سندھ اسمبلی ، بجٹ پر دوسرے روز بھی بحث جاری رہی

سندھ اسمبلی ، بجٹ پر دوسرے روز بھی بحث جاری رہی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) سندھ اسمبلی میں بدھ کو مالی سال 2016-17کے بجٹ پر دوسرے روز بھی بحث جاری رہی ۔پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے شہریار خان مہر نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ دستاویزات میں جو بجٹ ہے ، وہ بہتر بجٹ ہے لیکن پہلے ترقیاتی اسکیموں پر عمل نہیں کیا گیا ۔ ان اسکیموں کو آئندہ بجٹ میں شامل کرکے حکومت کریڈٹ لے رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تعلیم ، صحت ، امن وامان اور بلدیاتی اداروں کے لیے خاطر خواہ رقم مختص کی ہے ، جو اچھی بات ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور خراب حکمرانی ہے ۔ فنڈز خرچ ہی نہیں کیے جا سکتے ۔ جو رقم خرچ ہوتی ہے ، وہ نظر نہیں آتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کی حالت سندھ میں بہت خراب ہے ۔ سینئر وزیر تعلیم نے وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے ۔ سندھ میں ان سے اپنا سیکرٹری نہیں سنبھالا جاتا اور وہ وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف شہروں کے لیے ترقیاتی پیکیج دیئے جاتے ہیں ۔ ہر سال لاڑکانہ کے لیے اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں ۔ آئندہ سال بھی 8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں لیکن اس وقت بھی موئنجودڑو کی گلیاں لاڑکانہ کی گلیوں سے زیادہ صاف اور اچھی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں سندھ کو نظرانداز کیا گیا کیونکہ سندھ حکومت نے اپنا کیس بہتر طور پر پیش نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ نیب پر تنقید کرنے کی بجائے حکومت سندھ کو اپنی کارکردگی بہتر بنانی چاہئے ۔ ایم کیو ایم کے رکن سید خالد احمد نے کہا کہ سندھ حکومت این ایف سی ایوارڈ نہ ملنے پر تو احتجاج کرتی ہے لیکن اپنے صوبے میں پی ایف سی ( پراونشل فنانس کمیشن ) ایوارڈ نہیں دیا ۔ اضلاع کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران کراچی کی متعدد ترقیاتی اسکیموں کے لیے مختص فنڈز نکال کر دیگر شہروں کی اسکیموں میں ڈالے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ کے ۔ 4 ‘‘ کے منصوبے اور تھرکول کی باتیں بہت ہوتی ہیں لیکن یہ منصوبے شروع ہی نہیں ہو رہے ۔ پہلے دکاندار یہ لکھتے تھے کہ ’’ مسئلہ کشمیر کے حل تک ادھار بند ہے ۔ ‘‘ اب انہیں یہ لکھنا چاہئے کہ ’’ کے ۔ 4 اور تھرکول کے منصوبوں کے مکمل ہونے تک ادھار بند ہے ۔ ‘‘ پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر مہیش ملانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے تھر کی ترقیاتی پر خصوصی توجہ دی ۔ اس کی وجہ سے تھر میں نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتوں کی شرح پاکستان کے دیگر علاقوں سے بھی کم ہے ۔ پہلے اموات کی شرح 85 فیصد تھی ۔ اب 14 فیصد ہے ۔ گذشتہ سال 833 نوزائیدہ بچے اسپتالوں میں داخل ہوئے ۔ ان میں سے صرف 120 بچے ہلاک ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح 1000 میں سے 70 ہے جبکہ سندھ میں یہ شرح 1000 میں سے 60 ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا خود جا کر دیکھے کہ پیپلز پارٹی نے تھر میں کتنے کام کیے ہیں ۔ جگہ جگہ آر او پلانٹس کے ذریعہ پینے کا میٹھا پانی فراہم کیا جا رہا ہے ۔ 750 منظور شدہ آر او پلانٹس میں سے 507 پلانٹس نصب ہو چکے ہیں ، جن میں 382 پلانٹس کام کر رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سڑکوں کا بھی جال بچھا دیا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رکن مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ سندھ کے بجٹ میں موثر منصوبہ بندی اور وژن کی کمی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اکنامک سروے کے مطابق سندھ کی شرح خواندگی کم ہو کر 56 فیصد ہو گئی ہے جبکہ تعلیم کا معیار ختم ہو گیا ہے ۔ سندھ میں 23 انگلش میڈیم اسکولز اور 100 کمپری ہینسو اسکولز بنانے کا اعلان گذشتہ سالوں سے ہو رہے ہیں ۔ لہذا انہیں نئی اسکیمیں نہ کہا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ نیب سے خوف کی بات سمجھ سے بالا تر ہے ۔ 2015 ء میں جو اسکیمیں شروع ہوئی ہیں ، ان پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا لیکن اخراجات 2018-19 تک دکھائے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ میں بہت بڑا فرق ہے ۔ ترقی کے نام پر 225 ارب روپے مختص کرنے سے کیا ہو گا ۔ رقم خرچ بھی تو ہونی چاہئے ۔ رواں مالی سال میں ترقیاتی فنڈز کے استعمال میں غیر سنجیدگی دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آئندہ سال بھی ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کے بعد سندھ کے عوام نے سب سے زیادہ احتجاج نئے شہر ذوالفقار آباد کے خلاف کیا ہے ۔ اس منصوبے کے لیے 13.995 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ یہ رقم موجودہ شہروں پر خرچ کرکے ان کی حالت بدلی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں 36 لاکھ افراد بے روزگار ہیں ۔ کم از کم 15 لاکھ افراد کو روزگار دینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں روزگار دینے کے لیے صنعتیں لگانے پر 8 سال میں کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ 50 ہزار نوکریاں دینے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یہ اچھی بات ہے لیکن اس سے نوکریاں بیچنے کی اسٹاک ایکسچینج اوپر چڑھ جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ منچھر جھیل مرچکی ہے ۔ اس کی ثقافت مرچکی ہے ۔ اس جھیل کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ، بلاول بھٹو زرداری ، آصفہ اور بختاور بھٹو زرداری کے ناموں پر منصوبے شروع کیے گئے ہیں لیکن آصف علی زرداری کے نام پر کوئی منصوبہ کیوں نہیں ہے ۔