عوام کو بنیادی حقوق سے آگاہ کیا جانا چاہئے

عوام کو بنیادی حقوق سے آگاہ کیا جانا چاہئے
عوام کو بنیادی حقوق سے آگاہ کیا جانا چاہئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ٹیکس جمع کرنے کی موجودہ مہم کے بعد جو مہنگائی کا سلسلہ شروع ہوا اور ٹیکس ادا کرنے کی مہم کا آغاز ہوا ہے، اس کے خلاف مہم جاری ہے۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ عمران خان نا اہل وزیراعظم ہیں، جن کے دور میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ تبدیلی معیشت میں بہتری کے سبب آئے گی۔دوسری صورت نہیں ہے۔ تنقید کرنے والے لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں میں کرپشن کی انتہا تھی، لیکن انہیں عمران خان کی حکومت کا کوئی کام نظر نہیں آتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ الزام بعض ذرائع کی نظر میں درست ہوں،لیکن پاکستانیوں کے پاس دوسرا راستہ ہی کیا ہے۔ کیا حکومت ماضی میں حکومت کرنے والے لوگوں کے ہی سپرد کر دی جائے تو پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے۔ پاکستان اپنے معاشی حالات کی وجہ سے خراب حالات سے گزر رہا ہے، لیکن یہ کون سا اصول ہے کہ کسی بھی ملک کو قرضے لے کر چلایا جائے۔ ایک مختصر وقت کے لئے تو یہ قابل قبول ہو سکتا ہے، جس پر مستقل عمل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت اس طریقہ کار کو ختم کرنے کا راستہ اپنا نے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ راستہ کٹھن ضرور ہے، لیکن اس کا اختتام بہتر راستہ کی طرف لے جائے گا۔ تاخیر کو قبول کرنا ہوگا۔


دنیا کے ممالک اپنے عوام کو سہولتیں دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا ایجنڈا ہی عوام کی فلاح ہوتا ہے، جسے پاکستان میں ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔ نظر انداز کرنے کا یہ سلسلہ اتنا طویل ہو گیا کہ اس میں تبدیلی کسی حالت میں لوگوں کو قبول نہیں ہے۔ بعض ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سیاسی رہنما پیسہ کو بنیاد بنا کر اپنی سیاست کرتے ہیں۔ اسی لئے پاکستان کے سیاسی رہنماء اپنے ظاہری ذرائع آمدن کے باوجود دولت کے انبار رکھتے ہیں۔ ان کا رہن سہن اپنے عام ووٹر سے یکسر مختلف ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ان کی جائیدادیں موجود ہیں، بیرون ملک بنکوں میں ان کا سرمایہ موجود ہے۔کئی افراد کے تو بیرون ملک کاروبار ہیں، لیکن ان کی سیاست کا ٹھکانہ معاشی طور پر تباہ شدہ ان کا آبائی ملک پاکستان ہے۔


پاکستان بیرونی قرضوں کی وجہ سے اتنے دباؤ میں ہے کہ اگر ملک کے تمام اثاثہ جات کو بھی نجکاری کی نذر کردیا جائے تو بھی وہ قرضے نہیں اتر سکتے۔ پاکستان میں دولت کے انبار لگانے پر کسی نے کسی سے نہیں پوچھا اور مختلف اسباب کی وجہ سے متعلقہ محکمے پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ کیا بھارت میں ایسا ممکن ہے۔ کیا انگلینڈ میں ایسا ممکن ہے، کیا امریکہ میں ایسا ممکن ہے۔ ان ممالک میں تو ٹیکس چوری کرنا اور ناجائز ذرائع سے پیسہ بنانا خطر ناک جرم تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس جرم کے مرتکب افراد قانون سے فرار حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جو عام لوگوں کو گمراہ کرنے میں پیش پیش ہیں۔ حکومت کو معتوب کرنے کے لئے سوشل میڈیا کو خوب خوب استعمال کیا جارہا ہے۔


