لاہور میں تین دن

لاہور میں تین دن
لاہور میں تین دن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کوئی ملتانی لاہور جائے تو اُس کے دماغ پر دو طرح کے خیالات ضرور حملہ آور ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا شہر ہونے کے باوجود لوگوں کو مسائل حل کرانے کے لئے لاہور آنا پڑتا ہے اور دوسرا یہ کہ صوبے کا دارالحکومت عام شہروں کے مقابلے میں کتنا ترقی یافتہ ہے، ظاہر ہے مجھ جیسے پکے ملتانی پر بھی یہی خیالات وارد ہوئے، دو معمولی نوعیت کے سرکاری کاموں کے لئے دفتروں کی یاترا کرنا پڑی، خیر ایک بات اچھی ہے کہ ان صوبائی سطح کے دفاتر میں بیٹھے ہوئے سرکاری ملازمین کی ایک خوبی ہے کہ وہ دور سے آنے والوں کی لاج رکھتے ہیں اور من میں آئے تو کسی نذرانے کے بغیر بھی کام کردیتے ہیں۔

سرزمین ملتان کی اہمیت کا اندازہ مجھے اُس وقت ہوا، جب میں روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے دفتر واقع جیل روڈ کے باہر گاڑی پارک کرنے کی جگہ تلاش کررہا تھا، دفتر کے عین سامنے ایک جگہ موجود تھی، وہاں گاڑی لگانے کی کوشش کی تو بڑی مونچھوں والا گارڈ تیزی سے آیا اور کہا یہاں آپ گاڑی پارک نہیں کرسکتے۔

میں نے کہا کہ کیوں نہیں کرسکتا، کہنے لگا یہاں مالکوں کی گاڑی کھڑی ہوتی ہے، میں نے اسے کہا ہم ملتان سے آئے ہیں، گاڑی کہاں کھڑی کریں، یہ سن کر وہ دھمال ڈالنے لگا، ’’تسیں ملتان توں آئے او، میں صدقے جاوواں تسیں تے میرے پیراں دی دھرتی توں آئے او جتھے مرضی گڈی لاؤ تہاکو کون روک سکدا اے‘‘۔

میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے خواجہ اقبال کی طرف دیکھا اور ہم دونوں کو اولیاء کی دھرتی پر فخر محسوس ہونے لگا۔ گاڑی پارک کرکے باہر نکلے تو گارڈ نے بتایا کہ وہ پولیس میں رہا ہے۔ اُس نے ملتان کے کئی تھانے گنوا دیئے۔

جہاں اُس نے کام کیا، پھر ٹھنڈی آہ بھر کے کہا، ’’مینوں ملتان بہت یاد آوندا اے‘‘۔ اُس سے ایک دن پہلے آئی جی آفس میں ایڈیشنل آئی جی ڈویلپمنٹ محمد احسن یونس سے سنٹرل پولیس آفس میں ملاقات ہوئی تو وہ بھی ملتان میں اپنی پوسٹنگ کے دنوں کو یاد کرکے یہی کہتے رہے کہ ملتان بہت پیارا شہر ہے، محبت کرنے والے لوگوں کے شہر کو بھولنا آسان نہیں۔

ملتانیوں کے لئے ایسی باتیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں، اُن کی ساری محرومیوں اور کلفتوں کا ازالہ کردیتی ہیں، میں لاہور جاتا ہوں تو دو مرشدوں کے حصار میں رہتا ہوں۔ جناب مجیب الرحمن شامی اور شعیب بن عزیز صاحب ملک اور لاہور کی نبض کو سمجھنا ہو تو اِن کی صحبت سے بہتر کوئی ٹھکانہ نہیں۔

خاص طور پر جب ملک میں جوتے چلنے کا شوروغوغا ہو، سینٹ انتخابات میں انہونی کے تذکرے ہوں اور شہباز شریف کے پارٹی صدر بننے کی باتیں ہوں تو ان مرشدوں کی بیٹھک رنگ جما دیتی ہے۔ شامی صاحب سے دفتر میں ملاقات ہوئی تو طے ہوا کہ ناشتہ اُن کے گھر ہو گا، جس میں شعیب بن عزیز بھی موجود ہوں گے۔

پھر رات گئے پروگرام بدلا اور اگلے دن جمخانہ میں ظہرانے پر پہنچنے کا حکم صادر ہوا۔ وہاں پہنچے تو مجیب الرحمان شامی محفل آباد کئے بیٹھے تھے۔ ظفر محمود، شعیب بن عزیز، ایثار رانا، عثمان شامی، عبدالوحید، اجمل جامی اور بعد میں ڈاکٹر حسین احمد پراچہ بھی شامل ہوگئے۔ جمخانہ میں موبائل کا استعمال اور تصویر کشی تو منع ہے، مگر سیاسی گفتگو پر کوئی پابندی نہیں۔

