وزیراعظم کی پیشی۔۔۔قانون کی فتح
وزیراعظم نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو گئے۔ کوئی اسے اگر مُلک کی نئی سیاسی تاریخ کہتا ہے تو غلط نہیں کہتا۔ سپریم کورٹ میں وزرائے اعظم ضرور پیش ہوئے ہیں، مگر ایک انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے ایک موجودہ وزیراعظم کی پیشی پہلا واقعہ ہے۔ پیشی سے پہلے بہت سے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے،سب سے بڑا خدشہ تو یہی تھا کہ شاید وزیراعظم اپنے آئینی استثنا کا حق استعمال کریں۔ یہ حق اِس لئے بھی استعمال ہو سکتا تھا کہ حاضر وزیراعظم کے کسی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی کوئی نظیر موجود نہیں، لیکن ایسا کوئی حق استعمال نہیں کیا گیا۔ شاید یہ حالات کے دباؤ کا اثر تھا۔ پھر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے دونوں صاحبزادے جے آئی ٹی میں پیش ہو چکے تھے، اگر وہ پیش نہ ہوتے تو یہ فیصلہ تفتیش پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار پاتا۔ اگر جے آئی ٹی کے حوالے سے گرد نہ اڑائی جاتی اور اسے معمول کے مطابق کام کرنے دیا جاتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ جب وزیراعظم نواز شریف نے یہ طے ہی کر لیا تھا کہ انہوں نے قانون کا سامنا کرنا ہے تو پھر اُن کے حامیوں کو ایسا ماحول پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی، جس میں یہ لگا کہ حکومت جے آئی ٹی پر دباؤ ڈال رہی ہے یا پھر وزیراعظم اور اُن کا خاندان تفتیش کا سامنا کرنے سے گریزاں ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان کے حالات تو اب بدل رہے ہیں، ہم پیچھے کی طرف نہیں آگے کی طرف جا رہے ہیںیہی نہیں کہ ایک معاملے میں مُلک کے حاضر سروس وزیراعظم کو قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا، بلکہ یہ بھی کہ عدالتِ عظمیٰ نے اپنی آئینی برتری و کردار کو منوایا۔ وہ تاثر جو ماضی کے واقعات سے پیدا ہوا تھا کہ پاکستان میں عدلیہ نظریۂ ضرورت پر چلتی ہے اور آمروں کو بھی کلین چٹ دے دیتی ہے یا مُلک کے بااثر طبقوں کے سامنے سر نہیں اٹھاتی اور اُن کی حمایت میں فیصلے کرتی ہے،عدلیہ کے حوالے سے یہ تاثر ایک بدنما داغ تھا۔ بات یہ نہیں کہ آج عدلیہ صرف شریف خاندان کا احتساب کر رہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ طاقتوروں کے سامنے قانون کی بالادستی کو منوا رہی ہے۔ آج شریف خاندان ہے تو کل کسی اور کی بھی باری آ سکتی ہے، کوئی کردار موجود تو ہو،اگر مشین ہی خراب ہو چکی ہو تو اُس سے کسی کام کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے۔ آج عدلیہ کا یہ بدلا ہوا کردار ہے تو قوم اُس کے پیچھے کھڑی ہے عوام کو اُس کی غیر جانبداری پر ذرا بھی شک ہو تو شاید کوئی بھی یا اثر اُس کے اختیار کو چیلنج کر دے۔ آج عدلیہ ایک مضبوط آئینی ادارے کے طور پر اپنا وجود منوائے ہوئے ہے اور مُلک کے وزیراعظم نے اُس کا حکم مان کر اس حقیقت کو مزید واضح کر دیا ہے۔ یہ حالات کے ادراک کی صلاحیت ہی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم محمد نواز شریف میں پیدا ہوئی ہے۔90ء کی دہائی میں اس ادراک کی کمی تھی، جبھی تو سپریم کورٹ پر حملے کا سوچا گیا۔ آج سپریم کورٹ کی طاقت کو مان کر وزیراعظم نواز شریف نے جو سر تسلیم خم کیا ہے وہ جلد یا بدیر انہیں سیاسی و اخلاقی فائدے سے ہمکنار کرے گا۔
