لندن میں موجود ایم کیو ایم کی قیادت برطانوی میڈیا اور پولیس کے سوالوں کے نشانے پر
باقی سارے معاملات ایک طرف،منی لانڈرنگ کیس میں ایم کیو ایم پھنس جائے گی
لندن (مانیٹرنگ ڈیسک )ایم کیو ایم برطانوی میڈیا اور پولیس کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے ۔بی بی سی کے نامہ نگار ر اوون جونز کا ایم کیو ایم کے خلاف تحقیقات پر خصوصی مضمون شائع ہو اہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ اس بات کا امکان انتہائی کم ہیں کہ برطانیہ میں ایم کیو ایم کی قیادت یا الطاف حسین کو ان مبینہ دھمکیوں کے حوالے سے کوئی سزا ہو جو الطاف حسین نے تقاریر کی صورت میں تھیں ۔جونز کی تحقیقات یہ بھی کہتی ہیں کہ عمران فاروق قتل کی تحقیقات بھی ایک خاصی مقام تک آکر رک گئی ہیں اور اب گیند پاکستانی ایجنسیز کی کورٹ میں ہے تیسرا اہم معاملہ ٹیکس چوری کا ہے جس پر برطانیہ میں موجود ایم کیو ایم کی قیادت کیخلاف تحقیقات ہو رہی ہیں۔جونز کا خیال ہے کہ اس معاملے میں بھی کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو گی۔منی لانڈرنگ کے حوالے سے جونز کا خیال ہے کہ کوئی بریک تھرو ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب برطانوی حکام کی تحقیقات کا زاویہ یہ بھی ہے کہ الطاف حسین نے اپنے خطابات میں بوریوں کا ذکر کیا جبکہ قانونی سوال یہ ہے کہ کیا اپنی تقریروں کے ذریعے الطاف اپنے کارکنان کو مخالفین کیخلاف انتہائی اقدام پر اکسارہے ہیں ۔ اوون جونز اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ برطانوی حکام کیلئے مشکل یہ ہے کہ ایم کیو ایم کیخلاف کسی کاروائی کا نتیجہ کراچی میں پر تشدد مظاہروں کی شکل میں نکلے گا اور اگر جیوری نے یہ کیس خارج کر دیا تو یہ بہت شرمند گی کا باعث ہوگا۔ جونز کہتے ہیں کہ اس مقدمے کا نتیجہ مشکوک ہی ہو گا کیونکہ استغاثہ اس مواد پرانحصار کرے گا جس کا ترجمہ اردو سے انگریزی میں کیا گیا ہے۔ جبکہ دفاع الطاف حسین کے الفاظ معنی پر ایسے شکوک کا اظہار کرے گا کہ کیس کا نتیجہ غیر یقینی ہو جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ دھمکیوں والے کیس میں زیادہ جان نہیں۔ اوون جونز آگے چل کر کہتے ہیں کہ عمران فاروق قتل کیس کی صورتحال یہ ہے کہ اگرچہ اس کیس کے حولے سے الطاف حسین کے بھتیجے سے تفتیش کی جارہی ہے لیکن تکنیکی اعتبار سے یہ تفتیش ایم کیو ایم کے حولے سے نہیں۔ برطانوی اور پاکستانی حکام کو قتل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے مکمل ادراک ہے کہ یہ قتل کیس کے حکم پر اور کس طرح کیا گیا۔ دوسری جانب کیس کے دو اہم ملزمان محسن علی سید اور کاشف خان اس وقت پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی غیر قانونی تحویل میں ہیں اور برطانیہ کو ملزمان تک رسائی کیلئے پاکستان کو پہلے دونوں کی گرفتاری ظاہر کرنا ہو گی ۔ اس میں یہ مسئلہ ہے کہ ایم کیو ایم ذرائع کا یہ بھی اعتراف ہے کہ ٹیکس چوری کیس میں ایم کیو ایم کیلئے کوئی اہم مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے. ذرائع نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ پارٹی نے برطانیہ میں کبھی کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا اور اس میں استغاثہ کوئی کامیابی مل سکتی ہے. لیکن ایم کیو ایم کو ایم آئی سکس کی حمایت کے پیش نظر یقین ہے کہ اس سلسلے میں کبھی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔ اور کئی سالوں سے ایسا ہوا بھی نہیں ۔ایم کیو ایم ٹیکس چوری کیس میں کسی انتہائی قدم سے بھی پریشان نہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ جرمانہ ہی عائد کیا جائے گااور ایم کیو ایم اپنی بڑی جیبوں کے باعث اس مسئلے سے آسانی سے نمٹ لے گی۔ یعنی ایم کیو ایم کے ان معاملات کے کسی مصیبت میں پھنسنے کے امکان کم ہی ہیں۔چوتھی تحقیقات یعنی منی لانڈرنگ کے بارے میں اوون جونز لکھتے ہیں کہ لندن میں ایم کیو ایم کی متعدد جائیدادیں اور بھاری بینک اکاؤنٹ موجود ہیں اور قابل ادراک ذرائع آمدن نہ ہونے کے با وجود الطاف حسین لندن میں انتہائی آرام دہ طرز زندگی اپنائے ہوئے ہیں۔ایم کیو ایم کے لئے مشکل یہ ہے کہ منی لانڈرنگ کے ملزمان کو برطانوی قوانین کے مطابق یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ فنڈز کہاں سے آئے اور اس معاملے پر استغاثہ کی بجائے دفاع کو مشکلات پیش آتی ہیں اور اب ایم کیو ایم نے کراچی کے کئی کاروباری افراد سے درخواست کی ہے کہ وہ ایسے مراسلے مہیا کریں کہ انہوں نے پارٹی کو رضاکارانہ طور پر فنڈز مہیا کیے ہیں ۔اس کوشش سے تفتیش میں تاخیر توہو سکتی ہے لیکن اسے ختم نہیں کیا جا سکتا اوون کہتے ہیں کہ مراسلوں کے جائزہ سے ثابت ہو جائے گا کہ یہ مراسلے قابل یقین نہیں ۔ یہاں یہ با ت قابل ذکر ہے کہ برطانیہ منی لانڈرنگ پر سخت سزائیں دیتا ہے یعنی ایم کیو ایم کو منی لانڈرنگ پرپریشان ہونے کی ضرورت ہے جونز کہتے ہیں کہ آخر کار مشہور مافیاڈان ایل کپون کو بھی ان جرائم کی سزا نہیں ہوئی جو اس نے کیے تھے بلکہ بینک اکاؤنٹس میں بے ضابطگیاں اسے لے ڈوبی تھیں ۔