کیا پاکستان تعلیم و تحقیق میں دنیا کا مقابلہ کر سکتا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر سمیع اللہ
آج کا دور معاشی ترقی سے بہت آگے نکل چکا ہے اور بات تعلیم و تحقیق سے ہوتی ہوئی آرٹیفیشل ذہانت تک جا پہنچی ہے، جہاں پر ان چیزوں پر ڈسکشن ہو رہی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل اتنا زیادہ ہو کہ انسانی کاوش نہ ہونے کے برابر ہو کیونکہ دنیا قابلیت، تحقیق، صلاحیتوں اور ہنر والوں کی ہر دور میں گرویدہ رہی ہے۔ اکیسویں صدی کی ترقی اور تیز رفتاری کا مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم و تحقیق ایسا ہتھیار ہے جس سے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت، فوج اور معیشت سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور یہ بات پوری دنیا مان چکی ہے اور وہاں پر آج بھی تعلیم پر ہونے والے اخراجات جی۔ڈی۔پی کا 4 سے 10 فیصد ہیں اور ان میں مزید اضافہ کے لیے کاوش کر رہے ہیں کیونکہ یہ انسانی وسائل کی ہنرمندی میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف پاکستان جیسے پسماندہ ملک ہیں جہاں پر ہم ہر سطح کی تعلیم کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہونگے کہ پاکستان میں اڑھائی کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں اور جو بچے سکول جا رہے ہیں ان میں آدھے اپنی کلاس کی کتاب بھی نہیں پڑھ سکتے۔ اسی طرح پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کسی زمانے میں مثال کے طور پر پیش کی جاتی تھی مگر حکومتی ترجیحات بدلنے سے ہم بجٹ 2024ء میں اس نہج پر آ چکے ہیں کہ 160 سرکاری جامعات کے لیے صرف 25 ارب روپے سے ان کو چلانے کے ساتھ ملک میں تعلیم و تحقیق، ہنرمندی اور ایجادات و اختراعات کا خواب دیکھنا بند کر دینا چاہیے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ ہمارا ہمسایہ بنگلہ دیش نے ڈھاکہ یونیورسٹی کو پاکستان کی 160 جامعات سے زیادہ بجٹ دیا تاکہ یہ نوجوانوں کی اس انداز میں آبیاری کریں کہ یہ ملک و قوم کی بہتری میں نمایاں کردار ادا کریں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کی بات نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے ایک ایک سنٹر کا بجٹ ہماری ہائر ایجوکیشن کمیشن سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔
اس وقت دنیا میں بڑی کمپنیاں، کئی ممالک سے زیادہ پیداوار دے رہی ہیں اور ان میں وال مارٹ کی سالانہ وصولیاں 524 بلین ڈالر، امیزون 280 بلین ڈالر، ٹویوٹا 272 بلین ڈالر، ایپل 260 بلین ڈالر کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگوں کو روزگار دے رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان جیسے ممالک ہیں جہاں 20 کروڑ لوگ مل کر صرف 340 بلین ڈالر کی پیداوار دے رہے ہیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ بہت ساری کمپنیوں کی سالانہ پیداوار پاکستان کی کل قومی آمدن سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ریسرچ کا فقدان ہے کیونکہ پاکستان سالانہ جی ڈی پی کا صرف اشاریہ تین فیصد ریسرچ پر خرچ کرتا ہے جو دنیا میں کم ترین سطح ہے مگر اس میں ہر اگلے دن شدید کمی کی جا رہی ہے جو کسی عذاب سے کم نہیں کیونکہ یہ ہماری نوجوان نسل کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
اس طرح کے ماحول میں بہت سارے نوجوان اپنے وسائل سے زیادہ ملک اور نوجوان نسل کی خدمت کر رہے ہیں اور ملکی سطح پر اس طرح کے لوگوں کے لیے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس وجہ سے بہت زیادہ پاکستانی اپنا ملک چھوڑ کر دیارِ غیر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں اور ترسیلِ زر سے ملکی ترقی میں اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔ بہت سارے پاکستانی اس وقت دنیا کے بہترین اداروں میں کام کر رہے ہیں اور ان کی خدمات قابلِ ستائش ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہمارے لوگوں کو اگر سہولیات دی جائیں تو ان کی کارکردگی باقی ممالک سے بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ ہمارے لوگ ہر شعبہ میں نمایاں کردار ادا کر چکے ہیں جن میں ڈاکٹر محبوب الحق نے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس بنایا اور پوری دنیا اس کو استعمال کر رہی ہے۔ ہمارے دو لوگ دنیا کا سب سے بڑا انعام نوبل پرائز حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ہمارے پاس سب سے کم عمر ٹیکنالوجسٹ ہیں۔
حکومت کو فوری طور پر ریسرچ فنڈ میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں تحقیق کے سنٹرز بنانے کی ضرورت ہے جس سے نوجوان نسل کو اپنا ہنر دکھانے کا موقع ملے گا۔ پاکستان دنیا میں "جوان ملک" کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ ہمارے 60 فیصد سے زیادہ لوگ 30 سال سے کم عمر کے ہیں۔ تحقیق کے ذریعے اگر ہم صرف ایک نئی پراڈکٹ تیار کر لیں اور پوری دنیا کو فروخت کر کے روزگار میں اضافے کے ساتھ ملکی ترقی اور وقار میں اضافے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہمیں اپنے لوگوں کو بین الاقوامی معیار کی تحقیق اور ڈویلپمنٹ کے بارے آگاہی دینا بہت ضروری ہے اور اس سلسلے میں ہم اپنے ہنرمند لوگوں کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔
٭٭٭