فیس بک
الفاظ کے بغیر حُسنِ خیال کسی گونگے کے خوبصورت خواب کی طرح ایک ایسا جلوہ ہے جسے دیکھا تو جا سکتا ہے، دکھایا نہیں جاسکتا۔ اور خیال کے بغیر الفاظ ایسی اینٹوں کا ڈھیر ہیں جنہیں عمارت بننا نصیب نہیں ہوتا ۔ محبت اتنی قابل محبت نہیں ہوتی جتنا اسے الفاظ بنا دیتے ہیں ۔ جذبوں کی مالا میں پروئے جانے والے لفظوں کے موتیوں کو اگر کوئی ہار سمجھ بیٹھے تو اُس ہارے ہوئے شخص سے کوئی جیت نہیں سکتا ۔ یہ اپنے اپنے مزاج کی بات ہے ۔ بدمزاج لوگ خوبصورت خیال کو بھی بانجھ کر دیتے ہیں ۔ لفظوں کی تو گویا عزت ہی لُوٹ لیتے ہیں ۔ ایسے لٹیروں سے تو وہ خوش مزاج اچھے ہوتے ہیں جو تیر مژگان سے کسی کی جان لینے کا ہنر جانتے ہیں ۔ میرا دوست ڈاکٹر اقبال انجم عصرِ حاضر کا ایک ایسا عجیب انسان ہے جو برسرِ عام ا س امر کا اظہار کرتا پھرتا ہے کہ کم ظرف لوگ اگر کسی سے گلے مل بھی لیں تو وہ ہاتھ ملانے سے گریزاں ہی رہتے ہیں ۔ وہ کہتا ہے حقیقی رشتوں کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کی آواز میں اپنی آواز کو یوں ملا دیتے ہیں جیسے پھول میں خوشبو، بدن میں روح ،آٹے میں نمک ، دودھ میں بالائی ، بالائی میں مکھن اور مکھن میں گھی رچا بسا ہوتا ہے ۔
انگریزی زبان کو لب و لہجے میں بسائے رکھنے والا ڈاکٹر اقبال انجم زیست کی پنجابی فلموں کے کرداروں اور بدکرداروں پر گہری تحقیق رکھتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جس شخص کے پاس مال نہ ہو وہ خوشحال بھی نہ ہو اور یہ بھی لازم نہیں کہ جس کے پاس مال ہو وہ بدحال نہ ہو۔ اس کے بقول دنیا کی رنگینی اور نیرنگی اسی بات میں ہے کہ کہیں روشنی ہو اور کہیں اندھیرا ، کہیں سورج چمک رہا ہو اور کہیں جگنو جگمگا رہے ہوں ۔ کہیں شیر دھاڑ رہا ہو اور کہیں بکری ڈر رہی ہو ۔ وہ کہتا ہے کہ باز کی زندگی کبوتر کے گوشت سے وابستہ ہوتی ہے ۔ اس میں کوئی استحصال نہیں ، کوئی ظلم نہیں ۔
وہ کہتا ہے کہ بگڑے ہوئے امیر کی محبت اور بدتمیز غریب کی نفرت سے دامن بچانا چاہئے ۔ وہ کہتا ہے کہ بعض لوگوں کو بددعا ہوتی ہے کہ وہ محبت کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر رشتے کو سماجی رابطے کے طور پر استعمال کرکے اس زعم کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کوئی شخص کہیں ان سے مستفید نہ ہو جائے ۔ آج کل سماجی رابطوں کا ایک ذریعہ” فیس بک“ بھی ہے ۔ اس وقت پاکستان میں فیس بک کے تقرےباً ایک کروڑ سے زائد صارفین میں82 لاکھ سے زیادہ مرد جبکہ 32 لاکھ خواتین شامل ہیں۔
بہت سے مبصرین کا خیال ہے فیس بک پر موجود ان خواتین میں سے بہت سے اکاو¿نٹس ایسے بھی ہیں جو مردوں نے خواتین کے نام سے بنائے ہیں، یا پھر مارکیٹنگ کے شعبہ سے تعلق رکھنے والوں نے انہیں عوام کی توجہ حاصل کرنے کیلئے خواتین کا نام دے رکھا ہے۔ آج کے دور میںشاید ہی کوئی شخص اےسا ہو جو سماجی روابط کی مشہور ویب سائٹ ”فیس بک“ سے واقف نہ ہو۔بچوں اور نوجوانوں سے بڑوں تک سب ہی اس کے سَحر میں جکڑے نظر آتے ہیں۔ اپنی معمولی اور غیر معمولی سرگرمیوں سے لے کر مختلف مسائل کا ذکر اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے یہ ویب سائٹ دنیا بھر میں مقبول ہے۔ یہاں تک کہ دور اور قریب رہنے والے عزیز و اقارب کو نہ صرف عید، بقرعید، شادی بیاہ وغیرہ کی مبارک بادیں بھی یہیں پر دی جانے لگی ہیں، یہاں تک کہ کسی کے انتقال پر تعزیت کے لئے بھی اسی وسیلے کو استعمال کیا جانے لگا ہے۔ فیس بک ایک سوشل نیٹ ورکنگ سروس ہے جس کا آغاز 2004 میں جامعہ ہاورڈ کے طالب علم مارک برگ نے جامعہ کے طالب علموں کے لئے کیا جسے بعد میں 13 سال یا اس سے زائد عمر کے تمام افراد کے لئے دستیاب کردیا گیا۔
