اب ایک اور تحقیقاتی کمیشن
حکومت پاکستان نے ریکوڈیک کیس کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے اس سلسلے میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کی ہدایت کر دی ہے، کمیشن ان حالات کے ذمے داران کا تعین کرے گا اور مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کی سفارشات بھی کرے گا، اٹارنی جنرل آفس سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ کے مطابق یہ دفتر اور بلوچستان حکومت فیصلے کے قانونی اور مالی اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں، حکومت پاکستان مشاورت سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
کمیشن تو ابھی تشکیل پائے گا لیکن وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری بڑے پرجوش انداز میں سامنے آئے ہیں اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی فوری گرفتاری چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنی ہی پارٹی کے ایک سینئر رہنما حامد خان کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ عالمی بینک کے عدالتی ٹربیونلوں کی تاریخ میں اتنا بھاری جرمانہ اس سے پہلے کسی ملک کو نہیں ہوا، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے اور اس پر واقعی گہری سوچ بچار کی ضرورت ہے کہ ہم اتنے بھاری جرمانے کے سزاوار کیونکر گردانے گئے اور وہ کون سے حالات تھے جو پاکستان کو کھینچ کر اس وقت اس جانب لے گئے، جب پاکستان کے عوام کے آنکھیں سونے کی شعاعوں سے خیرہ کی جا رہی تھیں اور اعلان کئے جا رہے تھے کہ اک ذرا صبر، مشکلات کے دن تھوڑے ہیں بس سونا نکلا ہی چاہتا ہے، پھر اس پر وفاق اور صوبے کے درمیان مناقشات سامنے آئے کہ یہ دولت صوبے کی ملکیت ہے یا وفاق کی، بعض کے خیال میں اس پر صوبے کا حق فائق تھا اور بعض کی دانش ان کی اس جانب رہنمائی کرتی تھی کہ وفاق ہی سب کچھ ہے اس دولت سے صرف صوبے کو نہیں ملک کو خوشحال بنانے کے عمل کا آغاز کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ جس کمپنی کو سونے کی تلاش کا کام سونپا گیا اس کا دعویٰ ہے کہ جب وہ اس پراجیکٹ پر 220ملین ڈالر خرچ کر چکی تھی تو معاہدہ منسوخ کردیا گیا۔
تحقیقاتی کمیشن کن امور کی تحقیقات کرتا ہے اور کس کو شامل تفتیش کرتا ہے یہ تو اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہوگا، وہ کس نتیجے پر پہنچتا ہے یہ بھی تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گا، لیکن بعض امور ایسے ہیں جو تحقیقاتی کمیشن اگر دوران تحقیقات پیش نظر رکھے گا تو اسے درست نتیجے پر پہنچنے میں مدد ملے گی، ورنہ کمیشن بن گیا تو کیا یہ کوئی پہلا کمیشن ہوگا ایسے درجنوں کمیشن تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہیں اور ان کی رپورٹوں کو دیمک کھا گئی لیکن ان کی سفارشات پر کسی نے عمل نہ کیا، بلکہ انہیں پائے استحقار سے ٹھکرا دیا، شاید وہ بنے ہی اس لئے تھے کہ چند روز کا شوروغوغا ختم ہو تو کمیشن کی سفارشات پر مٹی ڈال دی جائے۔
یادش بخیر، ایک کمیشن جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں قائم ہوا تھا جس کے ذمے ان وجوہ کو تلاش کرنا تھا جو 1971ء میں ڈھاکہ کے پلئن میدان میں ہتھیار ڈالنے پر منتج ہوئے، کمیشن کو ذمے داروں اور ذمے داریوں کا تعین بھی کرنا تھا، کمیشن نے اپنے طور پر سب کچھ کیا اور ایک رپورٹ تیار کرکے حکومت کے حوالے کردی، لیکن اس میں کیا لکھا تھا یہ حکومت لوگوں کو بتانے کے لئے تیار نہ تھی اس رپورٹ کی کاپیاں ذوالفقار علی بھٹو نے محفوظ رکھی ہوئی تھیں۔ جب ضیاء الحق نے ان کا تختہ الٹ کر حکومت سنبھالی تو رپورٹ کی کاپیاں حاصل کرنے کے لئے 70کلفٹن پر دھاوا بولا گیا اور بالآخر انہیں ڈھونڈ نکالا گیا۔ غالباً مقصد صرف یہ تھا کہ کاپیاں بھٹو خاندان کے پاس نہ رہیں، عوام کو پھر بھی نہ بتایا گیا کہ رپورٹ میں کیا لکھا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک بھارتی جریدے نے پوری رپورٹ چھاپ دی تو پاکستان میں بھی اس کے کچھ حصے سامنے لائے گئے، پوری رپورٹ یہاں آج تک سامنے نہیں آئی، تاہم کئی لکھنے والوں نے اس کے اقتباسات اپنی کتابوں اور رپورٹوں میں شائع کئے۔