جب پاناما کیس کا آغاز ہوا تھا تو یہ مطالبہ اُس وقت بھی کیا گیا تھا کہ وزیراعظم شفاف تحقیقات کے لئے اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں، بعدازاں بھی اس مطالبے کو دہرایا جاتا رہا۔ جب جے آئی ٹی بنی تو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے پھر یہ مطالبہ کیا کہ وزیراعظم مستعفی ہوں، کیونکہ اُن کے نیچے کام کرنے والے محکمے اُن کے خلاف تفتیش نہیں کر سکتے۔آج جب وزیراعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے ہیں تو یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جب قانون اپنی طاقت کو منوانے پر آئے تو اس قسم کی باتیں ثانوی ہو جاتی ہیں کہ کون مسندِ اقتدار پر بیٹھا ہے اور کون اقتدار کو غلط استعمال کر سکتا ہے۔ میری اب بھی رائے یہی ہے کہ اگر حکومت کے بعض ترجمان اور وزراء جے آئی ٹی کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ نہ بناتے اور اپوزیشن بھی خوامخواہ جے آئی ٹی پر دباؤ کا پروپیگنڈہ نہ کرتی تو صورتِ حال اس قدر کشیدہ نہ ہوتی۔ جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ کی وجہ سے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں وہ انہیں استعمال بھی کر رہی ہے، شریف خاندان کو اصل توجہ الزامات کے دفاع پر مرکوز رکھنی چاہئے۔ ایسا ممکن نہیں کہ جے آئی ٹی کسی کو خوامخواہ ملزم بنا دے یا اُسے بے گناہ قرار دے دے۔ اس مقدمے کی بہت سی تفصیلات تو پہلے ہی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ریکارڈ پر آ چکی ہیں،اِس لئے سماعت کے موقع پر ایک پرانتشار صورتِ حال کو پیدا کرنا شاید کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔
کسی بھی فریق پر پہلے سے یہ ذہن نہیں بنا لینا چاہئے کہ فیصلہ کیا ہو گا، اپوزیشن والے جب دو ٹوک الفاظ میں یہ کہتے ہیں کہ شریف خاندان کے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہیں،کیونکہ قطری خط مسترد ہو چکا اور قطری شہزادے نے آنے سے انکار کر دیا ہے تو اسے صرف پوائنٹ سکورنگ قرار دیا جا سکتا ہے،ممکن ہے شریف خاندان کے پاس منی ٹریل ثابت کرنے کے اور بھی ثبوت موجود ہوں۔پھر جس طرح وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بیٹوں نے تفتیش کا سامنا کیا ہے اور باقی لوگ بھی پیش ہو رہے ہیں،کوئی بعید نہیں کہ ایسے شواہد سامنے آ جائیں جو شریف خاندان کے حق میں جاتے ہوں،اِس لئے قبل ازوقت ٹاک شوز میں بیٹھ کر عدالتیں لگانا مناسب نہیں ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم کے حمایتی وزراء اور مشیران کو بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اُن کی طرف سے جے آئی ٹی کو قصائی یا جیمز بانڈ کہنا بھلا تفتیش میں وزیراعظم یا اُن کے خاندان کو کیا فوائدے دے سکتا ہے۔ اسی طرح نہال ہاشمی جیسے کردار دھمکی آمیز زبان استعمال کر کے کیا حاصل کر سکتے ہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ کسی ایک شخص کی بڑھک بازی سے عدلیہ یا جے آئی ٹی میں بیٹھے ہوئے ریاست کے نمائندے خوفزدہ ہو جائیں اور حقائق کے برعکس فیصلے کریں یہ سب احمقانہ باتیں ہیں اور لگتا ہے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفا داری کا نتیجہ ہیں۔
پاناما کیس کا حتمی فیصلہ جو بھی آئے، جے آئی ٹی اپنی تفتیش جو بھی مرتب کرے، ایک اچھی روایت بڑے احسن طریقے سے قائم ہو گئی ہے۔ وزیراعظم کی جے آئی ٹی کے سامنے حاضری سے تمام خدشات اور افواہیں دم توڑ گئی ہیں پوری دُنیا کو یہ مثبت پیغام آ گیا ہے کہ پاکستان میں رول آف لاء کی حکمرانی ہے، مُلک کا وزیراعظم بھی قانون سے بالا تر نہیں اس سے کسی کی توہین ہوئی ہے اور نہ کسی کو فتح حاصل ہوئی ہے۔ یہ قانون کی بالادستی کا واقعہ ہے جو ہمارے مستقبل کے سیاسی کلچر اور نظام انصاف پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