پی ٹی وی بحران کا حل (1)
پلوامہ میں بم دھماکے کے بعد بھارت اور پاکستان میں جنگ کا ماحول بنا ہوا ہے، خدا کرے حالات جلد معمول پر آ جائیں، لیکن کئی جنگیں ہمارے اندربھی چل رہی ہیں،مَیں اسی قسم کی ایک جنگ کا ذکر کرنے لگا ہوں،یہ ہے پاکستان ٹیلی وژن کے اندر جنگ،پتہ نہیں اس محاذ پر جنگ بندی کب ہو گی اور کن شرائط پر؟۔۔۔ دونوں فریق کافی طاقتور ہیں، اس لئے فیصلے میں دیر ہو رہی ہے ،لیکن جب بھی اس کشیدگی کا ڈراپ سین ہو گا دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئی صورت حال ادارے کے مفاد میں جائے گی؟ کیونکہ پی ٹی وی کوئی عام ادارہ نہیں، اس کے ساتھ تقریباً پانچ ہزار ملازمین اور کئی ہزار پنشنرزکی زندگی جڑی ہوئی ہے۔ صرف یہی نہیں، یہ ادارہ بڑی دیر تک پاکستان کی پہچان بنا رہا ہے اور اس نے قومی یکجہتی کو مضبوط کیا ہے اور زبان اور کلچر کو فروغ دیا ہے ۔۔۔پاکستان ٹیلی ویژن کے زوال کی کہانی ہمارے مجموعی قومی زوال کا ایک باب ہے اور یہ زوال ہمہ جہت ہے ۔
آج کل تو زیادہ رونا اقتصادی حالات کی سنگینی کا رویا جا رہا ہے، بلاشبہ اقتصادی صورت حال کی اہمیت بہت زیادہ ہے ،لیکن اداروں کے زوال کے ساتھ بھی بہت سی چیزیں جڑی ہوئی ہیں ،لیکن شاید ہمیں اس کا احساس زیادہ نہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کچھ عرصے سے بہت غیریقینی صورت حال سے گزر رہا ہے۔پچھلے دور میں محمد مالک کے بعد کوئی ایم ڈی مقرر نہیں کیاگیا۔ سابق چیئرمین عطاء الحق قاسمی کی کوششوں سے اشتہار دیا گیا ،52 لوگوں نے درخواستیں دیں، اُن میں اطلاعات کے تین سابق سیکرٹری بھی شامل تھے،مگر 52 امیدواروں میں سے کوئی بھی موزوں نہیں پایاگیا، لہٰذا زیادہ عرصہ چارج سیکرٹری اطلاعات سکھیرا صاحب کے پاس رہا۔
اب نئی حکومت بڑے دعوؤں اور جوش و جذبے کے ساتھ آئی ہے اور اسے بھی سات ماہ ہو گئے ہیں، ابھی تک فل ٹائم ایم ڈی کا تقرر نہیں ہو سکا۔ یہی نہیں حالات پہلے سے کہیں زیادہ بگڑ گئے ہیں اور اوپر کے لیول پر ایسی رسہ کشی ہو رہی ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیراعظم عمران خان نے ارشد خان کو چیئرمین مقرر کر دیا، پھر انہیں ایم ڈی کا چارج دلا دیا گیا۔ وہ پہلے دو بار ایم ڈی رہ چکے ہیں۔ ارشد خان ایک مضبوط شخصیت کے مالک ہیں، وہ کافی حد تک پریشر برداشت کر سکتے ہیں اور اِن حالات میں کوئی مضبوط آدمی ہی ڈلیور کر سکتا ہے۔ اخلاقی اور مالی معاملات میں اُن کا دامن صاف ہے، لیکن اُن کے اور وزیر اطلاعات کے درمیان کھلی جنگ ہو رہی ہے۔
یونین نے دفتر پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اُسے وفاقی وزیر کی حمایت حاصل ہے، لہٰذا ایم ڈی صاحب کافی دنوں سے اپنے دفتر نہیں جا پا رہے۔ شنید ہے کہ ایم ڈی کے جھگڑے کے پس منظر میں کچھ مخصوص مفادات پوشیدہ ہیں، ان میں اے ٹی وی کا مستقبل اور پی ٹی وی ہوم کی موجودہ سیٹ اپ سے مجوزہ علیحدگی جیسے معاملات شامل ہیں۔ اے ٹی وی عدم ادائیگی کی بناء پر اس وقت پی ٹی وی نے اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزیر سمیت اردگرد کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ایم ڈی کے کام میں مداخلت نہ کریں، اس کا مطلب ہے کہ عمران خان اپنے دعوؤں کے مطابق چاہتے ہیں کہ ادارے آزادی سے کام کریں، لیکن یہ Transition کوئی آسان کام نہیں۔ عشروں سے حکمرانی کا جو کلچر بن چکا ہے، اُسے بدلنا بہت مشکل ہے اور اس میں وقت لگے گا۔ وزراء اور مشیر جن جائز اور ناجائز ’’فوائد‘‘ کے لئے اپنے آپ کو مستحق سمجھتے ہیں، وہ نئی صورت حال سے کیسے سمجھوتہ کر سکتے ہیں؟ لہٰذا دونوں گروپوں کے درمیان محاذ آرائی کی تفصیلات تو اخبارات اور چینلوں میں آ چکی ہیں، اب اس کا ڈراپ سین بھی بہت جلد ہونے والا ہے ،کیونکہ اس قسم کاتماشہ اور کتنا عرصہ چلے گا ۔
ایسا لگتا ہے کہ شاید وفاقی وزیر فواد چودھری کو ہی پیچھے ہٹنا پڑے۔ تمام پریس کلبوں میں اُن پر پہلے ہی پابندی لگ چکی ہے، گویا وہ اپنی Constituancy یعنی صحافیوں کا اعتمادپہلے ہی کھو چکے ہیں۔ ہائی کورٹ میں موجودہ ایم ڈی کے خلاف رٹ ہو چکی ہے۔ ہائی کورٹ نے معاملات کو سیٹل کرنے کے لئے 7مئی تک کا وقت دے دیا ہے۔ اس دوران ایم ڈی کی سلیکشن کا عمل شروع ہو چکا ہے، 42 لوگوں نے درخواستیں دی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرٹ پر کوئی جینوئن آدمی ایم ڈی لگتا ہے یا کسی کا فرنٹ مین۔ وزیر اطلاعات کی ذاتی خواہشات اور Perception کے علاوہ وزارت اطلاعات بھی ٹیلی ویژن پر اپنا قبضہ نہیں چھوڑنا چاہتی ،کیونکہ اس سے اُس کی قلمرو میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور بہت سارے فوائد اس سے جڑے ہوئے ہیں، کچھ مشیر بھی ان معاملات میں جائز یا ناجائز دلچسپی رکھتے ہیں، اس صورت حال میں نئے ایم ڈی کے سامنے کئی چیلنج ہیں۔
ایک چیلنج ادارے کے مالی حالات ٹھیک کرنا ہے۔ ادارے کو اس وقت تقریباً 6 ارب روپے کی ضرورت ہے اور دوسرا چیلنج وزارت اطلاعات، وفاقی وزیر اور مشیروں کی خواہشات کو پورا کرنا اور ادارے کو ہر لحاظ سے فعال بنانااور اس کا وقار بحال کرنا۔
سرکاری اداروں میں تو قواعد و ضوابط کافی واضح ہیں اور صوابدیدی اختیارات زیادہ نہیں، لیکن نام نہاد خودمختار اور نیم خود مختار اداروں میں چیف ایگزیکٹو کو کافی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، اب یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ ادارے کے مجموعی مفاد کو سامنے رکھے یااپنے مفادات کو آگے بڑھائے۔ پی ٹی وی کی موجودہ صورت حال کے پیچھے ناجائز ترقیوں، غیرضروری بھرتیوں،مالی خوردبرد اور غیراخلاقی سرگرمیوں کی ایک طویل اور افسوسناک داستان پوشیدہ ہے۔ انہی الزامات پر کئی لوگوں کے کیس نیب میں بھی جا چکے ہیں۔ ایک سابق چیئرمین کو تو ہتھکڑیاں بھی لگ چکی ہیں، کئی لوگوں کو ادارہ چھوڑنا پڑا۔خوفِ فسادِ خلق کی وجہ سے غیراخلاقی سرگرمیوں کی تفصیل میں جانا تو ممکن نہیں، لیکن جو کچھ ہوتا رہا اُسے آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس وقت ملازمین بے چینی اور مایوسی کا شکار ہیں ادارے میں اوورسٹافنگ ہے، اگرچہ ارشد خان نے 26 اینکرز کو فارغ کیا ہے، چونکہ پی ٹی وی کے پاس اینکرز کی تعداد غیرمعمولی حد تک زیادہ ہے۔ دوسرا سنگین مسئلہ Redesignation کا ہے۔ اس ہتھیار کو استعمال کرکے بے شمار ڈیزل مکینک، انجینئرز، سٹینو ٹائپسٹ وغیرہ اس وقت اعلیٰ عہدوں پر قابض ہیں، اقربا پروری عروج پر ہے،مَیں ایم ڈی صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ مالی آڈٹ کے علاوہ انتظامی آڈٹ بھی کرائیں اور یہ معلومات پبلک کریں ،تاکہ کچھ چہرے بے نقاب ہوں اور لوگ آئندہ محتاط رہیں مثلاً یہ کہ کس ایم ڈی کے دور میں کتنے لوگ Redesignation کے ذریعے وایابٹھنڈا افسر بنے۔ کتنے لوگوں کی ناجائز ترقیاں ہوئیں، کتنے اینکرز کس دور میں بھرتی ہوئے، کس دور میں ان کی تنخواہوں میں کئی سو گنا اضافے ہوئے؟ (جاری ہے)