حالات برداشت سے زیادہ آگے نکل گئے تو فیصلہ کر لیا کہ اب یہ جگہ چھوڑنا ہی ہوگی، مجھے بلا کر کہا گیا کہ شاید ہمارا بچھڑنے کا وقت آ پہنچا ہے

 حالات برداشت سے زیادہ آگے نکل گئے تو فیصلہ کر لیا کہ اب یہ جگہ چھوڑنا ہی ...
 حالات برداشت سے زیادہ آگے نکل گئے تو فیصلہ کر لیا کہ اب یہ جگہ چھوڑنا ہی ہوگی، مجھے بلا کر کہا گیا کہ شاید ہمارا بچھڑنے کا وقت آ پہنچا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:333
جب حالات برداشت سے زیادہ ہی آگے نکل گئے تو میں نے ایک بار پھر فیصلہ کر لیا کہ اب مجھے یہ جگہ چھوڑنا ہی ہوگی، غالباً یہی سوچ دوسری طرف بھی تھی۔ مجھے بلا کر کہا گیا کہ شاید ہمارا بچھڑنے کا وقت آ پہنچا ہے، میری حوصلہ افزائی کی گئی کہ میں اگر کہیں اور جانا چاہوں تو جا سکتا ہوں اور اس سلسلے میں مجھے اگر کچھ دن اور بھی ہسپتال میں ٹھہرنا پڑا تو میں ٹھہر سکتا ہوں۔ میں بھی روز روز کی اس بُری سیاست اور ذہنی اذیت سے تنگ آ چکا تھا،جو پہلے تو صرف نچلی سطح تک ہی محدود تھی لیکن اب بات اوپر تک پہنچ گئی تھی۔ مجھے کوئی ایسی خاص مالی دشواری بھی نہیں تھی اس لیے میں نے یہ احسان لینے کی بجائے فوری طور پر وہاں سے رخصتی کا فیصلہ کر لیا اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا اور اگلے دن سب سے اجازت لے کر اپنے گھر واپس آ گیا اور یوں میرے وطن کی خدمت کرنے کے جذبے کو جو میں ریاض سے لے کر چلا تھا، ٹھیک ٹھاک ٹھنڈ پڑ گئی۔ مجھے احساس ہوا کہ اس معاشرے میں ایک محنت اور ایمانداری سے کام کرنے والے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی اور غالباً یہی ہماری قوم کی مجموعی ناکامی کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔
یقینا اس میں میری اپنی بھی کچھ کوتاہیاں اور خامیاں ہوں گی لیکن مجھے اس بات کا ہمیشہ دکھ رہے گا کہ یہ میری عملی زندگی میں پہلا موقع تھا جب میری کارگزاری کسی کو متاثر نہ کر سکی تھی۔ مجھے باہر سے ایک بہترین ملازمت چھوڑ کر واپس آنے کا باقاعدہ افسوس ہوا۔ میں بڑاکچھ کرنے کا عزم لے کر پاکستان آیا تھا، اور اپنی استطاعت کے مطابق بڑا کچھ کیا بھی،لیکن میں یہاں کے ماحول میں مدغم نہیں ہو پایا جہاں ہر طرف بد دیانتی، رشوت،جھوٹ اور شاطرانہ سیاست رگ رگ میں رچی بسی ہوئی تھی۔ مجھے ہسپتال کی انتظامیہ اور سٹاف نے انتہائی محبت اور خلوص سے رخصت کیا۔ آخری کام جو میں نے کیا کہ کیفے ٹیریا والوں کو کہا کہ میرا اب تک کا بل بنا لائیں تاکہ میں جانے سے پہلے ان کا حساب صاف کر دوں۔ بل کے بجائے کیفے کا مالک خود ہی آگیا، اس نے نہایت افسردگی سے کہا کہ آپ کے دوکپ چائے کا بل رہتا ہے، اب آپ ہمیں اتنی اجازت تو دے دیں کہ ہم کہہ سکیں کہ یہ ہماری طرف سے آپ کے لیے الوداعی چائے ہے۔ مجھے بھی بہت دکھ ہوا اور میں نے آگے بڑھ کر اس کو گلے سے لگا لیا۔ وہ ایک ریٹائرڈ فوجی آفیسر تھا اور ہم دونوں ایک دوسرے کی بے حد عزت کرتے تھے۔
مجھے یہ کہتے ہوئے بڑا فخر محسوس ہو رہا ہے کہ میری رخصتی کے باوجود اعلیٰ انتظامیہ سے میرے بہترین تعلقات آج تک بھی قائم ہیں اور انھوں نے بھی ہمیشہ مجھے عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جیسا شروع میں سوچا تھا ویسا ہوانھیں۔ اس صورت حال سے دل اس قدر شکستہ ہوا کہ بعد ازاں پرکشش ترغیب اور مسلسل اصرار کے باوجود اپنے آپ کوایسے کسی بھی ادارے میں شمولیت کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ کر سکا۔ مجھے اس بات کا بھی رنج تھا کہ میں نے دنیا کے بہترین ہسپتال میں رہ کر جو کچھ سیکھا اورحاصل کیا تھا وہ نیک نیتی اور کوشش کے باوجود مؤثر طور پر اپنے وطن کو منتقل نہ کر سکا اور یوں میں نے اپنے آپ کو اور اپنے تجربے کو بھی بری طرح ضائع کر دیا۔اس سے کہیں بہتر تھا کہ میں وہیں دیار غیر میں رہ کر عزت سے اپنی روزی کماتا، جہاں تمام تعصبات سے بالا تر ہو کر انسان اور اس کے کام کی قدر کی جاتی تھی۔یہ صرف میرا ہی المیہ نہیں تھا، مجھ سے پہلے اور بعد میں آنے والے سب دوست ایسے ہی حالات سے گزرے تھے اور انہیں اسی قسم کے ظالمانہ رویوں سے سابقہ پڑا تھا۔معاشرے میں کچھ ایسے بگاڑ آ گئے تھے کہ دونوں ہی نے ایک دوسرے کو قبول نہ کیا، اور واضح طور پر روٹھے روٹھے ہی نظر آئے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -