کس قدر فائدہ پہنچتا ہے، شاید قانون کی تشریح کرنے والے شخص کا یہ دائرہ کار نہیں کہ وہ اس پر بھی سوچے ۔
سو، دو چیزوں کے بغیر نہ فرد قائم ہو سکتا ہے اور نہ معاشرہ۔اور یہ دو چیزیں ہیں ایک تو اُس معاشرے کا قانون اور دوسرا اُس کا اخلاق۔
اب یہاں ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں قانون کون دے گا؟ اخلاقیات کون دے گا؟ لیکن اس سے پہلے کہ اخلاقیات کو سمجھا جائے، صرف اتنی سی بات سمجھ لیں کہ ہر بد اخلاقی میں لذت ہوتی ہے۔ کوئی گناہ ایسا نہیں جس میں لذت نہ ہو۔ چور چوری کرتا ہے، اسے چوری میں فائدہ لگتا ہے۔ رات کو بارہ بجے جب آپ چھپ کر کال کریں گے تو اس میں یقیناً آپ کو بہت لطف آئے گا۔ اخلاق کا یہ منفی پہلو بظاہر اِس معاشرے میں کسی قانون کونہیں توڑ رہا۔
جب بد اخلاقی قانون نہ توڑ رہی ہو تو اِس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ اب یہ معاشرہ روبہِ زوال ہے۔ پھر اس معاشرے کی بہتری کے لیے کوئی بھی ریورس گےئر نہیں لگتا۔ پھر اس معاشرے کو اپنی قدرتی موت مرنا پڑتا ہے۔
اس سارے معاملے میں اگر میں یہ کہوں کہ اہم ترین بات یہ ہے کہ اخلاقیات کے لیے آپ کوکیا چیز چاہیے ، مثال کے طور پہ اگر آ پ مکینک بننا چاہتے ہیں اور آپ کہیں کہ میں محض انگلیوں سے کام لے کر گاڑی کا مکینک بن جاؤ ں، تو یہ ممکن نہیں۔ گاڑی کا مکینک بننے کے لیے آپ کو ایک سکریو ڈرائیور ضرور چاہیے ہو گا اور دیگر بھی بہت سے اوزار درکار ہوں گے۔ اِسی طرح اخلاقیات کا مکینک بننے کے لیے جو راستہ آپ کے سامنے ہوتا ہے جو ٹول، جو پرزہ اور جو اوزار آپ استعمال کرتے ہیں، وہ صرف ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ ہے آپ کا اخلاقیات کا معیار ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ٹھیکہ آپ کو کس نے دیا ہے؟ آپ نے اپنے فائدے کوکس کے لیے چھوڑ دیا ہے ؟
مثال کے طورپر فرض کیجیے کہ اخلاقیات یہ ہے کہ بازار میں چلتے ہوئے نگاہ جھکا کے چلا جائے، مگر لطف تو نگاہ اٹھانے میں ہے۔ اگر میں نظرجھکا کے چلوں تو میں کس کو جواب دہ ہوں؟ میں نے اپنی زندگی کا کون سا ایسا حساب کسی کو دینا ہے جو میں نگاہ جھکاؤں اور لطف حاصل نہ کروں؟ میں اُن اخلاقی پہلوؤں پہ کیوں قائل ہو جاؤں جن میں مجھے بنیادی طور پہ نفس کا کوئی فائدہ محسوس نہ ہو رہا ہو؟
اس میں صرف دوپہلو ہو سکتے ہیں ،پہلا یہ کہ آپ کا کسی پر ایمان ہو تو یہ قائم ہو سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے، کہ آپ کا ایمان کس پہ قائم ہو؟ اگر تو آپ کا ایمان، ترقی اور کامیابی کے لیے ہے تو پھر آپ کے اخلاقی معیار کے پہلو بالکل مختلف ہوں گے اور اگر آپ کا معیار اور آپ کی جواب دہی کے احساس کا مرکز خدا ہو گا تو پھر آپ کی جو جواب دہی ہو گی، اُس کے پیچ کس یا tool کا نام ہو گا تقویٰ۔
اب یہاں پہ چونکہ ہم مذہب کی زبان سے عام طور پر روشناس نہیں ہوتے اس لیے یہ لفظ کہنا بہت آسان ہوتا ہے کہ تقویٰ اختیار کیا جائے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ عام طور پر ہمیں سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ میں اختیار تو تقویٰ کرنا چاہتا ہوں لیکن کس چیز کو اختیار کروں گا تو تقویٰ ہو گا؟
اب یہ معاملہ یا مسئلہ صرف میرا اور آپ کا نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ بن خطاب کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا۔ آپؓ حضرت ابی ابن کعبؓ کے پاس گئے اور پوچھا کہ’’ اے کعبؓ! میں تقوٰی کیسے اختیار کروں۔‘‘
یہاں غور کریں کہاگر میں اس بات کو یہیں چھوڑ دوں تو یہ بات تب بھی مکمل ہے کہ حضرت عمرؓ کو نہیں پتا تھا کہ تقوٰی کیاہے؟ اسی لیے تو عمرؓ کعبؓ کے پاس گئے۔ اب یہ کعبؓ کون ہیں؟
یہ وہی حضرت کعبؓ ہیں جن کے لیے اللہ نے قرآن میں سورہ اُتاری تھی کیونکہ یہ جنگِ تبوک میں نہیں جا پائے تھے اور اِن کے پاس جنگ میں نہ جانے کاکوئی عذر بھی نہیں تھا۔ لیکن اُنھوں نے حضور ﷺ سے جھو ٹ نہیں بولا تھا بلکہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سچ بتا دیا کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں تھا پھر بھی میں جنگِ تبوک میں نہیں گیا۔
سو،حضرت عمرؓ ان کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے بتاؤ کہ تقویٰ کیسے اختیار کروں؟ اب حضرت عمرؓ امیر المومنین ہیں اورحضرت کعبؓ صرف صحابی۔حضرت کعبؓ نے انھیں ایک بڑی خوب صورت بات سمجھائی ۔ اُنھوں نے کہا ’’ عمرؓ! تمھا رے پاس کھلا لباس ہواور تم ایک پگڈنڈی پہ چل رہے ہو اور اُس پگڈنڈی پہ ایک طرف کانٹے دار جھاڑیاں ہوں اور دوسری طرف ایک گہری کھائی ہو، تو دونوں طرف سے بچ کے چلنا ،اور اپنے لباس کو اپنے جسم پہ لپیٹ لینا ، ا س لیے کہ نہ میں کھائی میں گروں،نہ میں جھاڑیوں میں الجھ جاؤں ۔ لیکن یاد رکھنا کہ اس پگڈنڈی پہ چلتے ہوئے تمھیں خوف ضرور آئے گا کہ کہیں گر نہ جاؤں ۔‘‘ یہ وہی حضرت عمرؓ ہیں جنھوں نے حضرت بلالؓ کو ایک دفعہ غلام کہہ کر بلایا تو وہ شکایت لے کر حضورﷺ کے پاس چلے گئے ۔ رسولِ پاک ﷺ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔
اگر آپ کو یہ نہیں پتا کہ آپ کی عقل و فہم اور ادراک کا مقصد کیا ہے ، تو ظاہر ہے پھر جو بھی دن ، جس طرح بھی چڑھے گا، آپ اپنی روٹین لائف پہ گامزن ہو جائیں گے ۔اورسب سے پہلے اپنی پہچان کی بنیاد جس باتوں کا بننا ہے وہ ہماری ترجیحات سے نکل جائیں گی۔

مزید :

بلاگ -