کرتارپور راہداری،مذاکرات اور بھارتی رویہ!

کرتارپور راہداری،مذاکرات اور بھارتی رویہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کرتارپور راہداری کھولنے کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات واہگہ سرحد سے متصل بھارتی علاقے اٹاری میں ہوئے،مذاکرات کا ماحول خوشگوار تھا، دونوں ممالک نے راہداری جلد کھولنے پر اتفاق کرتے ہوئے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے اسے بڑی کامیابی قرار دیا، اُن کی سربراہی میں18رکنی پاکستانی وفد واہگہ کے راستے اٹاری پہنچا تھا،انہوں نے ہی مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت کی ،جبکہ بھارت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے جائنٹ سیکرٹری ایس سی ایل داس اپنے ملک کے وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کا پہلا دور اٹاری میں سازگار ماحول میں ہوا،راہداری منصوبے کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی بات چیت ہوئی،ماہرین نے تکنیکی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا، مذاکرات کا اگلا دور واہگہ میں 2اپریل کو ہو گا۔
پاکستان کی جانب سے کرتارپور راہداری کھولنے کے سلسلے میں جو پیش قدمی کی گئی ہے اور جتنی سرعت کے ساتھ اِس سلسلے میں انتظامات کئے گئے ہیں دُنیا بھر کی سکھ برادری اس پر نہال ہے، کیونکہ اُن کی ایک دیرینہ آرزو پوری ہو رہی ہے، تاہم بھارتی حکومت نے اِس سلسلے میں کوئی زیادہ گرمجوشی نہیں دکھائی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور مشرقی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ تو دعوت کے باوجود افتتاحی تقریب میں نہیں آئے تھے، امریندر سنگھ مختلف مواقع پر پاکستان کے خلاف بیان بازی بھی کرتے رہے۔پاکستان کا یہ اقدام تو اِس لحاظ سے یک طرفہ خیر سگالی کی ذیل میں آتا ہے کہ بھارت نے اِس کے جواب میں کوئی ایسا اقدام نہیں کیا،اُلٹا اُن زائرین کے ویزے روک لئے جو اجمیر شریف کے عرس میں شرکت کے لئے جانا چاہتے تھے، حالانکہ ضرورت تو اِس بات کی ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کے لئے بھی بھارت میں بزرگانِ دین کے مزاروں پر حاضری آسان بنائی جائے اور اگر اُن علاقوں تک راہداری کی طرح کا فراخدلانہ اقدام نہیں کیا جا سکتا، تو کم از کم ویزوں کی تعداد بڑھائی ،اور آمد و رفت آسان بنائی جائے، لیکن اِس بار تو ویزے سرے سے جاری ہی نہیں کئے گئے۔ کرتارپور کے تناظرمیں دیکھا جائے تو بھارت کے اس اقدام کوکسی طور پر فراخدلانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کرتارپور سکھ حضرات کے لئے ایک مقدس مقام ہے اور گوردوارہ کرتارپور کی سیوا ان کے دھرم میں شامل ہے، وہ پاکستان آئیں تو ان کی خواہش کرتارپور کے درشن کی بھی ہوتی ہے اور اس کے لئے ان کو لاہور سے ہو کر جانا پڑتا ہے۔ حکومتِ پاکستان زائرین کے لئے جو انتظامات کرتی ہے اس میں کرتارپور کے درشن کا وقت بھی رکھا جاتاہے تاہم آمدورفت اور سیکیورٹی انتظامات پر بہت توجہ وقت اور سرمایہ بھی خرچ ہوتا ہے،کرتارپور محل وقوع کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائے راوی کے آر پار ہے، اور گورداس پور سے قریباً پانچ کلو میٹر کا فاصلہ بنتا ہے، سکھوں کی یہ دیرینہ خواہش تھی کہ ان کی آمدورفت کے لئے یہ راستہ کسی طرح کھول دیا جائے تاکہ زائرین صبح آ کر شام تک واپس بھی جا سکیں یا ایک آدھ رات قیام کے بعد چلے جائیں۔
وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اپنی تقریبِ حلف برداری میں کرکٹ کے پرانے ساتھیوں کو بھی مدعو کیا گیا، نوجوت سنگھ سدھو جو پنجاب اسمبلی کے رکن اور صوبائی وزیر بھی ہیں، آ گئے اور یہاں انہوں نے کرتارپور کا راستہ کھولنے کی اپیل کر دی، جو بڑی فراخدی سے فوراً ہی قبول کر لی گئی،بھارت میں سدھو تنقید کی زد میں آئے تاہم سکھوں کی خاطر بھارت کی مرکزی حکومت کو بھی ہاں کرنا پڑی،وزیراعظم عمران خان نے راہداری کا سنگ بنیاد رکھ کر ترقیاتی کام بھی شروع کرا دیئے،جو چالیس فیصد تک مکمل ہو چکے، بھارت کی حدود میں وزیراعلیٰ مشرقی پنجاب امریندر سنگھ نے سنگ بنیاد رکھ دیا اور کام شروع کرایا تاہم رفتار سست رہی۔
اب بھارت کی طرف سے شدید قسم کی کشیدگی اور جنگ جیسا ماحول پیدا کیا گیا تاہم پاکستان کی طرف سے ایک امن جُو ملک کا کردار ہی سامنے آیا ہے، راہداری کے حوالے سے پاکستان نے انتظامی امور کے لئے مذاکرات کی تجویز دے کر تاریخیں بھی متعین کیں، جن کے مطابق پاکستانی وفد نے 14 مارچ کو دہلی جانا تھا اور بھارتی وفد نے 23 مارچ کو اسلام آباد آنا تھا۔ بھارت نے اس میں بھی اپنی من مانی کی اور مقامات تبدیل کر دیئے، پاکستانی وفد کو اٹاری مدعو کیا گیا اور خود واہگہ آنے کا فیصلہ کیا۔گزشتہ روز اٹاری میں مذاکرات ہوئے اور مشترکہ اعلامیہ نے ان کی کامیابی کا بھی تاثر پیدا کر دیا، اب بھارتی وفد 2اپریل کو واہگہ آئے گا تو مزید بات چیت ہو گی،اور امکان ہے بات آگے بڑھے گی، یقین ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس ملاقات میں باقی امور طے پا جائیں گے اور بابا گورو نانک کے550ویں جنم دن کے موقع پر راہداری کا افتتاح ہو جائے گا۔
خبروں کے مطابق بھارت کی طرف سے اس دودھ میں بھی مینگنیاں ڈالی گئی ہیں اور ایک روز میں پانچ ہزار زائرین کی آمد پر اصرار کیا گیا ہے،جبکہ پاکستان کی طرف سے روزانہ500 سکھ زائرین کے لئے مہمان نوازی کا یقین دلایا گیا ہے، اس کے علاوہ آمدورفت کے طریق کار پر مزید گفتگو بھی ہونی ہے۔امکان ہے کہ اس پر بھی سمجھوتہ ہو ہی جائے گا اور سکھوں کے لئے خوشی کا پیغام دیا جائے گا۔ اس راہداری کے حوالے سے بھارت خبث باطن کا مظاہرہ کرنا نہیں بھولا اور کوریج کے لئے کسی پاکستانی صحافی کو ویزا یا اجازت نہیں دی،جبکہ پاکستان کی طرف کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو تقریب میں بھارتی صحافی مدعو ہوئے، ان کو اسلام آباد کا بھی ویزا دیا گیا اور وہ اپنے اپنے منصب اور پالیسی کے مطابق فرائض انجام دے کر گئے، اس ملاقات اور مذاکرات کو مثبت ضرور قرار دیا گیا اور ہم بھی تائید کریں گے،لیکن مودی حکومت کا رویہ اب بھی معاندانہ ہے، حالانکہ بھارتی صحافی پاکستان آئے اور یہاں کے صحافی بھارت جا کر کوریج کے لئے بے تاب ہیں۔ بھارت اِس راہداری کا کڑوا گھونٹ بھی سکھوں کے لئے پی رہا ہے۔ اگرچہ ان پر یہ واضح ہے کہ فراخدلی کا مظاہرہ پاکستان کی طرف سے ہوا اور وزیراعظم نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے تعاون سے یہ راستہ کھولنے کا فیصلہ کیا اور آئندہ بھی زائرین کو پورا تحفظ اور سہولتیں دی جائیں گی۔بہرحال امن کے حامی عوام خوش اور مطمئن ہوئے کہ سخت کشیدگی کے باوجود بات آگے بڑھی ہے تو دوسرے امور میں بھی بہتری آئے گی کہ جنگ تنازعات کا حل نہیں،اس کے لئے مذاکرات ہی کرنا ہوں گے۔

مزید :

رائے -اداریہ -