سابق امریکی صدر پر قاتلانہ حملہ
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک انتخابی جلسے کے دوران قاتلانہ حملہ ہوا، گولی اْن کے کان کے اوپری حصے کو چھوتی ہوئی نکل گئی جس سے وہ معمولی زخمی ہوئے۔ امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے فوراً ہی حرکت میں آئے، ایک حملہ آور ہلاک جبکہ دوسرا گرفتار ہو گیا۔ ریپبلکن رہنما ٹرمپ امریکی ریاست پنسلوانیا کے علاقے بٹلر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے جہاں اْنہیں اپنے نائب صدر کے امیدوار کا اعلان کرنا تھا کہ اچانک فائرنگ کی زوردار آوازیں سنائی دیں،سابق صدر سٹیج پر گر گئے تاہم اْنہیں سیکرٹ سروس کے اہلکاروں نے فوری طور پر اپنے حصار میں لے کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔ سابق صدر سیکرٹ سروس کے حصار میں بھی عوام کو دیکھ کر بار بار مْکہ لہرا کر ”فائٹ، فائٹ“ کے نعرے لگاتے رہے، واقعے کی فوٹیج میں واضح طور پر اْن کے چہرے اور دائیں کان پر خون دیکھا جا سکتا تھا۔ کاؤنٹی پراسیکیوٹر نے تصدیق کی کہ فائرنگ سے ریلی میں موجود ایک شخص بھی ہلاک ہوا۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ترجمان کے مطابق ٹرمپ کو مقامی مرکز میں طبی معائنے کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ تحقیقات کی جا رہی ہیں، مزید معلومات دستیاب ہونے پر جاری کر دی جائیں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بیان جاری کیا جس میں حملے میں مارے گئے شہری کیلئے گہری ہمدردی کا اظہار کیا، انہوں نے مزید کہا کہ رواں ہفتے وسکونسن ریلی میں اپنی قوم سے بات چیت کا منتظر ہوں، ہمیں ہمیشہ سے کہیں زیاہ اب متحد ہونے کی ضرورت ہے، مضبوط اور پْریقین رہ کر امریکیوں کے اصل کردار کا مظاہرہ کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ نے واقعے کے دوران فوری کارروائی کرنے پر قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور امدادی اداروں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ امریکی وفاقی تحقیقاتی بیورو (ایف بی آئی) کے بیان کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ پر حملہ کرنیوالے شخص کی شناخت تھامس میتھیو کروکس نامی 20 سالہ مقامی نوجوان کے طور پر ہوئی تاہم اْس نے حملہ کیوں کیا یہ تاحال واضح نہیں ہو سکا۔تھامس کا ایک ویڈیو پیغام گردش کر رہا ہے جس میں وہ ٹرمپ سے نفرت کا اظہار کر رہاتھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر حملے کی ابتدائی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ واقعے سے کچھ دیر قبل پولیس کو ایک شخص کی طرف سے حملہ آور کی موجودگی کے بارے میں بتانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن پولیس اہلکاروں نے اسے نظر انداز کر دیا۔ عینی شاہد نے برطانوی میڈیا کو بتایا کہ اْس نے ایک مسلح نوجوان کو عمارت کی چھت پر رینگتے ہوئے دیکھا جو ٹرمپ کی جانب پوزیشن لے رہا تھا، اْس نے خطرہ بھانپتے ہوئے پولیس اہلکار کو بتایا لیکن وہ شاید اْس کی بات سمجھ نہیں سکے اور پھر فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر فائرنگ کے بعد اْن کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ اور بڑے بیٹے ٹرمپ جونئیر نے بھی ایکس پر اپنے پیغامات جاری کئے۔ امریکی صدر بائیڈن نے سابق امریکی صدر ٹرمپ سے بات چیت بھی کی۔ امریکی صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ اْنہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ٹرمپ اِس حملے میں محفوظ رہے۔ اْن کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ میں اِس طرح کے تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جاپان، کینیڈا اور برطانیہ کے وزرائے اعظم کے علاوہ یورپی یونین کے چیف سمیت دیگر کئی عالمی رہنماؤں نے بھی ٹرمپ پر حملے کی شدید مذمت کی۔ اْن سب کا کہنا تھا کہ وہ ٹرمپ کی جلد صحت یابی کیلئے دعا گو ہیں، پْرتشدد واقعات کیخلاف سب کو کھڑا ہونا چاہیے، جمہوریت کو چیلنج کرنیوالے کسی بھی قسم کے تشدد کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کے صدر مملکت آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے بھی سابق امریکی صدر حملے کی شدید مذمت اور گہرے افسوس کا اظہار کیا۔
