سنجیدگی، سکون کی ماں ہے!
حقیقی معنوں میں اچھا وہ ہے جو بدترین حالات میں بھی اوچھا نہیں ہوتا۔ پھر، یہ دنیا ابھی اچھی کہاں ہے! المختصر، یہ دنیا بھی اوطان سے مل کر بنتی ہے اور وطن کوئی ہو، جونہی بدترین حالات میں گھرتا ہے، اپنی بقا کے لئے کچھ بھی کر جاتا ہے۔ مگر، کسی بھی وطن کے لئے بدترین صورتحال جنگ ہوتی ہے۔ پھر، جونہی کوئی ملک جنگ سے دوچار ہوجاتا ہے، وہ بہرطور جیتنا ہی چاہتا ہے۔ جنگ میں ہار کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے خسارہ سے بچ رہنے کی خاطر وطن پھر ہر چارہ برت جاتا ہے۔ یعنی جنگ میں واقعتاً سب جائز ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہر ایسا وار جو دشمن کو دھول چٹا سکتا ہے، جنگ میں الجھے کسی بھی ملک کی انتہائی ضرورت ہوتا ہے، مگر جنگ کو جاری و ساری رکھنا تو اس دنیا کا سب سے محال کام ہے۔
اس دنیا کا ہر دیس پھر حتیٰ الامکان کوشش یہی کرتا ہے کہ وہ جنگ سے ہر ممکن بچتا ہی جائے اور کہیں کوئی جنگ میں پھنس ہی جائے، تو پھر وہ ملک دن رات یہی سعی کرتا ہے کہ جلد از جلد فاتح ہو جائے۔۔۔ اور، اول تو جنگ کی نوبت ہی نہ آئے، ہر ملک بس یہی چاہتا ہے۔۔۔ طاقتور ترین ممالک بھی یہی چاہتے ہیں کہ اپنے کم سے کم سپاہیوں کی موت کے عوض ہی زیادہ سے زیادہ فوائد ہتھیاتے جائیں۔ اپنے بچے مروانے کا یارا جمہوریت میں بالخصوص زیادہ نہیں ہوتا کہ جمہوری راج میں مائیں پھر سوال بہت کرتی ہیں۔ میڈیا کی زبانی وہ پوچھتی جاتی ہیں کہ ہمارے لخت ہائے جگر جس راہ میں قربان ہوتے جاتے ہیں، اس راستہ کی منزل واقعی اتنی اعلیٰ ہے نا کہ جس کی خاطر انمول انسانی حیات بھی بے دریغ لٹائی جاسکتی ہیں؟؟؟ تو سیاسی قائدین بہرصورت اپنی قوم کے سامنے جنگ کا معقول جواز پیش کرنے کے پابند رہتے ہیں گویا۔
جنگ کا معقول ترین جواز ہوتا ہے پھر در پیش خطرہ۔ اور، کسی بھی ملک کو حقیقی خطرہ لاحق ہو جائے، کوئی اس پر حملہ آور ہو جائے تو اس وطن کا بچہ بچہ مادر وطن کے دفاع کے لئے دل و جان سے تیار ہوسکتا ہے۔ بے شک انسان جانتا ہے کہ اپنا دفاع تو اس کا اٹل حق ہے۔۔۔ ہاں مگر، جو ملک حملہ آور ہوتا ہے، اس کا بچہ بچہ بھی جنگ پر ایسا ہی بے دار و تیار ہو، یہ لازم نہیں۔ جارح ملک میں کئی آوازیں اٹھ سکتی ہیں جو عسکری حملہ جیسی انتہائی حکمت عملی اختیار کرنے کی وجہ آخر کیا ہے، جیسے انتہائی اہم سوال زور و شور سے اٹھا سکتی ہیں!! اور، ایسے سوالات سے بچنے کی خاطر بھی ہر جارح پہلے اپنے ہدف کو بلا کا بدنام کرتا ہے اور پھر وہی اس پر اپنے زبردست ہتھیار آزماتا ہے۔
