امریکی اور ناٹو افواج کے لئے رسد کی بحالی (7)

سامراجی عزائم اور ہماری ترجیحات:ہم نے زیربحث مسئلے کے ان چند اہم پہلوﺅں کی طرف قوم کو متوجہ کیا ہے جو بالعموم نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور توجہ کا مرکز بس وہ بات بن جاتی ہے جو اولین ہدف ہے۔ امریکی اور ناٹو افواج کے لئے رسد کی فراہمی کا مسئلہ اصل مسئلہ نہیں ہے، اور 250ڈالر یا 5ہزار ڈالر یہ کوئی ایشو ہے ہی نہیں۔ اصل مسئلہ وہ تباہ کن جنگ ہے جو امریکا نے افغانستان اور اس خطے پر مسلط کردی ہے اور جس کا کوئی تعلق نہ القاعدہ سے ہے اور نہ طالبان سے جن کے نام پر اس آگ کو بھڑکایا گیا ہے۔ امریکا افغانستان سے فوجی انخلا اپنی معاشی اور سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے کرنا بھی چاہتا ہے اور افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا بھی ضروری سمجھتا ہے۔اس کے لئے جہاں ایک طرف اس جنگ سے امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد کو بچانا مقصود ہے ،تاکہ امریکا میں انسانی جانوں کے اتلاف اور جنگ کے زخم خوردہ افراد کو عتاب سے بچاسکیں، وہیں ٹکنالوجی کی مدد سے اور مقامی فوج کو توپوں کا بارود بناکر اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کو بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ڈرون ٹکنالوجی اور ریموٹ کنٹرول جنگی اسلحہ اس نقشہ¿ جنگ میں مرکزی اہمیت اختیار کرگئے ہیں، اور لوکل اشرافیہ سے گٹھ جوڑ اور مفادات کے اشتراک کا ایک جال بچھا کر ان ممالک کے وسائل کا ناجائز انتفاع اور افغانستان اور پاکستان کی جغرافیائی سہولتوں کے ذریعے وسط ایشیا میں اپنے اثرات کو مستحکم کرنا پیش نظر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2014ءمیں فوجیوں کی واپسی کے پردے کے پیچھے 2024ءتک فوجی اڈوں کا وجود، تعلیم و تربیت اور نگرانی کے نام پر 20ہزار یا اس سے کچھ زیادہ فوجیوںکا قیام، اور اس کے ساتھ مارکیٹ اکانومی کا قیام اور بیرونی سرمایہ کاری کے سازگار ماحول اُس اسٹرے ٹیجک معاہدے کا اہم حصہ ہیں جو 2مئی 2012ءکو بگرام ایئربیس پر افغانستان پر مسلط کیا گیا ہے اور جس کی طالبان اور حزبِ اسلامی نے مخالفت کا برملا اعلان کیا ہے۔ امریکا کا ہدف جنگ کے اس نئے دور کے لئے پاکستان کو مجبور کرنا ہے، جب کہ پاکستان کا حقیقی مفاد اس میں مضمر ہے کہ امریکا کا افغانستان سے مکمل انخلاہو، امریکا کے ساتھ افغانستان میں بھارت کے کردار سے بھی نجات پائی جائے، اور افغانستان صحیح معنوں میں خود اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو اور علاقے کے ممالک کے تعاون سے اپنا استحکام بھی حاصل کرے اور علاقے کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور اسے سامراجی قوتوں کے کھیل سے پاک کیا جاسکے۔ امریکا کا ہدف نئی شکل میں جنگ کے تسلسل کے لئے شرائط کار کا تعین ہے، جب کہ پاکستان اور خود افغانستان اور علاقے کے دوسرے ممالک خصوصیت سے ایران اور چین کا مفاد اس میں ہے کہ امن، اور بیرونی کھیل سے پاک سلامتی اور ترقی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پوری بحث اور جستجو کا اصل مرکزی نکتہ جنگ سے امن، تصادم سے تعاون، اور مداخلت سے مفاہمت کی طرف منتقل کیا جائے۔ امریکا سے تصادم اور دشمنی کی پالیسی نہ ہمارے مفاد میں ہے اور نہ علاقے کی ضرورت ہے، لیکن امریکا کے ٹینک پر بیٹھ کر اس کے جنگی اور سیاسی و معاشی ایجنڈے کے حصول میں شریک بننا بھی ہمارے اور علاقے کے مفاد میں نہیں۔سب سے پہلی بات مقصد اور منزل کا تعین ہے۔ اس وقت سب سے اہم ایشو یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی مداخلت کس طرح جلد از جلد ختم ہو، امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا واقع ہو، اور افغان قوم اپنے معاملات خود اپنے ہاتھ میں لے۔