آٹھویں قسط،بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ
افغان وفد دربار رسالتﷺ میں
افغانوں میں تواتر سے وارثتی اور سماعی روایات کے مطابق بادیہ ایران کے مشرق یا خراسان اور سجستان کے مغربی پہاڑوں اور دشتوں سے ان کے اجداد میں سے ایک وفد جو کہ اس وقت حضرت موسیٰ کے امتی اور عیسی ؑ کے پیروکار تھے، قیس عبدالرشید کی قیادت میں مکمہ، مدینہ جا کر ایمان لائے اور وہاں سے واپس آکر اپنی قوم کو قرآن کی تعلیم دینے لگے۔ اس واقعہ کے متعلق پوری قوم افغان متفق ہے اور انہیں اس کی صحت کا پختہ اعتقاد ہے۔ ان کے علماء مشائخ اور مشاہیر ہمیشہ سے مذکورہ وفد اور اسلام قبول کرنے کے متعلق یاد دہانی کے طور پر وعظ و نصیحت کرتے چلے آئے ہیں۔
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ، ساتویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
تیرہ سو سال تک اس قوم کے کسی بھی فرد نے اس واقعہ کی صحت سے انکار نہیں کیا۔ دنیا میں کسی قوم کا ایسا متفق علیہ بیان اورمجموعی قومی اعتقاد کسی ایک واقعہ کی تصدیق کے لئے بلا شبہ ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔
بعض غیر افغان مؤرخ یہ اعتراض کرنے لگے ہیں کہ افغانوں کے قیس عبدالرشید کی قیادت میں افغانوں کے وفد کے دربار رسالتﷺ میں جانے کے واقعہ کا چونکہ تاریخی ثبوت موجود نہیں اس لئے اسے درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا خیال ہے کہ دربار رسالتﷺ میں جتنے وفود گئے ان کا احادیث میں صریحاً ذکر موجود ہے سوائے افغان وفد کے۔ یعنی کتب احادیث میں اس وفد کے جانے کے متعلق کہیں ذکر نہیں لہٰذا افغانوں کا یہ دعویٰ قابل تسلیم نہیں۔
خبروں کی صحت معلوم کرنے کا ہمارے پاس سوائے اس کے کوئی ذریعہ نہیں کہ نہایت فہم و احتیاط سے کام لیا جائے۔ وفد پر یہ اعتراض اس وقت سے شروع ہوا جب کہ افغانوں کو آرین ثابت کرنے کے متعلق ایک نظریہ قائم اور منصوبہ تیار کیا گیا۔ دوسری طرف سے اس اعتراض کا جواب آج تک میرے سننے میں نہیں آیا جیسا کہ یہ اعتراض کسی نے سنا ہی نہیں یا اس کو کچھ اہمیت نہیں دی گئی ہو یا جواب دینے سے قاصر رہے ہوں۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے جسے اگر حل نہ کیا گیا تو پوری افغان قوم اور ان کے علماء و مشائخ اور مشاہیر کے اس دعوے اور روایت کے ساقط الاعتبار ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔ اور ان کے اس بنیادی اعتقاد کو جو اس وفد کے ذریعہ سے اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں ہے کمزور پڑ جانے کا احتمال ہے۔ حالانکہ پختونوں کی تاریخ کے ایک مسلمہ واقعے سے انکار کے لئے یہ استدلال درست نہیں۔ اصولًا حدیث کے بیان سے تو استدلال کیا جا سکتا ہے۔ حدیث کے سکوت سے استدلال درست نہیں۔ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ان معترضین کو افغانوں کی تاریخ کے ایک واقعہ سے انکار کے لئے تو حدیث کی کتابیں یاد آئیں لیکن تاریخ کے مسلمات کے خلاف اپنے اس نظریے کے اثبات کے لئے مجموعہ ہائے احادیث یاد نہیں آئے کہ پختون آرین نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ان کے نزدیک پختونوں کی تاریخ کے کلیات و جزئیات کی تصدیق کے لیے کتب احادیث سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے تو ان کے اپنے نظریے کے اثبات کے لئے احادیث سے استدلال کی ضرورت کیوں نہیں؟
الغرض وفدپر اعتراض کے ثبوت میں معترض نے جو دلیل پیش کی ہے وہ ایسی نہیں کہ اس سے افغانوں کے وفد کا واقعہ جھوٹا ثابت ہو سکے۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ کتب احادیث میں دنیا کے سارے واقعات درج ہوں۔ بلکہ قرآن مجید کا انداز بیان بھی یہی ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے:
اور کچھ رسول ہیں کہ جن کا ذکر ہم نے تم سے پہلے کر دیا ہے اور کچھ رسول ہیں جن کا ذکر ہم نے تم کو نہیں سنایا اور اسی طرح اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کہ واقعی طور پر کلام ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ایسے بے شمار واقعات اور حالات ہیں جس کا ذکر کتب احادیث میں نہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کسی صحیح واقعہ یا چیز کا وجود ہی نہیں۔