باقاعدہ حملہ مگر وہی وطن کرتا ہے جو بہرحال کہیں طاقتور ہوتا ہے۔ البتہ اپنا ہر ممکن بچاؤ تو کمزور ترین ملک بھی اپنی طرف سے لازمی کرتا ہے، لیکن وہ حملہ کرنے والا ہو یا دفاع کرنے والا، جنگ زدہ ملک اپنے دشمن کے خلاف پھر کوئی بھی چال چل سکتا ہے۔ وہ عسکری اعتبار سے طاقتور ترین ہو، تو پھر حریف کی سرحدوں پر ہی کیا، اس کے شہروں پر بھی بم برسا سکتا ہے، ایٹم بم تک گرا سکتا ہے۔ قصہ مختصر، وطن ایک اپنی خاطر کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اوچھا ترین وار بھی۔۔۔ پھر، جیسے کبھی امریکہ نے ایک جاپان کو جھکانے کے لئے اس کے دو شہروں کو شہریوں سمیت جلا کے راکھ کر دیا تھا۔
اور یہیں ایک بڑا مسئلہ رہتا ہے۔ دراصل انسان آج بھی زیادہ تر اور کہیں زیادہ توجہ سے، اپنے اصل حکمران ہی سے سیکھتا ہے۔ عام آدمی خاص اپنے حکمران سے سیکھتا ہے اور دنیا بھر کے حکمران اپنی اپنی جگہ پھر بخوبی جانتے ہیں کہ اس دنیا میں درپردہ حکمرانی مگر قوت عظمیٰ یا سپر پاور ہی کی رہتی ہے۔ جسے اردو میں پھر طاقت عالیہ، وغیرہ بھی کہا جاسکتا ہے۔۔۔ خیر، دنیا کے سب حکمران کہیں نہ کہیں سپر پاور کے انداز و اطوار سے شدید متاثر ہوتے ہیں اور خود سے کمزوروں کے ساتھ پھر حتیٰ الامکان ویسا ہی برتاؤ کرتے ہیں جیسا وہ سپر پاور کا ریاستوں کے ساتھ رویہ دیکھا کرتے ہیں اور سپر پاور کا رویہ باقی دنیا کے باب میں بیشتر اوقات جارحانہ ہوتا ہے، منصفانہ نہیں۔ ہاں یہ ایک بڑا ہی مسئلہ ہے۔
پھر المختصر، گزرتی ہر صدی کے ساتھ جہان انسانی میں رواں اپنے عہد کی، سپر پاور جتنی سنجیدہ اور انصاف پسند اور انسان دوست ہوتی جائے گی، یہ دنیا اتنی ہی بہتر ہوتی جائے گی۔۔۔ گو ابھی کافی وقت لگے گا اور شاید بہت خون بھی مزید بہہ جائے گا۔۔۔ گوناگوں نظریات و عقائد میں تقسیم در تقسیم انسانی دنیا مگر سنبھلتی سنبھلتی بالآخر سنبھل جائے گی۔ اور جیسے ہزاروں قبائل میں بٹی نسل انسانی محض پانچ چھ ہزار سال میں صرف دو سو اقوام تک آپہنچی گئی ہے۔ وہ وقت بھی آئے گا پھر جب فکری الجھنیں اور بھی چھٹتی جائیں گی اور نسل انسانی باہم قریب تر ہوتی جائے گی۔ اس دنیا کا مستقبل بہرطور بڑا روشن ہے۔ تو پھر، ہمیں بھی اپنی تمام توجہ اپنی دھرتی کی تعمیر و ترقی ہی پر مرکوز کر دینی چاہئے کہ اس بدلتی جاتی دنیا میں مسلسل بہتری لانے کے عظیم ترین عمل میں، ہماری ذہین و محنتی نسلیں بھی تو اپنا کردار، زیادہ سے زیادہ ادا کر جانے کی فضا خوب ہی پایا کریں۔ مگر، اپنی آئندہ نسلوں کو وہ ماحول دینا کہ جس میں وہ اپنے بہترین امکانات کو تمام ہی روشن و اجاگر کرسکیں، یہ تو ہمارا کام ہے۔ یہی تو ہمارا کام، بڑا کام، بے شک بڑا ہی کامٍ!