امریکہ میں صدور پر حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ابراہام لِنکن، جیمز گارفیلڈ، ولیم مک کینلی اور جان ایف کینیڈی قاتلانہ حملوں میں جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ سات دوسرے امریکی صدور ایسے حملوں میں محفوظ رہے۔ امریکہ میں کسی صدر کے قتل کا پہلا واقعہ 1865ء میں اْسوقت پیش آیا جب صدر ابراہام لنکن کو فورڈ تھیٹر میں ڈرامہ دیکھتے ہوئے گولی ماردی گئی تھی۔ جیمز گارفیلڈ قاتلانہ حملے کا نشانہ بننے والے دوسرے امریکی صدر تھے۔ صدارت سنبھالنے کے صرف چھ ماہ بعد اْنہیں واشنگٹن کے ایک ٹرین سٹیشن پر دو جولائی 1881ء کو چارلس گیٹو نامی ایک حملہ آور نے گولی ماردی تھی، کئی ہفتوں تک وائٹ ہاؤس میں زیرِ علاج رہنے کے بعد اسی سال ستمبرمیں وہ جان کی بازی ہار گئے۔ امریکہ کے 25ویں صدر ولیم مکنلی کو چھ ستمبر 1901ء کو ریاست نیویارک کے شہر بفلو میں اْس وقت گولی ماری گئی جب وہ اپنے خطاب کے بعد لوگوں سے مل رہے تھے۔ حملہ آور نے انتہائی قریب سے اْن کے سینے میں دو گولیاں ماریں،چند روز زیرِ علاج رہنے کے بعد 14 ستمبر 1901ء کوان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ جان ایف کینیڈی کو نومبر 1963ء میں ایک حملہ آور نے چھپ کر رائفل سے گولی ماری تھی، وہ خاتونِ اوّل کے ہمراہ ایک کھلی گاڑی میں ڈیلس شہر کا دورہ کر رہے تھے، اْنہیں ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ پانچ سال بعد اْن کے بھائی رابرٹ کینیڈی صدارتی امیدوار بننے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اْنہیں 1968ء میں ریاست کیلی فورنیا کے پرائمری میں فتح کے بعد لاس اینجلس ہوٹل میں خطاب کرتے ہوئے گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ ایک صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود امریکی سیاستدانوں پر قاتلانہ حملے ہو رہے ہیں،امریکہ ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود ان پر قابو نہیں پا سکا، گو کہ اچھی بات ہے کہ ایک حملہ آور کو فوراً ہی گرفتار کر لیا گیا، تحقیقات میں قاتلانہ حملے کی وجوہات سامنے آ جائیں گی۔ حالیہ حملے میں سابق صدر کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں، گولی اْن کے کان کو زخمی کرتی ہوئی گزر گئی۔ دنیا بھر کے سیاستدانوں نے نہ صرف اِس حملے کی مذمت کی بلکہ سیاست میں تشدد کی شدید مخالفت بھی کی ہے۔جمہوری نظام میں ہر کسی کو اپنی بات کرنے کا حق اور آزادی حاصل ہے، اِس میں کسی قسم کے تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ سخت باتیں کہنے کے عادی ہیں اور سفید فام شدت پسندی کے عملبردار ہیں، مخالفین اْن پر نفرت کی سیاست کا الزام بھی دھرتے ہیں تاہم اْن پر قاتلانہ حملے یا کسی قسم کے تشدد کو ہرگز درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اختلاف کے بغیر سیاست کا کوئی وجود اور معنی نہیں ہے لیکن اس میں احتیاط لازم ہے،اہل سیاست کو معاشرے میں نفرت اور پرتشدد سیاست کو ہوا دینے سے گریز کرنا چاہئے۔لوگوں کو بھی اپنے جذبات قابو میں رکھتے ہوئے کسی انتہائی قدم سے پرہیز کرنا چاہئے، اگر کوئی لیڈر ناپسند ہے تو ووٹ کے ذریعے اس کے خلاف فیصلہ دیں نہ کہ اس کا وجود ہی مٹانے میں لگ جائیں۔