جب مکہ فتح ہوا۔۔۔
ڈاکٹر خالد علوی
آنحضرتﷺ کا سب سے مقدم فریضہ خانہ کعبہ کو بتوں کی آلائش سے پاک کرنا اوراس میں توحید کا عَلم بلند کرنا تھا، لیکن قریش کی دشمنی اور عرب کی عام مخالفت کے باعث اب تک اس کا موقع نہ آیا تھا۔ صلح حدیبیہ کے باعث چند روز امن و امان ہوگیا، لیکن معاہدہ حدیبیہ بھی قریش سے نبھ نہ سکا۔
معاہدہ حدیبیہ کی رُو سے قبائل عرب میں سے خزاعہ آنحضرتﷺ کے حلیف ہوگئے تھے اور بنو بکر قریش کے اور از روئے معاہدہ ان میں سے کسی کو دوسرے پر ہاتھ اُٹھانے کا حق نہ تھا، لیکن بنو بکر نے حرم میں بنو خزاعہ کو قتل کیا اور قریش نے ان کی مدد کی۔ خزاعہ کے چالیس افراد کا وفد حضورﷺ کو صورت حال سے آگاہ کرنے اور مدد مانگنے کے لئے مدینہ گیا۔ آنحضرتﷺ کو واقعات سن کر سخت رنج ہوا اور آپؐ نے قریش کے پاس قاصد بھیجا اور تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک منظور کی جائے۔
(1) مقتولوں کا خون بہا دیا جائے۔
(2) قریش بنو بکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں۔
(3)اعلان کر دیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔
ان شرائط کے جواب میں قرطہ بن عمر نے قریش کی جانب سے کہا کہ ’’صرف تیسری شرط منظور ہے‘‘ لیکن قاصد کے چلے جانے کے بعد قریش کو ندامت ہوئی اور ابوسفیان کو تجدید معاہدہ کے لئے مدینہ دوڑایا، لیکن آپؐ نے معاہدے کی تجدید نہ فرمائی۔ ابوسفیان نے حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو درمیان میں ڈالنا چاہا، مگر اُنہوں نے انکار کر دیا۔ آخر حضرت علیؓ کے مشورے سے حرم میں تجدید معاہدہ کا اعلان کر کے لوٹ گیا۔
ابوسفیان کے واپس جانے کے بعد آنحضرتﷺ نے مکہ کی تیاریاں شروع کیں، معاہد قبائل کو ساتھ لیا اور رمضان8 ھ میں دس ہزار جانثاروں کے ساتھ مکہ روانہ ہوئے۔ قریب پہنچ کر مکہ سے ایک منزل اوپر ’’مر الظھران‘‘ میں منزل کی اور مسلمانوں نے آنحضرتﷺ کے حکم سے الگ الگ آگ روشن کی۔ اُنہوں نے تحقیق کے لئے ابوسفیان، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء کو بھیجا۔ یہ لوگ پتہ چلاتے ہوئے مرالظھران تک جا پہنچے۔ ابوسفیان پر حضرت عباسؓ کی نظر پڑ گئی۔ انہوں نے حق دوستی ادا کرتے ہوئے اسے ساتھ لیا اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچے، لیکن راستہ میں حضرت عمرؓ کی نظر پڑ گئی اور وہ اسے دیکھ کر بے قابو ہوگئے۔ آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہﷺ کفر کے استیصال کا وقت آگیا ہے، لیکن حضرت عباسؓ نے جان بخشی کرا دی۔
ابوسفیان کے پچھلے تمام اعمال، اسلام سے دشمنی اور قبائل عرب کا اشتعال اس امر کا تقاضا کر رہے تھے کہ ان کا خون مباح کر دیا جائے، لیکن رحمۃ للعالمینؐ نے اس کے تمام گناہوں پر قلم عفو پھیر دیا۔
لشکر اسلام جب مکہ کی طرف بڑھا تو آنحضرتﷺ نے حضرت عباسؓ سے ارشاد فرمایا: کہ ابوسفیانؓ کو افواج الٰہی کا نظارہ کرانے کے لئے ایک بلند مقام پر کھڑا کر دو۔ قبائل عرب کا سیلاب مکہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہر قبیلہ کا دستہ الگ الگ تھا۔ تمام قبائل کے پرچم یکے بعد دیگرے گزرتے تھے۔ ابوسفیان ان کی ہیبت سے سہما جاتا تھا۔ سب سے آخر میں کوکبہ نبوی نمودار ہوا اور ٹھیک آٹھ برس کے بعد آنحضرتﷺ مسلمانوں کے ساتھ اس سرزمین میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے، جس سے انتہائی بے کسی کی حالت میں محروم کئے گئے تھے۔ قریش دس ہزار فوج کو دیکھ کر سراسیمہ ہوگئے، لیکن آنحضرتﷺ نے اعلان کر دیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا، یا دروازہ بند کر لے گا، یا خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے گا، یا ابوسفیانؓ کے گھر چلا جائے گا، وہ مامون ہے۔ قریش کے ایک گروہ نے مقابلہ کا قصد کیا اور خالدؓ کی فوج پر تیر برسا کر تین مسلمان شہید کر دئیے۔ خالد بن ولیدؓ نے مجبوراً جوابی کارروائی کی یہ لوگ 13 لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔
اس کے بعدآنحضرتﷺ حرمِ کعبہ میں تشریف لے گئے جس میں مشرکین نے 360 بت نصب کر رکھے تھے۔ آنحضرتﷺ نے انہیں لکڑی سے گرانا شروع کر دیا اور ساتھ ہی یہ آیات تلاوت فرماتے:
ترجمہ:’’ حق آگیا باطل بھاگ گیا، باطل بھاگنے والا ہی تھا‘‘۔
خانہ کعبہ کے اندر جس قدر بت تھے سب نکال دئیے گئے۔ حضرت عمرؓ نے اندر جا کر جس قدر تصویریں تھیں وہ مٹا دیں۔ شرک کی آلائشوں سے تطہیر کے بعد آپؐ حضرت بلالؓ اور طلحہؓ کی معیت میں اندر داخل ہوئے اور نماز ادا فرمائی۔ پھر قریش مکہ کے سامنے خطبہء ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کیا۔ اپنے بندے کی امداد کی اور سارے گروہوں کو اکیلے ہی شکست دی۔ خبردار! ہر قسم کا مطالبہ خواہ وہ خون کا مطالبہ ہو یا مال کا وہ میرے پاؤں کے نیچے ہے(یعنی منسوخ ہے) البتہ بیت اللہ کی دربانی اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کے مناصب جوں کے توں ہیں۔ اے گروہ قریش! آج کے دن اللہ نے تم سے جاہلیت کا غرور چھین لیا اورآباو اجداد کے بل پر بڑائی غلط قرار دی۔ سارے انسان آدمؑ کی اولاد ہیں اورآدمؑ مٹی سے بنے‘‘۔
پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ:’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں گروہ اور قبائل بنایا تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو۔ تم میں سے باعزت وہ ہے جو اللہ کے ہاں تم میں سے متقی ہے۔ بے شک اللہ علیم اور خبیر ہے‘‘۔
ترجمہ:’’تحقیق اللہ اوراس کے رسولﷺ نے شراب کی بیع حرام قرار دے دی‘‘۔
اس کے بعد آپؐ نے اہل مکہ سے سوال کیا کہ اے اہل مکہ! تمہارا کیا خیال ہے مَیں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟ مکہ کے سردار اگرچہ اپنی بداعمالیوں سے آگاہ تھے، لیکن رحمتہ للعالمینﷺ کے مزاج شناس بھی تھے، بول اُٹھے : ’’آپؐ شریف بھائی اور شریف برادر زادہ ہیں‘‘۔
آپؐ نے فرمایا:’’آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘۔
اس کے بعد آپؐ نے چند مجرموں کے نام گنوائے کہ ان کے علاوہ باقی سب کو امان ہے، یہ وہ لوگ تھے جو کسی کو قتل کے سلسلہ میں مطلوب تھے یا اسلام قبول کر کے مرتد ہوگئے تھے۔ ان میں سے بھی کئی ایک کو بعد میں معاف کر دیا گیا۔