سو بہت سے خفیہ ہاتھوں کا بھی ذکر ہوا اور ظاہری مُہروں کی بھی بات کی گئی، باتوں ہی باتوں میں میں نے جناب مجیب الرحمان شامی سے کہا کہ اجمل جامی آپ کے ساتھ دنیا ٹی وی کے پروگرام میں ایڈجسٹ کرگئے ہیں، انہوں نے فوراً ازراہ تفنن کہا ’’ میں ہر ایک کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کر لیتا ہوں۔ میں نے آپ کے ساتھ نہیں کی ہوئی، حالانکہ مجھے آپ کے نظریات سے اختلاف رہتا ہے‘‘۔

پھر انہوں نے ایک اہم بات کہی، کہنے لگے ہماری سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ہم کسی کو اختلاف رائے کا حق نہیں دینا چاہتے، حالانکہ اس حق کو سلب کر لیا جائے تو سوسائٹی میں جمود طاری ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا جب اس حق کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور دلیل ختم ہوجاتی ہے تو جوتے چلتے ہیں جو معاشرتی زوال کی بڑی نشانی ہوتی ہے‘‘۔

اسی دوران موضوع کو بدلتے ہوئے شعیب بن عزیز صاحب کی رگ ظرافت پھڑکی، انہوں نے پاس بیٹھے ہوئے سابق چیئرمین واپڈا اور کالم نگار ظفر محمود کے بارے میں کہا کہ میں ان کا ایک احسان کبھی نہیں بھول سکتا، میرا بجلی کا میٹر جل گیا تھا۔ میں نے انہیں فون کیا اور انہوں نے تین دن میں نیا میٹر لگوادیا۔

اس پر شامی صاحب نے جملہ کسا، واقعی یہ بہت بڑا کام کیا ظفر صاحب نے اس ملک میں سینیٹر بنوانا آسان اور میٹر لگوانا مشکل کام ہے۔ اس جملے پر زور دار قہقہہ پڑا۔ شامی صاحب نے ایثار رانا سے پوچھا وہ اپنے کالم کے لئے لطیفے کہاں سے ڈھونڈتے ہیں۔

انہوں نے کہا حالات کے مطابق لطیفوں کی تلاش کے لئے اچھی خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس پر اجمل جامی نے کہا، گویا آپ نے ریسرچ کا نیا موضوع تلاش کرلیا ہے۔


اگلے دن مجھے گوجرانوالہ جانا پڑا، وہاں جس محفل میں گئے، یہ سوال سامنے تھا کہ شہباز شریف مسلم لیگ(ن) کے صدر بن گئے ہیں، ان کے صدر بننے سے کیا فرق پڑے گا؟ کیا مسلم لیگ (ن) کمزور ہو جائے گی؟ کیا مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان حالات بہتر ہو جائیں گے۔ کیا نواز شریف کو سزا ہوجائے گی؟ کیا اگلے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملے گی، کیا مریم نواز انتخابی مہم کو لیڈ کریں گی، کیا مریم نواز اور حمزہ شہباز اکٹھے جلسے کریں گے، کیا عمران خان واقعی اگلے وزیر اعظم ہوں گے؟کیا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مل کر مسلم لیگ سے تخت لاہور چھین لیں گے؟ کیا شہباز شریف تخت لاہور چھوڑنا چاہیں گے یا وزیر اعظم کسی اور کو بناکر خود پنجاب میں ہی رہنا مناسب سمجھیں گے؟ یہ اور اس جیسے بہت سے سوال رانا ہمایوں اسلم خان کے ڈیرے پر مختلف شعبوں کی شخصیات سے سننے کو ملے۔

ان سوالوں کا کوئی بھی حتمی جواب نہیں، کیونکہ حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ کوئی بھی دو تین ماہ بعد کے منظر نامے کی آج منظر کشی نہیں کرسکتا۔

سب کی زبان پر یہ سوال بھی گردش کر رہا تھا کہ انتخابات وقت پر ہوں گے بھی یا نہیں؟ رانا بلال ایڈووکیٹ کی رائے تھی کہ اگر نواز شریف کے بیانیے کو اسی طرح مقبولیت حاصل ہوتی رہی تو شاید طاقتور ہاتھ الیکشن ہی نہ ہونے دیں اور نگران سیٹ اپ ایک طویل عرصے تک ملک کا نظام سنبھال لے۔