فیس بک ہماری زندگی کا ایک لازمی ج±زو بن چکا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف دوستیاں، رشتے داریاں بڑھ رہی ہیں بلکہ دشمنیاں بھی پیدا ہو رہی ہے۔ تحقیقیں کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جو اپنا زیادہ تر وقت سماجی ویب سائٹس پر گزارتے ہیں ان میں تنہائی پسند ہو جانے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ اپنی عام زندگی میں سماجی سرگرمیوں سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
فےس بک پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال انجم ہمےشہ ےہ بات کہا کرتا ہے کہ فیس بک پر فیک اکاﺅنٹ بنا کر راہ و رسم بڑھانے والے لوگ بے ضمیر ہوتے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ ان بے ضمیر لوگوں کی تاریخ بہت قدیم اورکردار بڑا پرانا ہے بلکہ پھٹا پرانا ہے ۔ اس کے نزدیک فیس بک سماجی رابطوں کا ایک ایسا ذریعہ ہے جہاں ہر خطہ زمین سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے ظرف اور اپنے اپنے ضمیر کے مطابق اپنی اپنی پہچان کے ساتھ” لاگ آن“ ہوتے ہیں ۔ فیس بک پر ایک طرف قرآن کے پیغام کو اکناف ِ عالم تک پہنچانے والے لوگ بھی ہیں تو دوسری طرف بے حیائی کے حمام میں شیطان کے ساتھ نہانے والے بھی ۔
وہ کہتا ہے کہ فیس بک کوئی بری چیزنہیں اسے بری طرح استعمال کرنے والے لوگ دراصل اس کی بدنامی کا موجب بنے ہوئے ہیں ۔ وہ تو سماجی رابطوں کی ایک ایسی تجویز ہے جو اعلان عام کرتی ہے کہ دل کی بعض کیفیتیں زبان حال سے بیان نہیں کی جاسکتیں ۔ فیس بک ایک خیالی بہشت ہے جہاں بے لذت طرب و نشاط کے مزے لوٹے جاسکتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ مگر افسوس یہ ہے کہ حقیقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قدم قدم پر کمال کو ملال میں بدلنے والے لوگ حقیقی چاہتوں ، سچی محبتوں اور سُچے رشتوں کو بھی ایک خیالی فیس بک سمجھ کر وہاں فیک اکاﺅنٹ بنا لیتے ہیں ۔ وہ نہیں جانتے کہ اگر ان کے فیک اکاﺅنٹ کو کسی نے ہیک کر لیا تو ان کے اکاﺅنٹ کا خفیہ کوڈ فیس بک سے نکل کر ان کے اُس فیس پر بھی آسکتا ہے جس فیس پر انہوں نے ”فیک فیس“ لگا رکھا ہے ۔
اس ضمن مےںمیرا دوست مبشر الماس کہتا ہے کہ بعض دفعہ وضع داریاں تکلف اور تکلف مقراضِ محبت بن جاتا ہے ۔ آج من کے مہمان خانے سے رخصت لے کر جانے والے لوگ کل کو بن بلائے بھی آسکتے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ صنم آشنا لوگ درد آشنا بھی ہو جائیں ۔ اس کا فلسفہ ¿ محبت دنیا سے نرالا ہے وہ انکار کو اقرار قرار دیتا ہے ۔ وہ خامشی کو بیان کہتا ہے اور بیان کو سند مانتا ہے ۔ وہ کہتا ہے انکار پر مبنی بیان اُس خامشی سے بہتر ہے جس میں اقرار کو یقین ماننا بے یقین ٹھہرے ۔ وہ اکثر میری باتوں سے شدید اختلاف کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ اگرچہ گونگا اپنے خواب بیان نہیں کر سکتا مگر اس کے باوجود اس سے اس کی تعبیر کوئی نہیں چھین سکتا اور اس کی تعبیر محبت بھی ہو سکتی ہے ۔