مثلاً کتاب احادیث میں حرا جودی اور طور نامی پہاڑوں کا ذکر موجود ہے۔ لیکن کوہ ہمالیہ، پامیر، کے مور اور مہابن وغیرہ پہاڑوں کا ذکر تو کہیں درج نہیں۔ تو کیا اب اس دلیل کو مانا جائے گا کہ ان پہاڑوں کا کہیں وجود نہیں حالانکہ ان مذکورہ پہاڑوں کا وجود ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔
حضور ﷺ رسالت میں جنوں کا وفد
مذکورہ واقعات اور بیانات کو مد نظررکھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک وفد کے متعلق جس کا ذکر قرآن اور کتب احادیث ہیں۔ جن کے نام سے آیا ہے ایک بات آئی ہے وہ یہ کہ شاید اس ذکر جن سے قیس کا وفد مراد ہو اور اسے بوجہ صحرا نشینی اور وحشی و مستور زندگی گزارنے کے جن کے صفتی نام سے موسوم کیا ہو۔ اس لئے کہ لفظ جن کے معنی میں ستر و پوشیدگی کی صفت کا اعتراف تمام اہل لغت نے کیا ہے۔ صاحب لغات القرآن نے لکھا ہے کہ جن جن سے مشتق ہے۔ چونکہ یہ عام طور پر نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں اس لئے ان کا نام جن ہوا(جلد ۲ صفحہ ۲۵۵) صاحب بیان اللسان نے اس کے معنی میں لکھا ہے ’’ہر چیز جو حواس سے پوشیدہ ہو۔‘‘ (صفحہ ۱۶۷) اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار(ڈی بی میکڈانلڈ) نے نہایت تفصیل کے ساتھ اس لفظ کے معنی، مشتق، اطلاقات اور اقسام کی بحث کی ہے۔ وہاں بھی مستور رہنے اور پوشیدہ ہونے کے معنی موجود ہیں۔(مطبوعہ لاہور، جلد ۷ صفحہ ۶۳۔۴۵۹)
سرسید احمد خاں نے سورہ جن کی تفسیر کے شروع میں لفظ جن کے اشتقاق و مادہ اور معنی پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’لفظ جن لفظ اجتنان سے مشتق ہے جس کے معنی چھپے ہوئے کے ہیں اور عربی زبان کے محاورے میں جو چیز پوشیدہ ہو اس پر جن کا اطلاق کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ پیٹ کے بچے کو بھی جنین اس لئے کہتے ہیں کہ وہ پیٹ کے اندر پوشیدہ ہوتا ہے۔‘‘
آخری جملے میں سر سید کا اشارہ سورہ نجم کی آیت ۳۲کی طرف ہے ۔ لفظ جن کے اشتقاق و معنی پر روشنی ڈالنے کے بعد سورہ جن کی پہلی آیت میں نفر من الجن کا ترجمہ انہوں نے’’چند چھپے ہوئے شخص‘‘ کیا ہے۔ (مقالات سر سید، حصہ دوم ، صفحہ ۳۸۔۱۳۷)
مولانا غلام رسول مہر نے اس لفظ کے معنی کے ساتھ اس کی اصل کی طرف اشارہ کر دیا ہے، وہ لکھتے ہیں
’’یہ لفظ اصلاً آرامی ہے جس کے معنی ہیں چھپا ہوا(مستور)
(تاریخ شام (ترجمہ اردو) صفحہ۱۵۴ حاشیہ)
بعض اہل علم نے اس کی اصل عبرانی بتائی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سترو پوشیدگی اور غیر مرئی ہونا نوع جن کی صفت ہے۔ اس لئے شاید اس وفد کو بھی اس صفتی نام سے یاد کیا گیا ہو نہ کہ اس سے مراد ’’نوع جن‘‘ ہو جیسا کہ عربوں کا محاورہ ، بلکہ دوسرے لوگوں کا بھی یہی قاعدہ ہے کہ جس شخص میں کسی دوسری چیز کی کوئی صفت موجود ہو خواہ وہ اچھا ہو یا برا تو اس چیز کے صفتی نام سے وہ موسوم کیا جاتا ہے۔ مثلاً اسد اللہ، سیف اللہ، ابوجہل وغیرہ۔ اسی طرح اگر ایک آدمی بے وقوفی کا کام کرے، طاقت کا مظاہرہ کرے یا کسی خصلت کا اس سے اظہار ہو تو اسے گدھے، شیریا کتے کے صفتی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے کہ فلاں شخص گدھا، شیر یا کتا ہے اور نیز ایسے شخص کے متعلق بھی جو دیکھنے میں شاذو نادر آتا ہو، اسے پشتو زبان میں ’’پیرے‘‘ یعنی جن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور لڑکی کو جنی اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ پردے میں رہتی ہے اور عام لوگوں کی نظروں سے مستور ہے۔ اسی طرح لڑکے کو پشتو زبان میں ہلک کہتے ہیں۔ جو عبرانی لفظ ہللویا سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے پیدائش پر خوشی کے ساتھ اظہار۔
جاری ہے۔ نویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