عوام کی حالت؟ ای او بی آئی کرپشن اور پنشنروں کی حالت زار!
گھر سے دفتر کے لئے تیار ہو کر معمول کے مطابق دفتر کے لئے روانہ ہوا، بس پر جانا تھا کہ بچے صبح صبح اپنے اپنے کام کاج پر روانہ ہو گئے تھے، یہ معمول ہے کہ صاحبزادے عاصم چودھری کی روانگی سے وقت ملتاہو تو وہ دفتر چھوڑ کر جاتا ہے ورنہ سفر سپیڈو بس سے ہوتا ہے۔ گھر سے قرطبہ چوک اور وہاں سے دوسرے روٹ کی بس سے دفتر تک پہنچتا ہوں۔ آج یہ معمول برقرار نہ رہ سکا کہ پہلے تو بس سٹاپ تک کے لئے رکشا ملا نہ ہی کسی بھلے لوگ نے لفٹ دی۔ اس اثناء میں ایک باخبر شخص نے اطلاع دی کہ جیل روڈ اور مال روڈ متاثرہ سڑکیں ہیں ان پر ٹریفک معطل یا جام رہتی ہے، اس لئے بس کا سفر دشوار ہو گیا، دفتر کے ساتھی سے فون پر بات کی حالات کا جائزہ لیا اور طے کیا کہ آج گھر سے ہی کام کر لیا جائے، یہ کالم بھی گھر سے لکھا جا رہا ہے۔
بنتا تو یہ ہے کہ گھنٹوں سے جاری پولیس اور تحریک انصاف کی کشمکش کے حوالے سے کچھ کہا جائے لیکن تادم تحریر اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔ منگل کی دوپہر سے توشہ خانہ کیس میں جاری عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی تعمیل میں اسلام آباد اور لاہور پولیس کی مشترکہ کاوش بار آور نہیں ہو پائی کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے پولیس کو ایسا کرنے نہیں دیا اور اب تک بھی مزاحمت جاری ہے۔ اس عرصہ میں نقصان بہت ہو چکا، سب سے زیادہ متاثر زمان پارک،وائٹ ہاؤس لین اور اپر مال سکیم کے مکین ہیں جن کے گھروں میں آنسو گیس گھس گئی، کئی گھرانے رات سو نہ سکے اور متعدد لوگ رشتہ داروں کے گھر چلے گئے، اب تک نہ تو پولیس عمران خان کو گرفتار کر سکی اور نہ ہی خود انہوں نے گرفتاری دی اور خدشہ ظاہر کیا کہ ان کو اغوا کرکے قتل کرنے کے لندن پلان عمل کا منصوبہ ہے۔ پولیس ابھی تک مصروف عمل ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے وکلاء اسلام آباد ہائی کورٹ کے علاوہ لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر چکے کہ ریلیف مل جائے ایک ہی مسئلہ پر وفاقی اور صوبائی ہائی کورٹوں سے رجوع کرنے کی سعادت بھی عمران خان ہی کے حصے میں آتی ہے کہ وہ کوئی عام آدمی نہیں ہیں اگرچہ وہ خود دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک میں دو نظام ہیں، ایک طاقتور اور بااثر حضرات کے لئے اور ایک عام آدمی کے لئے، اگرچہ آئین 1973ء کے تحت سب شہری برابر ہیں، مجبوری ہے کہ جب تک حالات کسی نہج پر نہیں پہنچتے کوئی رائے دینا مشکل ہے۔
دعا ہے کہ حالات مزید کسی نقصان کے بغیر سدھر جائیں، اللہ ہی سے یہ بھی استدعا ہے کہ وہ ہمارے ان سب رہنماؤں کو صراط مستقیم دکھادے اور یہ تنازعات چھوڑ کر سر جوڑیں اور ملک کی معاشی مشکلات ختم کریں یہ آسان اور ممکن ہے، ان سطور کے ذریعے پہلے بھی عرض کیا تھا، احتساب جیسے امور کو تحقیقاتی اداروں اور عدالتوں کے لئے رہنے دیا جائے اور تمام تر تحفظات کے باوجود ملک کو معاشی اور اقتصادی مشکلات سے نکالنے کے لئے سرجوڑ لیں۔
اس مسئلے کو یہیں چھوڑتے ہیں جو ہوگا اس بارے میں میڈیا (الیکٹرونک) سے علم ہو ہی جائے گا، یاد آیا کسی دور میں کہا جاتا تھا اگر میڈیا والے یکطرفہ طور پر فیصلہ کرکے تنازعات اور الزامات والے بیانات تقریروں اور واقعات کی تشہیر چھوڑ دیں تو انتشار نہ ہو، اب بھی یہ کہاتو جاتا ہے لیکن ممکن نہیں کہ الیکٹرونک میڈیا سے زیادہ تیز اور سمارٹ سوشل میڈیا ہے۔