ایک کمیشن کی رپورٹ کا تذکرہ یہاں اس لئے کرنا پڑا تاکہ اس پر باقی کمشنوں کی سفارشات کو قیاس کیا جاسکے، یہ جو نیا کمیشن بننے والا ہے اسے سب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ اگر کمپنی کے دعوے کے مطابق وہ اس پر بھاری سرمایہ کاری کر چکی تھی تو پھر اس ٹھیکے کی منسوخی کیوں ضروری تھی، سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی بنیاد پر اگر آج ایک وفاقی وزیر غیر ذمے دارانہ بیان دے رہے ہیں تو اس سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے، حالانکہ اگر یہ معلوم کر لیا جائے کہ اس وقت اس فیصلے پر کون لوگ خوشیاں منا رہے تھے تو بھی بہت کچھ سامنے آجائے گا۔ دراصل اس ٹھیکے پر ابتدا ہی میں غیر ذمہ دارانہ تبصرے کئے گئے اور یہ تاثر دیا گیا کہ جو سونا نکلے گا وہ سارے کا سارا کمپنی لے جائے گی۔ پاکستان کو کچھ نہیں ملے گا، یہ بھی کہا گیا کہ ٹھیکہ دینے والوں نے ٹھیکے سے کمیشن لے کر ملکی مفاد کا سودا کر لیا ہے۔ اربوں کھربوں ڈالر کا سونا نکالنے کا کام جس کمپنی کو سونپا گیا ہے اس کے پاس تو سونے کی تلاش کی صلاحیت ہی نہیں، غرض اس طرح کی بے سروپا باتیں پروپیگنڈے کے انداز میں اس طرح دھرائی گئیں کہ ملکی مفاد کو مجروح کئے جانے کے پروپیگنڈے نے ”حب الوطنی کے تقاضوں“ کو جگا دیا اور سپریم کورٹ بھی اسی جذبے کے تحت آگے بڑھی۔ جب فیصلہ آیا تو خوشیاں منائی گئیں، آج بھی ان لوگوں کے نام سامنے لائے جاسکتے ہیں جو اس ”قومی جشن“ میں شریک تھے، دیکھنا ہوگا کہ آج جن لوگوں کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں خرابیاں نظر آرہی ہیں کیا کل وہ بھی تو جشن منانے والوں میں شامل نہیں تھے؟
تحقیقات ایک سنجیدہ کام ہے اور سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے لیکن ابھی سے جس طرح کے بچگانہ تبصرے سامنے آرہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ اس جنس گراں مایہ کا ہمارے ہاں خاصا قحط ہے، اس لئے کمیشن بنا کر بھی شاید کچھ حاصل نہ ہوسکے۔ تاہم جس کنسورشیم کے حق میں فیصلہ ہوا ہے وہ اب بھی آؤٹ آف کورٹ مذاکرات کے لئے تیار ہے، یہ بھی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے کوئی نہ کوئی باعزت حل نکالا جاسکتا ہے، جرمانے کے خلاف اپیل کی گنجائش ہے اور ممکن ہے اس میں دو تین سال لگ جائیں، لیکن اگر اپیل بھی مسترد ہو گئی تو اس وقت تک چھ ارب ڈالر میں مزید سود بھی شامل ہو چکا ہوگا، اس لئے مقدمہ اس طرح لڑنا چاہئے کہ اپیل کا فیصلہ پاکستان کے حق میں آنے کے امکانات زیادہ سے زیادہ ہوں، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس معاملے پر عدالت سے باہر کوئی گفت و شنید اور اس کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنا ہی بہترین حل ہے، لیکن اس کے لئے حکومت کو اپنے ان وزیروں کے مشوروں سے بچنا ہوگا جو سابق چیف جسٹس کی گرفتاری چاہتے ہیں اور حامد خان سے شاید اس لئے ناراض ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب میں ان کا ذکر اگرچہ ڈھکے چھپے انداز میں کیا ہے لیکن پھر بھی بہت کچھ کہہ گئے ہیں، جس سے چچا بھتیجے کی سرگرمیوں سے پردہ اٹھتا ہے، اب انہیں حامد خان کو رگڑنے کا موقع ملا ہے تو وہ کیوں ضائع کریں گے؟