بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کا معاندانہ رویہ!

بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کا معاندانہ رویہ!
 بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کا معاندانہ رویہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھارت کی متعصب حکومت نے پاکستان مخالف رویے میں تمام بین الاقوامی قوانین اور قانونی و اخلاقی حدود کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ان دنوں بھارت کی حکمران جماعت کے نظریئے کی بدولت پاک بھارت تعلقات انتہائی خراب حالت میں ہیں اور بھارت کی طرف سے دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت کو بھی محدود تر کرکے رکھ دیا گیا ہے اور ویزوں کا اجراء بھی روک دیا، یہ اطلاعات اور خبریں تو آتی تھیں کہ کرکٹ کے تعلقات خراب ہیں۔

بھارتی حکومت اپنی ٹیم کو پاکستان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دیتی، پاکستانی ٹیموں بشمول بلائنڈ کرکٹ، کبڈی، ہاکی اور کشتی کو بھی ویزے جاری نہیں کرتی جبکہ حال ہی میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت نظام الدین اولیاء کے سالانہ عرسوں کے موقع پر زائرین کو بھی ویزے جاری نہیں کئے۔

یوں کنٹرول لائن پر کسی بھی قسم کے اشتعال کے بغیر گولہ باری معمول ہے تو اب دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن کے اہلکاروں اور افسروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ کوئی پوچھنے اور روکنے والا نہیں، پاکستان کی طرف سے احتجاج ہو رہا ہے۔

بھارت میں کانگرس کی حکومتوں کے دوران بھی دقت ہوتی تھی لیکن مجموعی طور پر صورت حال بہتر تھی اور شدید محاذ آرائی کی صورت نہیں تھی۔ جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے۔

بی جے پی حکمرانوں کی طرف سے بھی الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے، ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ بی جے پی کے رہنما مخاصمانہ ارادے رکھتے ہیں اور جنگ چھیڑنے کے موڈ میں ہیں،جبکہ پاکستان کی طرف سے خطے میں امن کی پالیسی برقرار رکھی گئی ہے، لیکن بی جے پی حکومت سے مثبت جواب نہیں ملتا۔


ورلڈ پنجابی کانگرس جس کے چیئرمین فخر زمان ہیں خطے میں امن اور پاک بھارت تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لئے جدوجہد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اگرچہ تنازعات کے حوالے سے کانگرس بھی متعصبانہ موقف ہی رکھتی ہے تاہم عام حالات کے لئے پاک بھارت تعلقات ایسے نہیں رکھتی جیسا اب بی جے پی نے کیا ہوا ہے۔

کانگرس کے ادوار میں وفود کے تبادلے بھی ہوتے رہے اور شہریوں کی آمد و رفت بھی جاری رہی۔ تاہم موجودہ حکومت کے آتے ہی حالات بگڑتے ہی چلے گئے، اس کا ہمیں ذاتی تجربہ بھی ہوا کہ چار مرتبہ ویزے کی درخواست پر ’’ناں‘‘ کر دی گئی اور یہاں سے وفد بھارت نہ جا سکا۔

یہ سلسلہ 2015ء سے شروع ہوا، جب ’’فتح پور‘‘ (بھارت) میں ورلڈ پنجابی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا اس میں دنیا بھر سے لوگوں کو مدعو کیا گیا۔ پاکستان سے بھی وفد کو بلاوا تھا، دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کانفرنس کے لئے دس دس روز کے ویزے ، دے دیئے گئے لیکن یہ جاری تب کئے گئے جب کانفرنس اس بناء پر ملتوی کر دی گئی کہ مہمانوں کو ویزے جاری نہیں ہوئے۔

ہم بھی آرام سے بیٹھ گئے اور پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کو چٹھی لکھ دی کہ شکریہ کانفرنس ہی ملتوی ہو گئی ویزا کیا کریں گے؟ اس کے بعد پھر دو تین مرتبہ ایسا ہی ہوا، کانفرنس کی تاریخ متعین کی جاتی، ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ ویزے کے لئے درخواست دیتے اور اس اثناء میں کانفرنس ملتوی ہو جاتی۔ ایسا کم از کم تین بار ہوا، اور ویزے سے انکار کیا گیا۔

اس بار کانفرنس کے انعقاد کی ذمہ داری پنجاب آرٹس کونسل چندی گڑھ کی تھی جس کے سیکرٹری چندی گڑھ پریس کلب کے صدر بھی ہیں، چنانچہ ملتوی شدہ کانفرنس کے حتمی انعقاد کے لئے 9،10 مارچ کی تاریخیں رکھ دی گئیں۔

دعوت نامے بھیج دیئے گئے، کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ کے علاوہ بعض دوسرے ممالک سے وفود نے آنا تھا، اس بار بھی ورلڈ پنجابی کانگرس کو دعوت نامہ ملا اور پانچ افراد کو مدعوکیا گیا۔ فخر زمان کی طرف سے پانچ نام بھیجے گئے کہ ان کو ویزے جاری کئے جائیں کانفرنس کے منتظمین کی طرف سے باقاعدہ ہر رکن کے نام الگ الگ دعوت نامہ بھیجا گیا اور سپانسرشپ کی چٹھی بھی آ گئی۔

چیئرمین فخر زمان نے ہمیں پھر ویزے کے لئے درخواست دینے کو کہا، ہم نے انکار کیا تو انہوں نے بتایا کہ کانفرنس کے منتظمین کو یقین ہے کہ اس مرتبہ ویزے جاری ہوں گے کہ وزیر خارجہ سشما سوراج نے یقین دلا دیا ہے۔ طوعاً کرعاً یہ کڑوا کسیلا گھونٹ بھرنا پڑا۔ ایک مرتبہ پھر درخواست اور نتیجے کے منتظر رہے۔

نتیجہ ہماری ہی توقع کے مطابق برآمد ہوا، کانفرنس کی تاریخ گزر گئی، پاسپورٹ ہی واپس نہ آئے اور بالآخر 14مارچ کو کوریئر سروس نے فون کیا کہ پاسپورٹ لے جائیں۔ ہم نے جاکر پاسپورٹ وصول کیا ساتھ میں ایک انگریزی اور اردو میں چھپا ہوا، ’’انکار‘‘ تھا اور پھر ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔


یہ بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ ماضی میں کانگرس ادوار میں وفود کے تبادلے ہوتے تھے۔ چندی گڑھ پریس کلب کے وفد کو لاہور پریس کلب نے مدعو کیا اور پھر چندی گڑھ پریس کلب کی دعوت پر لاہور پریس کلب کے وفد نے دورہ کیا۔ دونوں بار کانفرنسیں ہوئیں اور ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات بہتر استوار کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔

تب چندی گڑھ پریس کلب کے صدر نوین ایس گریوال تھے۔ ہر دو پریس کلبوں نے وفود کے اراکین کو اعزازی رکنیت بھی دی۔ یوں ہم بھی چندی گڑھ پریس کلب کے اعزازی رکن ہیں، تاہم بی جے پی کو یہ بھی پسند نہیں کہ خالص غیر سیاسی اور ثقافتی کانفرنس میں بھی دونوں ممالک کے لوگ مل بیٹھیں جس کانفرنس کے لئے ویزوں سے انکار کیا گیا۔

وہ خالص پنجابی زبان کے تحفظ اور ترویج کے لئے تھی، لیکن بی جے پی والے تو ایسا چاہتے ہی نہیں، ان کے بھی مرکزی انتخابات قریب آ رہے ہیں اور شاید پھر سے پاکستان مخالف نظریئے پر ہی انتخابات ہوں گے؟

مزید :

رائے -کالم -