میں نے فیس بک استعمال کرنے والوں کے بارے میں اُس کے خیالات جاننے کی کوشش کی تو اس نے بتاےا کہ فیس بک کو” بے سوا“ سمجھ کر استعمال کرنے والوں کی اوقات ایسے تماش بین سے زیادہ نہیں ہوتی جو ایک رات کی تھکن اتارنے کے لئے اسے ایک بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ اور یہ ایک رات چھ مہینوں تک طویل بھی ہوسکتی ہے ۔ اور اسی فیس بک کو دلی احترام دینے والے اس سے عقد کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ چاہے عقدِ ثانی ہی کیوں نہ کریں ۔ ۔۔ اس نے مجھے بے شمار اخباری تراشے بھی دکھائے جس میں دنیا کے دو مختلف براعظموں کے باشندے اس سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کے ذریعے بننے والے ہوائی رشتے کے دوش پر ایک دوسرے کے شریک ِحیات بن گئے ۔ وہ کہتا ہے کہ فیس بک کو اگر کوئی خلوصِ دل سے استعمال کرے تو اسے دلبر بھی مل سکتا ہے اور اگر کوئی بدنیتی سے استعمال کرے تو وہ اپنے دلبر کو کھو بھی سکتا ہے ۔ وہ دلبر کھونے کے ضمن میں فیس بک کے استعمال پر مصر میں ہونے والی پانچ طلاقوں کا حوالہ بھی دیتا ہے ۔ مبشر الماس ایک صحافی ہے اور صحافی کے مشاہدے عامتہ الناس سے مختلف ہی ہو سکتے ہیں ۔ جسے میں” ای میل “کہتا ہوں اسے وہ” فی میل“ کہتا ہے جسے میں آزادی کہتا ہوں اسے وہ پابندی کہتا ہے ۔ میں جسے محبت گردانتا ہوں وہ اسے ضرورت قرار دیتا ہے ۔ جسے میں عقیدت تسلیم کرتا ہوں وہ اسے نفس پرستی کا نام دیتا ہے جسے مَیں انکار کہتا ہوں وہ کہتا ہے یہی تو اقرار ہے جسے میں جان سمجھتا ہوں وہ اسے جان لیوا خیال کرتا ہے ۔
وہ کہتا ہے کہ شریک زندگی کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کو اگر شریک زندگی مل بھی جائے تو وہ زندگی کے حصول میں ناکام ہی رہتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ شریک زندگی سے زیادہ زندگی کی طلب کرنی چاہئے ۔ وہ فیس بک پر قہقہے لگانے والی اور زےست کی کتاب کے ورق ورق پر رونے والی عورتوں کو جھوٹا قرار دیتا ہے ۔ اس کے بقول فیس بک پر ہنسنے والی عورت کے قہقہے اور آنسو، سحرِ سامری سے زیادہ پُر تاثیر ہوتے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ وہ بہادر مرد جو سیل حوادث سے منہ نہیں موڑتے وہ کبھی عورت کے آنسوﺅں اور کبھی عورت کے قہقہوں کے بہاﺅ میں تنکوں کی طرح بہتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ فیس بک پر سکون حاصل کرنے والی عورت کے سکون میں طوفان برپا رہتے ہیں ۔ اس کی خاموشیوں میں ہنگامے ہوتے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ فیس بک پر ہنسنے والی عورت کے قہقہے درد کو لادوا کر دیتے ہیں ۔ اس کے قہقہوں کے منتر کا کوئی جوڑ نہیں اور اس کے آنسوﺅں کے جادو کا کوئی توڑ نہیں ۔ میں نے پوچھا فیس بک کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ فیس بک وہ دیوار ہے جو سنتی ہے یہ وہ تصویر ہے جو دیکھتی ہے اوراس پر ہر کوئی اپنے اپنے ضمےر اور ظرف کے مطابق اپنی تصویر نام ، پتہ اور چہرہ چسپاں کر سکتا ہے ۔ چاہے وہ چہرہ بے چہرہ ہی کےو ں نہ ہی ہو۔