انگلینڈ کے ٹیکس کے نظام کے موضوع پر ایک پوسٹ نشر ہو رہی ہے۔ اس پوسٹ میں لکھا ہوا ہے کہ ”انگلینڈ میں ٹیکس ہر شخص کی سالانہ آمدن کے مطابق ہوتا ہے۔ سب سے پہلے گورنمنٹ ہر سال یہ چیک کرتی ھے کہ ایک شخص کو ایک سادہ زندگی گزارنے کے لئے ایک سال میں کتنی آمدن چاہیے۔ اس سال 2019 کے لئے وہ آمدن 12000 پونڈ ہے۔ اب جو شخص ایک سال میں 12000 پونڈ سے زیادہ کماے گا اس کے اوپر ٹیکس کا نظام حرکت میں آے گا،لیکن گورنمنٹ چند بنیادی سہولتیں بلا معاوضہ فراہم کرتی ہے۔ علاج معالجہ، تعلیم، سکول میں بچوں کا کھانا، بچوں کا سفر ۔ اب ایک اور بات بہت اہم ہے جس شخص کی فیملی ھے گورنمنٹ اس کو اور انکم سپورٹ دیتی ہے. یعنی گھر کا کرایہ اگر وہ کرایہ دار ہے۔ اس کے بچوں کے لئے پیسے۔ اب جو شخص 12000 پونڈ سے زیادہ کمائے گا اس کے اوپر 2 ٹیکس لاگو ھوتے ھیں۔ نیشنل انشورنس 13%، انکم ٹیکس 14%۔
”انگلینڈ کے نظام حکومت میں زندگی گزارنے کے لئے دودھ پاکستان سے سستا ہے، گھی پاکستان سے سستا ہے، بجلی اور گیس پاکستان سے سستی ہیں، اکثر پھل پاکستان سے سستے ہیں، غیر برانڈڈ کپڑے پاکستان سے سستے ہیں۔ امن و امان بہترین ہے۔ کوئی ہمت نہیں کر سکتا کہ گن پوانٹ پر لوٹ سکے، پولیس کسی کو بلا وجہ نہیں روک سکتی اگر روک لیا جائے تو وجہ بتانا پڑے گی اور عدالت میں پیش کرنا ہوگا۔ فوج کے ملازمین کسی گورنمنٹ ادارے میں نہیں ہوتے ہیں اور نا ہی کوئی پبلک سروس ادارے میں ملے گا، وغیرہ “۔


پاکستان نے انگلینڈ سے ہی آزادی حاصل کی تھی، جب پاکستان قائم ہوا تھا تو اس ملک میں بہت ساری ایسی سہولتیں موجود تھیں جو اب نا پید ہیں۔ ستر برس گزرنے کے بعد بھی عوام کو یہ علم ہی نہیں کہ ملک کا آئین انہیں کیا بنیادی حقوق دیتا ہے اور حکومتیں ان پر کس حد تک عمل کرتی ہیں۔ عوام کو کسی فوجی سربراہ اور نا ہی کسی سیاسی جماعت نے.یہ بتایا ہے کہ عوام کی کیا حقوق ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ بڑوں کے علاوہ چھوٹے کاروبار کرنے والے لوگ ٹیکس ادا کرنے کی بجائے اپنی اپنی حیثیت سے دولت جمع کرتے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ کسی بھی صورت حال میں اگر ان کے پاس پیسہ نہیں ہوگا تو ان کے لئے صورت حال مشکل ہوگی۔ پاکستان کے بازاروں میں تاجروں اور دوکانداروں کی عملا لوٹ مار اسی ذہن کی عکا سی کرتی ہے۔ اس تماش گاہ میں حکومت کو عوام کو قائل کرنا ہوگا کہ کسی بھی مشکل صورت حال میں حکومت ہر شخص کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ جب تک عوام کو یہ بات ذہن نشیں نہیں کرائی جائے گی، لوگ پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے میں دلچسپی نہیں لیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -