اسلام اور مذہبی رسومات
دنیا کے تمام مذاہب میں عقائد کے لحاظ سے نافہمیدہ غیر مرئی قوتوں کا لاشعوری خوف ضرور پایا جاتا ہے یہ خوف انسان کو اْن غیر مرئی قوتوں کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے چنانچہ یہودی خدا کے حضور اپنے بچے قربان کر دیا کرتے بالکل یہی صورتحال قدیم سمیریوں اور فنیقیویوں میں بھی موجود تھی جبکہ ہندی تہذیب میں بھی بلی اور بھینٹ کی رسومات آج بھی موجود ہیں یہودیت میں جب مذہبی پیشوائیت نے عوام پر مذہبی رسومات کی آڑ لے کر ظلم و وحشت کی انتہاکر دی تو اس کی اصلاح کیلئے حضرت مسیح علیہ السلام کھڑے ہوئے آپ نے یہودی احبار و رہبان کی مذہبی دہشت سے عوام کو نجات دلائی آپ نے یہودی مذہبی عقائد کا قلع قمع کرکے عوام کیلئے اپنا آپ بطورِ ایک مصلح کے پیش کیا اور ایثار کے آخری درجے پر پہنچ کر اپنی معاشرتی ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے اہلِ مسیح جب حضرت مسیح کے آفاقی انسان پرستی کے پیام کو بھلا کر یہودیوں کی طرح خود احبار و رہبان بن بیٹھے تو حضرت ابراہیم ؑ کے دوسرے فرزند حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ ارفع ہوئی آپ نے بھی اپنے پیشرو نفوسِ مقدسہ کی طرح معاشرتی اصلاح کی کوشش کی یاد رکھئے اسلام اپنی حقیقی شکل میں کوئی مذہب نہیں ہے اسلام اگر کوئی مذہب ہوتا تو اہلِ قریش جو پہلے ہی سے مذہب کے رسیا تھے کبھی آپ کی دعوتِ حق کو نہ ٹھکراتے اسلام تو ایک معاشرتی فلاحی تحریک تھی گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے دنیا میں پہلی بار ویلفیئر سٹیٹ کا تصور پیش کیا چنانچہ اسی ویلفیئر سٹیٹ کی خاطر محمد کریم ؐکو مکہ سے ہجرت کرکے ایک نئی ریاست مدینہ قائم کرنا پڑی کہ مکہ میں رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں تھا عرب معاشرے میں معاشی اور طبقاتی ناہمواریاں دور کرنے کی خاطر آپ نے 72 جنگیں لڑیں تاکہ معاشرے میں ہر قسم کی طبقاتی تفریق کا خاتمہ کرکے مستقل امن و سلامتی قائم کر لی جائے چنانچہ قرآن میں اصطلاح مومن بھی اْنہی غیور نفوس کیلئے استعمال کی گئی جو آپ کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے رہے آپ طویل صبر آزما اور اذیت ناک جدوجہد کے بعد اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور رہتی دنیا تک انسانیت کو قرآن کی شکل میں ابدی انتظامی اصول مرحمت فرما گئے آئیے اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ تحریک اسلام مذہبی رسومات کی شکل میں کب ڈھالی گئی ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی مذہبی رسم خالص انفرادی نوعیت کی ہوتی ہے اس میں اجتماعیت کا کوئی پہلو نہیں ہوتا جبکہ دین یا اصلاحی تحریک ایک اجتماعی نظریہ پر مبنی ہوتی ہے جیسے قرآن میں ہے "کان الناس اُمۃ واحدہ" ذرا غور کیجئے احباب لفظ امت کے آگے الناس ہے اور الناس سے مراد تمام انسانیت ہے اس میں کوئی تخصیص موجود نہیں اموی جنہوں نے خلافت کا خاتمہ کرکے اسلام کو انتقالِ اقتدار کا وسیلہ بنایا انہیں اور عباسیوں کو خلفاء کہنا ہی خلافت کی روح کے منافی ہے خلافت کا کامل حق آپ کے رفقائے عظام حضرات ابو بکرؓ و عمرؓ نے ادا کیا۔ امویوں کو چونکہ اقتدار سے مطلب تھا اس لئے اْنہوں نے تحت پر بیٹھنا ہی مناسب سمجھا چونکہ یہ لوگ زبردستی اقتدار تک پہنچے تھے چنانچہ ان میں ایک آدھ سلاطین کو چھوڑ کر باقی تمام سلاطین تقوی اور عدل سے کوسوں دور تھے عوام چونکہ عدلِ فاروقی کے رسیا ہو چکے تھے اس لئے ان کیلئے امویوں کا جور و استبداد ایک اذیت ناک تبدیلی کے سوا کچھ نہیں تھا لیکن یہ ایک طبعی اصول ہے کہ انسان ظلم کے آگے بے بس ہو ہی جاتا ہے اس لئے وہ حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے اپنے اندر لچک پیدا کرکے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے امویوں نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی آپ اگر تاریخ کے ادنی سے بھی طالب علم ہیں تو آپ یقیناً جانتے ہونگے کہ امویوں کے دور میں وحشت کس انتہا کو پہنچ گئی تھی چنانچہ خانہ کعبہ پر سنگ باری کرکے غلاف کعبہ جلانے والے، مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہانے والے اور اولاد رسول ؐ کو بہیمانہ طریق سے شہید کرنے والے اموی ہی تھے پس اموی دور میں اسلام کی محمدی شکل بدل دی گئی
اسکے بعد امویوں پر عباسی چڑھ دوڑے تو انہوں نے سرے سے اسلام کو مدینہ سے منتقل کرکے ایران پہنچا دیا چونکہ وہ خود ایران میں مقیم تھے اس لئے انہوں نے نئے اسلام کی بنیاد بھی ایران میں ہی رکھی ذرا اندازہ لگائیے احباب کہ37کے 37 عباسی سلاطین ایرانی لونڈیوں کی اولاد تھے چنانچہ ایسے میں محمدی اسلام کے احیاء کی توقع رکھنا کس قدر عبث معلوم ہوتا ہے پس وہی ہوا جو ہونا تھا عباسی سلاطین کو اپنے پیشرو امویوں کی طرح محض اقتدار سے مطلب تھا سو انہوں نے بھی اقتدار کو تھام کے رکھا یہی وہ دور تھا جب ایرانی علماء کی مدد سے اسلام اور بالخصوص قرآن کے حقیقی معانی و مفاہیم بدلے گئے چنانچہ اسلام کے مرکزی قانون الصلوٰۃ کو فارسی اصطلاح نماز میں بدل دیا گیا معاشرے کی مستقل پرورش کو ڈھائی فیصد کی بھیک میں تبدیل کر دیا گیا عسکری تربیت الصیام کو فارسی کی اصطلاح روزہ میں تبدیل کر دیا گیا اور دنیا میں تحریک اسلام کی منطقی حجت قائم کرنے کیلئے فریضہِ حج کو ایک روحانی سیاحت میں بدل دیا گیا۔
ذرا غور کیجئے احباب قرآن کی آفاقی اصولی اصطلاحات کے معانی اور مطالب مرتب کرنے والے بھی ایک عباسی معتمد ایرانی الاصل راغب اصفہانی تھے جن کی معروف قرآنی لغت مفردات القرآن آج بھی دنیا میں مصفہ الاستناد سمجھی جاتی ہے چنانچہ معروف اور مستند سیرت نگار ابن اسحاق، ابن ہشام،مستند مورخ ابن جریر طبری، مستند مفسرین قرآن فخر الدین رازی، محمود زمخشری، احادیث کے مستند مرتبین بخاری، مسلم،ترمذی، ابوداؤ، احمد نسائی اور ابن ماجہ سب ایرانی الاصل تھے عباسی سلاطین کی نظریاتی وحشت بعض اوقات عروج پر پہنچ جاتی چنانچہ وہ ریاست میں زبردستی اپنے نظریات نافذ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے پس مامون الرشید کی نظریاتی وحشت اس ضمن میں ہمیشہ ہمیں اسلام کا ایرانی تسلط یاد دلاتی رہے گی عباسیوں نے اسلام کو مذہب بنا کر عوام کو مفتیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر یہودیت اور مسیحیت کی طرح اسلام میں بھی احبار و رہبان کا تسلط قائم کر دیا اور خود تخت پر خدا کا سایہ بن کر بیٹھ گئے پس حق ظلم سے باطل کر دیا گیا اور باطل کو جبراً دوام دے دیا گیا مگر باطل ہمیشہ سے حق کے مقابلے میں پسپا ہوا امویوں اور عباسیوں نے اسلام کی آفاقی تحریک کو چند مذہبی رسومات میں بدل کر آج باطل کو یہ موقع دے دیا کہ وہ خدا کے قانون کے مقابلے میں اپنے قوانین وضع کرکے انسانیت کو اپنا فکری اور معاشی غلام بنا کے رکھے مگر وہ دن دور نہیں جب اصل اسلام کا بول بالا ہو گا اور انشاء اللہ یہیں سے ہو گا اسی خطے سے جس کو سرسید احمد خان نے قرآنی فکر سے سیراب کیا جس کو قائد اعظم محمد علی جناح ؒ جیسے مردِ قلندر نے وجود بخشا جس کی تمنا ڈاکٹر محمد اقبالؒ جیسے درویش نے کی۔