نا اہل دشمن
پاکستان اور ہندوستان کو علیحدہ ہو ئے70 برس سے زائد تو بیت گئے لیکن انکے درمیان کی کشیدگی جس میں اتار چڑھاؤ تو آئے لیکن کبھی ختم نہیں ہوئی۔پاک بھارت کشیدہ تعلقات دنیا بھر میں مشہور ہیں۔آپس میں ہمسایہ ممالک ہونے کے باوجود بھی دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ اور خفا ہیں ۔دونوں کو ایک دوسرے سے آزادی تو ملی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ مسائل بھی ورثے میں ملے جو آزادی کے دن سے اب تک طلب حل کے منتظر ہیں ۔بھارت نے پاکستان کو کبھی علیحدہ ریاست قبول کیا ہی نہیں۔جس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب پاکستان ہندوستان سے الگ ہوا اور پاکستان کے پہلے گورنر قائد اعظم محمد علی جناح کراچی آئے تو اس وقت ملک کے خزانے میں کچھ بھی نہیں تھا ، اصل خزانہ تو ریزرو بینک آف انڈیا میں تھا۔ جس میں سے پاکستان کو64کڑوڑ اثاثے کے طور پر ملنے تھے ، لیکن اس میں سے صرف 24کروڑ دیاگیا اور وہ بھی قسطوں پر دیا گیا اور باقی یہ کہہ کر دینے سے انکار کر دیا کہ اس روپے سے پاکستان اسلحہ خرید کر بھارت سے جنگ کرے گا۔ یہ تو تھی ابتدائی مسائل کی ایک چھوٹی سی جھلک لیکن ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ آزادجموں کشمیر ہے۔
کشمیر جس کا 43فیصدانڈیا کے پاس ہے، 37 فیصد پاکستان کے پاس ہے اور بقایا 20فیصد چین کے پاس ہے جو 1962 میں چین اور بھارت کی جنگ کے بعد چین کے حصہ میں آگیا۔کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے جس کا فیصلہ اقوام متحدہ پر چھوڑا گیا ہے جو کہ اب تک جوں کا توں ہی ہے۔اس وجہ سے کئی مظلوم کشمیری بھارتی افواج کی جارحیت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔کئی لوگ مارے گئے ،کئی نے اپنے جسمانی اعضاء کو گنوایا اور کئی اب تک زخمی حالتوں میں مبتلا ہیں۔آزاد جموں کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو تاریخ میں سرفہرست رکھا جائے گا۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کبھی کم ہی نہیں ہوئی تھی لیکن موجودہ دور میں بڑھتی کشیدگی کی وجہ بنا پلوامہ میں ہونے والا حملہ۔جس میں 9 افراد سمیت40 بھارتی فوجی جاں بحق ہوئے۔جس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا گیا۔بھارت ہمیشہ سے ہی کشیدگی میں پہل کی وجہ رہا ہے۔جس کا اندازہ ہم پلوامہ میں ہونے والے حملہ کے ردعمل سے لے سکتے ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ بھارت کی انتہاپسند اور نااہل سیاسی قیادت کا روز مرہ کا معمور ہے۔ ایسے اشتعال انگیز بیانا ت کو جاری کرنا۔ بھارت نے راتوں رات پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی ۔ جو کہ کوئی بھی آزاد ریاست برداشت نہیں کر سکتی ۔ اس لئے پاکستان کی جانب سے بارڈر سے جوابی کاروائی کی گئی۔یہ کشیدگی صرف دونوں ممالک کی سرحدوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا تعاقب دونوں جانب کے شہریوں پر بھی ہو رہا ہے۔
اڑتی گولیوں اور برستے بموں کے درمیان بھی پاکستان امن چاہتا ہے۔ اور اسی وجہ پاکستان نے جینیوا کنوینشن کے تحت بھارتی پائلٹ کو اس کے ملک کی جانب روانہ کیااور امن کی بھرپور کوشش کی۔ امن کی اس پیشکش کو دشمن ملک پاکستان کی کمزوری سمجھ بیٹھا ہے ۔ لیکن شاید وہ نااہل اور دشمن ملک جو جنگ کے نعرے لگا رہا ہے وہ اس بات کا اندازہ لگانے سے محروم ہے کہ یہ دونوں ممالک ہی ایٹمی قوتیں ہیں۔جن کے درمیان جنگ یا فوجی تصادم ایک ایسی تباہی لاسکتا ہے جس سے سب سے زیادہ نقصان ہندوستان کو ہی ہوگا ۔ لیکن یہ بات نہ مودی سرکار کو سمجھ آتی ہے اور نہ ہی بھارتی میڈیا کوجو اپنی نااہل سرکار کی بناء پہ جنگ کا مکمل ماحول تیار کئے بیٹھا رہا۔
اس تمام صورتحال میں امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کا جو پاکستا ن کے لئے مثبت ردعمل سامنے آیا ہے خواہ وہ کسی بھی مقصد سے ہو اس سے اندازہ یہ ہوا کہ پاکستان اب اکیلا نہیں اور اس کے ترقی کی جانب بڑھتے قدم اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ پاکستان امن اور ترقی چاہتا ہے۔ اور اب مزید اس وقت پاکستانی سیاسی قیادت کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے پہ تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں یکجا ہوکر مودی سرکا ر کے ناپاک ارادوں کا نیست ونابود کریں۔اور اپنے ایٹمی سسٹم کو مزید مستحکم بنائیں تا کہ اگر اب بھی انڈیا باز نہ آیا تو پاکستان اس بار اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کا بدلہ بھی لے ڈالے گا اور انڈیا کی اس بربادی کا ذمہ دار نریندر مودی ہوگا جس کے ہاتھ کئی بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