عالمِ اسلام پر نفاق کے گہرے بادل (1)
بجا طور پر تمام مسلمان اِس وقت سب سے زیادہ تشویش اپنے مقامات مقدسہ کے بارے میں محسوس کرتے ہیں، سعودی عرب میں کم سے کم ظاہری طور پر جو دینی رکھ رکھاؤ تھا، اب وہ بھی بہت تیز رفتاری سے ختم ہو رہا ہے،مخلوط تعلیم کی اجازت کا باب تو سابقہ حکومت کے دور میں کھل گیا تھا، اب مردوں اور عورتوں کے مخلوط تفریحی اجتماعات کی اجازت بھی دے دی گئی ہے، مملکت کے دارالحکومت میں بڑی دھوم دھام سے اسلامی اور سعودی روایات کے برخلاف سینما ہال کا افتتاح کیا گیا ہے، اور حکومت کی طرف سے اعلان ہو چکا ہے کہ پوری مملکت میں سینما ہال کھولے جائیں گے، محمد بن سلمان نے خود بیان دیا ہے کہ وہابیت کو کسی مذہبی جذبے کے تحت قبول نہیں کیا گیا تھا، امریکہ کے اشارے پر قبول کیا گیا تھا، اور وہابیت نے سعودی عرب کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
مملکت کے گزشتہ بادشاہوں نے بڑی غلطیاں کی ہیں، اور سعودی عرب کی تاریخ ایسی تاریخ نہیں ہے،جس پر فخرکیا جا سکے، بلکہ میرے لئے شرمندگی کا باعث ہے،انہوں نے ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کے صحافی تھامسن فریڈمین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اصل اسلام کی ترویج چاہتے ہیں اور کہا کہ محمدؐ کے زمانے میں موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں، مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کا بھی معمول تھا اور جزیرۃ العرب میں یہود و نصاریٰ کا احترام تھا، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ولی عہد کس قسم کے اسلام کی ترویج چاہتے ہیں؟
مملکت میں متعدد تفریحی شہر ریاض کے مضافات اور شامی سرحد کے قریب بنائے جا رہے ہیں، جو ہر طرح کی اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوں گے،ایک خبر یہ بھی آ چکی ہے کہ فرانس کے دورے پر26 اپریل2018ء کو انہوں نے پوپ فرانسس کے ساتھ ایک ایسے معاہدے پر دستخط کئے ہیں، جس کے تحت پورے سعودی عرب میں چرچ کھولنے کی بات طے پائی ہے، یہاں تک کہ اس معاہدے میں حرمین شریفین کا بھی استثناء نہیں ہے۔
سعودی عرب کی طرف سے تو غالباً اب تک اس کی تردید نہیں کی گئی، مگر ویٹی کن سیٹی کی طرف سے(7اپریل2018ء) کو ایک وضاحت آئی ہے کہ سعودی ولی عہد سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ۔۔۔ خدا کرے یہ وضاحت سچائی پر مبنی ہو، غرض کہ مصر اور بیشتر عرب ممالک تو پہلے ہی سے مغرب کی آغوشِ شفقت میں بیٹھ چکے ہیں، سعودی عرب نے بھی پہلے ہی سے اپنا پورا دفاعی نظام امریکہ کے حوالے کر رکھا ہے اور پٹرول کے کنوؤں پر کویت، عراق جنگ کے موقع پر ہی امریکہ نے اپنا پنجہ گاڑ دیا تھا، اب فکری اور تہذیبی اعتبار سے بھی مملکت اپنے آپ کو مغرب کے حوالے کر رہی ہے۔
اِس پوری صورتِ حال میں سب سے نازک مسئلہ بیت المقدس کا ہے، مسجدِ اقصیٰ یہودیوں کے حوالے کر دی جائے، اس کے لئے حالیہ برسوں میں مغربی طاقتوں کی شہہ پر بہت تیز رفتار قدم اٹھائے گئے ہیں، سب سے پہلے ایک ظالم و جابر آمر نے ۔۔۔ کہ اگر وہ اپنے مُلک میں سچائی کے ساتھ انتخاب کرائے تو10فیصد ووٹ بھی حاصل نہ کر پائے۔۔۔ مصر میں عوام کی منتخب حکومت جو ’’الاخوان المسلمون‘‘ کے زیر انتظام تھی، کو طاقت اور پیسے کے بل پر معزول کیا، تاکہ فلسطینیوں کا کوئی پُرسان حال باقی نہیں رہے، اور اسرائیل کے پڑوس میں کوئی ایسا مُلک نہ رہ پائے، جو اسرائیل کے عزائم میں رکاوٹ بن سکے، پھر نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ’’حماس‘‘ کو۔۔۔ جو اسرائیل کے سخت مظالم کا شکار ہے اور جو اپنے ارضِ وطن کی آزادی کی جدوجہد کر رہا ہے۔۔۔ دہشت گرد قرار دے دیا گیا،پھر ’’الاخوان المسلمون‘‘ کو بھی، جس نے ہمیشہ قانون و آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلامی اصولوں پر حکومت کے قیام کی کوشش کی ہے،دہشت گرد قرار دے دیا گیا، عجیب بات ہے کہ اسرائیل1948ء سے دہشت گردی کا مسلسل مرتکب ہو رہا ہے اور اس نے بار بار اقوام متحدہ کے فیصلے کی دھجیاں اڑائی ہیں، وہ تو دہشت گرد نہیں ہے اور جس تنظیم نے کبھی دہشت گردی کا کوئی عمل نہیں کیا اور جمہوری طریقہ کار کو اختیار کیا، وہ دہشت گرد ہو گئی، حالانکہ اصل مسئلہ اس آمرانہ سرکاری دہشت گردی کا ہے، جس کے زیر سایہ عرب ممالک کے عوام مظلومیت اور مقہوریت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس وقت ’’بیت المقدس‘‘ کا مسئلہ ایک دوراہے پر ہے، بجائے اس کے کہ خلیجی ممالک بالخصوص والئ حرمین شریفین مطالبہ کرتے کہ اسرائیل1967ء کی سرحدوں پر واپس جائے، صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا اور باضابطہ مغربی اخبارات میں ٹرمپ کی طرف سے وضاحت کی گئی کہ ہم نے اس مسئلے پر سعودی عرب، مصر اور بعض دیگر خلیجی ممالک سے گفتگو کر لی ہے، افسوس کہ ہمارے ان حکمرانوں کو یہ بھی توفیق نہیں ہو سکی کہ وہ اس اعلان کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کرتے اور دو ٹوک انداز پر ٹرمپ کی تردید کرتے۔
چار اپریل2018ء کو سعودی عرب کے ولی عہد نے بیان دیا کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین پر قابض رہنے کا حق حاصل ہے، کاش! یہی بیان فلسطینیوں کے بارے میں آتا، یہاں تک کہ اب سعودی عر ب کی طرف سے فلسطینیوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے فارمولے کو قبول کر لیں، ورنہ انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، جب سعودی عرب نے ٹرمپ کی آمد پر مسلم ممالک کے سربراہان کو دعوت دی تو یہ اس طرح گرتے پڑتے ریاض پہنچے گویا نہ پہنچے تو دُنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی، لیکن14دسمبر2017ء کو جب ترکی نے بیت المقدس کے مسئلے پر او آئی سی کا اجلاس طلب کیا تو سعودی عرب، مصر اور عرب امارات وغیرہ نے اعلیٰ سطحی نمائندگی سے بھی گریز کیا اور کم درجے کے نمائندوں کو بھیجا، گویا ارادی طور پر مسجدِ اقصیٰ کے مسئلے کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی، قرآن نے تو یہود کو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے اور اس دشمنی کو آج ہم شب و روز سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، مگر ان ہی سے بعض عرب ممالک کی دوستی عروج پر ہے اور اس کے برخلاف اپنے مسلمان ترک بھائیوں نے نفرت ہے، جنہوں نے پانچ سو سال سے زیادہ بیت المقدس کو بچا کر رکھا اور آخری خلیفہ نے یہودیوں کے فلسطین میں آباد ہونے کے مقابل اپنی معزولی کو ترجیح دی۔محمد بن نائف کو بلاوجہ معزول کرنے کے بعد اخبارات میں خبریں آئیں کہ اسرائیل کے پندرہ جنگی جہاز ریاض میں اُتر چکے ہیں اور سعودی عرب کی طرف سے ان کی کوئی تردید نہیں کی گئی اور اب خبر آئی ہے کہ سعودی عرب حج کے سارے انتظامات اسرائیلی کمپنی کے حوالے کر رہا ہے، افسوس:
میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
(جاری ہے)