خواجہ اقبال کا کہنا تھا: کل بھی اس ملک پر اسٹیبلشمنٹ کی حکمرانی تھی آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی۔ اس لئے مستقبل کا سیاسی نقشہ بننا وہی ہے، جو مقتدر قوتوں نے سوچ رکھا ہے۔ کہا یہ جارہا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کرنے دی جائے گی اور وہ حاصل نہیں کرنے دی گئی، حتیٰ کہ چیئرمین سینٹ بھی وہ نہیں بنوا سکی۔

گوجرانوالہ سے لاہور واپسی ہوئی تو ایک بار پھر روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کا طواف کیا، جہاں مجیب الرحمن شامی صاحب اور جناب قدرت اللہ چوہدری کو اپنا شعری مجموعہ ’’تیری یاد کا سمندر‘‘ پیش کیا، وہیں شعیب بن عزیز کا حکم ملا کہ میں آفیسرز کلب میں پہنچوں، جہاں لنچ کے ساتھ کچھ خفیہ و اعلانیہ باتیں بھی ہوں گی۔

اورنج ٹرین کی وجہ سے اُدھیڑی ہوئی سڑکوں پر ٹریفک کے اژدھام سے بچتے وہاں پہنچے تو شعیب بن عزیز کے ساتھ کالم نگار و دانشور مصطفیٰ کمال پاشا اور ٹی وی اینکر پروفیسر فرزانہ ارشد بھی موجود تھیں۔ فرزانہ ارشد، عمران خان کے خلاف کچھ زیادہ ہی غصے سے بھری پڑی تھیں، اُن کا کہنا تھا پانچ سال پہلے عمران خان نئی نسل کا آئیڈیل تھے۔

وہ بھی اُس میں شامل تھیں، لیکن پھر جب اُن کے بارے میں یہ حقائق سامنے آئے کہ وہ فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں، تو دل سے اُتر گئے، انہوں نے کہا آج صرف نواز شریف جمہوریت کی علامت ہیں اور بہت جلد اُن کی قیادت میں ایک جمہوری انقلاب آنے والا ہے۔

مصطفیٰ کمال پاشا اُن کے خیالات سے متفق نہیں تھے، اُن کا کہنا تھا سیاست دانوں نے اگر کارکردگی دکھائی ہوتی تو فوج سمیت کوئی بھی ادارہ سیاست میں مداخلت نہ کر سکتا۔

شعیب بن عزیز کا اس نشست میں تھیسز یہ تھا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ملک میں ڈس انفرمیشن کا سیلاب آیا ہوا ہے، حتیٰ کہ نواز شریف پر جوتا پھینکنے والے کی لاش تک دکھا دی، جبکہ وہ زندہ و سلامت جیل میں موجود ہے، اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے، وگرنہ یہ بہت کچھ بہالے جائے گا۔

اُسی شام پلاک میں ایک اہم موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا، ادبی رسائل کی اہمیت اور معیار کے حوالے سے منعقد ہونے والے اس سیمینار کا اہتمام ڈاکٹر سعدیہ بشیر نے ادارۂ خیال و فن اور پلاک کے اشتراک سے کیا تھا۔

اس میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے اس نکتے پر زور دیا کہ ادبی رسائل و جرائد کو گروپ بندی سے آزاد ہو کر اعلیٰ معیار کی تخلیقات شائع کرنی چاہئیں، بزرگ و سینئر تخلیق کاروں کے ساتھ نوجوان تخلیق کاروں کو بھی شائع کرنا چاہیے، تاکہ فروغ ادب کے مقاصد پورے ہوسکیں، اسی تقریب میں نذیر قیصر، سعید جمال، ڈاکٹر عبدالکریم خالد، محمد اظہر، بینا گوئندی، ظہیر بدر، ممتاز راشد لاہوری، سلیم اختر ملک، عابد سیال جیسے ادیب و شاعر موجود تھے، بیشتر نے اظہار خیال بھی کیا۔

معروف و سینئر محقق و دانشور اکرام چغتائی ایک کونے میں بیٹھے سب کچھ سنتے رہے، منتظمین کو انہیں سٹیج پر بٹھانا چاہیے تھا، لیکن شاید اکرام چغتائی نے خود انکار کردیا ہو۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف جو پلاک کی ڈائریکٹر جنرل ہیں، میرے ہوتے وہاں موجود نہیں تھیں، اس لئے اُن سے ملاقات نہ ہوسکی۔ ایک اچھی تقریب میں شرکت لاہور کے دورے کا ایک اور اہم واقعہ ثابت ہوئی۔

مزید :

رائے -کالم -