جس کا کام اسی کو ساجھے

جس کا کام اسی کو ساجھے
 جس کا کام اسی کو ساجھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاک افغان سرحد پر فائرنگ مسلسل جاری ہو، افغان فورسز کی فائرنگ سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے میجر علی جواد شہید ہوجائیں تو حیرانی تو بنتی ہے کہ ہم پاکستانیوں نے اتنا عرصہ تک افغانوں کا ساتھ دے کر کیا کمایا ہے، جس طرح میرے معاشی او راقتصادی طو رپر تمام شہروں میں افغان، اسی طرح میرے بازاروں میں سمگلنگ کا سامان بھرا پڑا ہے، ہم نے ان کی اپنے اوپر نافذ کی گئی محبت میں دہشت گردی کا ایک طویل خوف ناک دور برداشت کیا ہے، ہمارے نوجوانوں کو افیون اور ہیروئن جیسے نشوں کا عادی بنایا گیا ہے، کراچی میں نسلی تعصب بڑھنے میں ایک کردار ہمار ی اس خارجہ پالیسی کا بھی ہے، ہمیں ان سے سوال تو پوچھنا چاہیے ، مورخ کو،آج نہیں تو کل ،اس کا گریبان تو پکڑنا چاہیے جوہمیں مذہب کے نام پر بے وقوف بنا کے خارجہ پالیسی تشکیل دیتا رہا،اقبال کے اشعار کو اپنے ذاتی اقتدار کے لئے استعمال کرتے ہوئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر ایک ہونے کے خواب دکھائے جاتے رہے اور عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ عالم اسلام تو اک طرف رہا ہمیں جنوبی ایشیاء میں تنہا ہونے کے طعنے دئیے جا رہے ہیں اور وہ امریکہ جس کے بارے آج بزرگ ترین سرتاج عزیز فرماتے ہیں وہ ہمیشہ آمروں کا دوست رہا ہے، بلاشبہ قوم کے محبوب ڈکٹیٹر امریکہ کے ہاتھ کی چھڑی بن کے جائزیت حاصل کرتے رہے ہیں،مجھے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بیانات میں وہ نانی نظر آ رہی ہے جس نے خصم کر کے برا کیا تھا اور آج وہ اسے چھوڑ نے جا رہی ہے۔پہلے اسلام اور پھر سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کے امریکہ کے مفادات کی پاسبانی کی گئی ۔اگر مذہب کے نام پر خارجہ پالیسی کامیاب ہوتی تو ہمارا کم از کم افغانستان اور ایران کے ساتھ تنازعہ نہ ہوتا۔مذہب خارجہ پالیسی میں مفادات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تو ہو سکتا ہے مگر پوری خارجہ پالیسی اس کے گرد نہیں گھمائی جا سکتی ،جس ملک نے بھی یہ غلطی کی ،اسے اس سے رجوع کرنا پڑ گیا۔دنیا بھر کے آزاد او رخود مختار ممالک اصولوں اور مفادات پر خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہیں مگر ہماری خارجہ پالیسی ردعملوں سے بنتی ہے، چاہے وہ کسی کے بھی ہوں۔ امریکہ نے ہمیں ایف سولہ نہیں دئیے، عالمی سطح پر بھارت کا ساتھ دیا لہذا اب ہمارا ردعمل مختلف ہو گیا ہے۔میں نہیں جانتا کہ ہمارے بڑوں کو کس نے بتایا ہے کہ امریکہ ہماری پھوپھی کا بیٹا ہے۔ وہ اپنے مفادات کے مطابق دوسروں کے ساتھ ڈیل کرتا ہے مگر ہم تاریخ کے دو اہم ترین موقعوں پر فوراً اس کے مامے کے پتر بن گئے۔


کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں کہ آج ہمارے دوستوں کی فہرست مختصر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ خارجہ پالیسی بنانا سیاستدانوں اور اسے چلانا سفارتکاروں کا کام ہے۔ کامیاب خارجہ پالیسی اور جنگیں ایک دوسرے کے مکمل تضاد میں ہیں، جنگ جنم ہی وہاں لیتی ہے جہاں پہلے سیاستدا ن اور پھرسفارتکارناکام ہوجاتے ہیں او رجب جنگ ختم ہوتی ہے تووہاں ایک بار پھر سفارت کاری شروع ہوتی ہے۔ کیا ہم اپنے سفارتکاروں کو یہ موقع دے سکتے ہیں کہ ہماری جنگ کی قیادت کریں، نہیں نہیں، یہ ممکن ہی نہیں، جنگ تو مرنے او رمار دینے کا نام ہے جبکہ سفارتکاروں بارے تو ضرب المثل بن چکی کہ جب وہ ہاں کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ ممکن ہے، جب وہ کسی بات کو ممکن قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب نہیں ہوتا ہے، جب ایک سفارتکار کسی معاملے میں نہیں کہہ دے تو پھر ناں کہنے والا سفارتکار ہی نہیں ہوتا، جب ہم سفارتکاروں کو جنگ کی قیادت نہیں دے سکتے تو پھر ہم جرنیلوں کو خارجہ پالیسی کی تشکیل کے لئے اتھارٹی کیوں بناتے ہیں اور اگر بناتے ہیں تو پھر ہم ناکامی کے شکوے کیوں کرتے ہیں۔ہم آج تک 80ء کی دہائی میں موجود ہیں جب محترمہ بے نظیر بھٹوکو اقتدار دیا گیا تو صدارت غلام اسحاق خان اور وزارت خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان کی صورت اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پاس رکھ لی تھی۔یہی وہ دور تھا جب ہم نے دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یعنی ریاستی نظام کی اپنی پالیسیوں کے ذریعے نفی کی۔المیہ یہ ہے کہ آج سیاسی حکومت اگر یہ کہتی ہے کہ وہ دلی اور کابل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی کسی کو اسلام آباد میں مداخلت کی اجازت دے سکتی ہے تو اسے اس پالیسی پر عمل کرنے کے لئے ایک مکمل وزیر خارجہ تک مقرر کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔مشرف دور میں خارجہ پالیسی کے ساتھ یہ مذاق کیا گیا کہ بیوٹی پارلر چلانے والی ایک بی بی کو وزیر خارجہ مقرر کر دیا گیا، جہاں ہمیں اصولی موقف دکھانا ہوتا تھا وہاں وہ بی بی اپنے ڈریسز سے میچ کرتے ہوئے ڈیزانئر گاگلز اور ہینڈ بیگ دکھاتی تھی،نواز شریف کو تو یہ بھی اجازت نہیں!


اگر ہمارے ملک پر اسی کے بعد موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں آمر مسلط نہ ہوتے تو یقینی طور پر سیاستدان امریکہ کے ساتھ زیادہ جرات اور ہمت کے ساتھ معاملہ طے کر تے۔ سیاستدان نفعوں اور نقصانوں کے ساتھ کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں اور یہ صلاحیت عمومی طور پر سرکاری ملازمین میں بہت کم ہوتی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی اس وقت تک سب سے بڑی کامیابی چین کے ساتھ پہاڑوں سے اونچی، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی ہے اوراس کے سوا ہماری جھولی میں کچھ قابل ذکر نہیں لیکن کیا چین سے دوستی کا مطلب یہ ہے کہ ہم امریکہ سے دشمنی مول لے لیں۔ کیا مجھے اپنے ہم وطنوں کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مختلف ملکوں کے دوروں اور وہاں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کی تفصیل پیش کرنی چاہئے۔ہمیں خارجہ پالیسی میں بھارت سے بھی زیادہ چیلنجوں کا سامنا ہے، بھارت کے پاس بیچنے کے لئے دنیا کی سب بڑی ( چاہے جھوٹی اور کھوکھلی ہی سہی) جمہوریت موجود ہے، وہاں ہم سے پانچ،سات گنا زیادہ آبادی کی صورت میں دنیا بھر کے ساہوکاروں کے سامنے اپنا مال بیچنے کے لئے ایک منڈی بھی موجود ہے۔ہمیں اس وقت خارجہ پالیسی میں نت نئے تجربات کرنے کی بجائے اسی راستے پر چلنے کی ضرورت ہے جس پر پوری دنیا چل رہی ہے۔ دنیا بھر میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین ، ریاستی تعلقات کی باریکیوں کو ڈسکس کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسی بحثوں کا کوئی چلن نہیں ملتا۔ ہم سانپ نکل جانے کے بعد لکیروں کو پیٹتے ہیں۔ دنیا بھر کے سیانے’ جس کا کام اسی کو ساجھے‘ کے اصول کو مانتے ہیں اور جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ ہماری قربانیاں ہماری غلطیاں ٹھہری ہیں، پاک افغان سرحد پر مسلسل فائرنگ ہو رہی ہے،اس فائرنگ سے ہمارے میجر علی جواد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں، آج ہمارے ساتھ نہ تو طالبان ہیں اور نہ ہی طالبان کے مخالف افغان، تو کیا ایسے میں درخواست کی جا سکتی ہے کہ جو جس کا کام ہے اسی کو کرنے دیا جائے، ہمیں دنیا بھر سے مختلف قسم کے تجربات نہیں کرنے چاہئیں۔

مزید :

کالم -