قارئین! دیر بعد پھر ایک اہم ترین مسئلہ کی بات کر لیتے ہیں، اس کا تعلق قریباً چار سے پانچ لاکھ بوڑھوں،معمر افراد سے ہے اور ان کی اپنی کمائی لٹ جاتی ہے۔ یہ خیال اس لئے آیا کہ عدالت عظمیٰ کے روبرو ای او بی آئی (ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹ انسٹی ٹیوشن) کا کیس لگا اور عدالت نے کرپشن کے حوالے سے ناراضی اور برہمی کا اظہار کیا اور اب اس ادارے کے چیئرمین کو ذاتی حیثیت سے طلب کیا ہے، معاملہ ان سینکڑوں ملازمین کی برطرفی اور بحالی کے ایشو سے ہے جن کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا۔ وہ برطرف کئے گئے تو عوامی نمائندوں نے ان کی بحالی کے لئے کہہ دیا، یہ جو محکمہ ہے، اسے بھی بعض دیگرعوامی محکموں کی طرح منفعت کا ذریعہ بنا لیا گیا اور آجر و مزدور کی خون پسینے کی کمائی پر لوٹنے والے بٹھا دیئے جاتے ہیں، یہ ادارہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنایا گیا اس کے مقاصد میں ان محنت کشوں کی بہبود شامل ہے جو اپنی عمر عزیز کا حصہ کسی صنعت یا ملکی ادارے کی ترقی میں گزار کر ریٹائر ہو جاتے ہیں، حکومت نے ان کی باقی ماندہ عمر کے لئے وظیفے کا طریقہ وضع کیا، قواعد اور قانون کے مطابق ایک مخصوص تعداد میں کارکنوں کے حامل صنعتی اور کاروباری اداروں کے لئے رجسٹریشن کا طریق وضع کیا گیا، اس کے لئے یہ قاعدہ طے ہوا کہ مزدور ایک خاص تناسب سے ماہانہ رقم کٹوائیں گے، دوسرے تناسب سے آجر حصہ ڈالے گا اور تیسرا حصہ حکومت دے گی،اس کے انتظام کے لئے ای او بی آئی کے نام سے ادارہ بنایا گیا، اس ادارے کی ذمہ داری یہ ہے کہ رجسٹرڈ اداروں سے مطلوبہ حصہ وصول کرے، حکومت سے بھی حصہ (گرانٹ والا) حاصل کرے اور مجموعی رقم کو ان ملازمین کو پنشن کے طور پر دے جو رجسٹرڈ اداروں کے رجسٹرڈ ملازم ہوں اور ریٹائر ہو جائیں، یہ پنشن ان ریٹائرڈ معمر حضرات کے لئے ہے۔ ابتدا ایک ہزار روپے ماہوار سے ہوئی اور بمشکل ساڑھے آٹھ ہزار روپے ماہوار تک پہنچی ہے حالانکہ چار پانچ سال قبل وفاقی حکومت کی سطح پر فیصلہ ہوا اور نوٹیفکیشن جاری کیا گیا کہ پنشن اس رقم کے برابر ہو گی جو حکومت مزدور کی کم از کم اجرت کے طور پر طے کرکے اعلان کرے گی 2019ء کا یہ فیصلہ موجود ہے آج تک عمل نہیں ہوا۔
بھٹو دور سے اب تک اس ادارے کے پاس اربوں روپے جمع ہوئے، بورڈ والوں نے رقوم کی سرمایہ کاری بھی کی اور اربوں روپے غبن ہوئے، گرفتاریاں اور ضمانتیں بھی ہوئیں، اب بھی عدالت عظمیٰ کرپشن کے حوالے سے برہم ہے، قارئین! عجیب طریقہ ہے کہ آجر اور مزدور کی رقم امانت ہے اس میں خیانت ہی نہیں ہوتی۔ یہ محکمہ منفعت والی ملازمتوں کا ذریعہ بھی بن گیا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز اس پر چیئرمین، کئی شعبے اور ان کے جنرل منیجرز (یہ سب بڑی بڑی تنخواہوں والے ہیں) پھر ضلعی حکام اور عملہ ان سب کے سکیل بھی سرکاری ہیں۔ یوں اربوں روپے کہاں سے آتے اور کیسے خورد برد ہوتے ہیں، عوام کو ہوا نہیں لگنے دی جاتی ایک سابق چیئرمین صاحب اربوں کی خورد برد پر گرفتار ہوئے۔ جیل رہے اور پھر عدالت عظمیٰ سے ضمانت حاصل کرکے خاموشی سے گم ہو گئے۔ کوئی ریکوری اور برآمدگی نہ ہوئی۔ اب عدالت عظمیٰ خود محسوس کر چکی کہ کرپشن ہے اور یہ سب مزدور اور آجر کی مشترکہ رقم سے ہے۔ معمر حضرات اس شدید مہنگائی کے دور میں ساڑھے آٹھ ہزار روپے ماہوار پر گزر کرنے کے لئے مجبور ہیں، ضرورت اس ادارے کے مکمل آڈٹ، مکمل چھان بین اور وصولی کی ہے اور اس نوٹیفکیشن پر عمل کرانا بھی لازم ہے جس کے مطابق پنشنر کو مزدور کی کم از کم اجرت کے مطابق پنشن ملنا چاہیے، کیا یہ بہتر نہ ہوگاکہ یہ ادارہ ختم کرکے نظام / انتظام اخوت کو دے دیا جائے۔اس طرح بڑی بڑی تنخواہوں کی بچت ہو جائے گی۔