دوسری بات افغانستان میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ کے کھیل سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے اور باہم اعتماد کو مستحکم کرتے ہوئے قومی مفاہمت کے عمل کو تقویت دینا اور اس کے لئے آسانی پیدا کرنا ہے۔ تیسری بات جو پاکستان کے مستقبل کے اعتبار سے بہت اہم ہے، وہ پوری شائستگی سے امریکا سے یہ کہنا ہے کہ ہمیں آپ کی معاشی اور فوجی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہم تجارتی اور سیاسی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، اور دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر مشترکات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں، لیکن غلامی اور محکومی کا جو فریم ورک بن گیا ہے اس سے نکلنا بے حد ضروری ہے۔ امریکا اور پاکستان کے وسائل اور سیاسی، عسکری اور معاشی قوت میں فرق ایک تاریخی حقیقت ہے ،لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہم اپنے کو محکومی کی زنجیروں میں جکڑ ڈالیں۔ پاکستان کی 175ارب ڈالر کی معیشت کے لئے ایک ارب ڈالر کی معاشی امداد کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کے لئے ہم اپنی سیاسی آزادی، نظریاتی تشخص، معاشی خودانحصاری اور تہذیبی شناخت کو داﺅ پر لگادیں۔ اگر ہم اپنے وسائل کو دیانت، محنت اور اعلیٰ صلاحیت سے ترقی دیں تو بہت کم وقت میں اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ آج بھی امریکا کی ایک ارب ڈالر سالانہ کی معاشی امداد کے مقابلے میں بیرونِ ملک پاکستانی 12ارب ڈالر سالانہ اپنے ملک بھیج رہے ہیں اور اگر صحیح پالیسیاں اختیار کی جائیں تو اسے دگنا کیا جاسکتا ہے۔اچھی حکومت، کرپشن سے پاک قیادت، تعلیم اور انصاف کی مرکزیت پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی، عوام پر اعتماد اور عوام کی بہبود کے لئے تمام مساعی کا اہتمام ہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اپنے اصل مقصد کے حصول اور اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کرسکتا ہے۔ یہ وہ اہداف ہیں جو حاصل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ملک کو ایک دیانت دار اور باصلاحیت قیادت میسر آجائے اور قوم کے تمام مادی اور انسانی وسائل لوٹ کھسوٹ اور تصادم کے بجاے ایسی ترقی کے لئے صرف ہوں، جس میں سب کا بھلا ہو۔ موجودہ حالات میں یہ اسی وقت ممکن ہے جب روایتی سیاسی شکنجوں سے ہم اپنے کو آزاد کریں اور نظریاتی اور اخلاقی سیاست کا راستہ اختیار کریں۔ موجودہ قیادت نے قوم کو بُری طرح مایوس کیا ہے ،لیکن جمہوری عمل اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود تبدیلی کا بہترین طریقہ ہے۔ موجودہ حکومت حکمرانی کے اُس مینڈیٹ سے محروم ہوچکی ہے جو اسے فروری 2008ءمیں حاصل ہوا تھا۔ اس پس منظر میں پانچ سال پورے کرنے کی رَٹ لگانا ملک کو بحران میں مبتلا رکھنے کا نسخہ ہے۔ حکومت کے لئے سوا چار سال بہت بڑا وقت ہے۔ اگر اس حکومت نے عوام کی ’خدمت‘ کی ہے تو اسے انتخابات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر اسے بھی یقین ہے کہ عوام اس سے بے زار ہیں تو اس کے لئے بھی معقولیت کا راستہ یہی ہے کہ عوام کو نئی قیادت بروے کار لانے کا موقع دے۔ ہماری نگاہ میں ملک کی فوری ضرورت امریکا کی محکومی کے سایے سے نکلنا اور افغانستان میں جنگ نہیں امن کے عمل کو متحرک کرنا ہے۔ یہی عوام کی طرف جلد از جلد رجوع کی ضرورت ہے، تاکہ نئی قیادت نئی سندجواز (مینڈیٹ) کے ساتھ ملک کو اس دلدل سے نکال سکے جس میں وہ اس وقت پھنسا ہوا ہے۔(ختم شد) ٭