یہ کس نے ہم سے پھر لہو کا خراج مانگا؟
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے
ارضِ پاک کے امن و امان اور خوشحالی کی دستک کو پھر کسی خبیث کی نظر لگ گئی ہے۔سانحہ کراچی پر پوری قوم سوگوار ہے۔ زخم جب تواتر سے لگتے ہیں تو قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے اورحساسیت کم ہوجاتی ہے، لیکن چوٹ عرصے بعد لگے تو درد شدت سے محسوس ہوتا ہے، پاکستان ان حالات سے گزر چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب روزانہ دھماکے ہونا معمول بن گیا تھا۔ اس کو بے حسی کہئے یا برداشت کہ پاکستانی میڈیا اور عوام بے پرواہ ہو گئے تھے۔ دھماکے کی خبر ایک دن چلتی تھی، اس پر بحث ہوتی اور اس کے بعد غائب۔ عوام بھی دہشت گردی کو معمول سمجھ کر روز مرہ زندگی میں مگن ہو جاتے تھے۔ زخموں کی تکلیف صرف متاثرین تک محدود ہو کر رہ گئی تھی، لیکن موجودہ عسکری و سیاسی قیادت کی بہتر حکمتِ عملی کی بدولت پاکستانی دوبارہ امن و امان کی اہمیت سے واقف ہو گئے ہیں اور ان کی حِسوں نے پھر سے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب جب کبھی بوکھلائے ہوئے دشمن کی طرف سے اس طرح کی بزدلانہ کارروائی کی جاتی ہے تو اس کا بہت دُکھ ہوتا ہے، بہت تکلیف ہوتی ہے، اعصاب اس زخم کو برداشت نہیں کرتے، کیونکہ قومی وجود دوبارہ امن کے ذائقے سے آشنا ہو چکا ہے۔ ستر ہزار قربانیوں کے بعد پوری قوم امن و امان کی بہتر ہوتی صورتِ حال پر مطمئن اور پُرعزم ہے۔ موجودہ عسکری قیادت اس ناسور کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دے گی اور انشا اللہ ایسا جلد ہو جائے گا۔
بدقسمتی سے پاکستان جب بھی کبھی مثبت سمت میں سفر کرنے لگتا ہے، کمینہ دشمن بزدلانہ وار کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلا دیتا ہے۔ اس بار دشمن کی بوکھلاہٹ صاف نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کی بہتر ہوتی ہوئی اکانومی، امن و امان کی صورتِ حال اور وسیع متوقع بیرونی سرمایہ کاری نے دشمن کو پاگل کر دیا ہے اور وہ قومی منصوبوں کو ناکام کرنے کے لئے اس طرح کی بزدلانہ کارروائیاں کررہا ہے۔ دشمن نے بدھ کے روز ایک بار پھر کراچی کو خون میں نہلا دیا۔ اس بار معصوم، نہتے، ایماندار اور محب وطن اسماعیلی بھائیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ کون لوگ تھے اور کہاں سے آئے، اس کے متعلق کچھ کہنا تو قبل از وقت ہے، لیکن یہ دہشت گرد سانحہ کی جگہ پر کچھ پمفلٹ چھوڑ گئے ۔ ان پمفلٹس کے مطابق دہشت گرد اس بزدلانہ کارروائی کا اقرار کرتے ہوئے خود کو دولتِ اسلامیہ سے سے منسلک کرتے ہیں اور اس طرح کی مزید کارروائیوں کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ اس پمفلٹ میں دہشت گرد اس حملے کی جو وجوہات بیان کر رہے ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ ان کے مذموم مقاصد میں سے ایک مقصدملک کے اندر فرقہ وارانہ جذبات کو فروغ دے کر پاکستانیوں کو آپس میں لڑانا اور عدم استحکام پیدا کرنابھی ہے۔
چند سوال فوری طور پر ذہن میں ابھرتے ہیں۔ کیا یہ کارروائی واقعی نام نہاد دولتِ اسلامیہ فی عراق و شام، یعنی داعش کی طرف سے کی گئی ہے؟ یا پھر یہ کارروائی بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی طرف سے پاک چائنا اکنامک کوریڈور کو ناکام کرنے کی پہلی کوشش ہے؟پچھلے چند مہینوں میں مُلک کے کئی شہروں سے خبریں آتی رہی ہیں کہ وہاں داعش سرگرم ہے اور کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں آئی تھیں، لیکن قومی ادارے کھلم کھلا تصدیق نہیں کر رہے تھے کہ پاکستان کے اندر داعش نے قدم جما لئے ہیں اور وہ کوئی اتنی بڑی کارروائی کر سکتی ہے؟
درندگی اور سفاکی کا یہ مظاہرہ اگر داعش کی طرف سے کیا گیا ہے ،تو یہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے لئے ایک اور بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہمارے دفاعی ادارے ابھی تک طالبان کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکے، داعش کی یہاں موجودگی سے صورتِ حال مزید گھمبیر ہوجائے گی۔ میری ذاتی رائے کے مطابق داعش فی الحال پاکستان کے اندر اس نوعیت کی کارروائیاں کرنے کے قابل نہیں ہے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سی آئی اے، موساد اور را داعش کو پاکستان میں منظم کرنے کے لئے بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاک چائنا اکنامک کوریڈور کے معاہدے سے بھارت بوکھلا گیا ہے۔ وہ اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے سے روکنے کے لئے تمام حربے استعمال کرے گا۔ اس مقصد کے لئے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ’’را‘‘ کا ایک خفیہ شعبہ قائم کر دیا ہے اور اس کو30 کروڑ ڈالر کے فنڈز بھی فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ اس شعبے کا مقصد صرف پاک چائنا اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بھارت کی طرف سے مکتی باہنی کے بعد یہ پاکستان کے خلاف سب سے بڑا منصوبہ ہے، لہٰذا اس بات کے سب سے زیادہ امکانات ہیں کہ کراچی کا سانحہ ’’را‘‘ کی طرف سے مینوفیکچر کیا گیا ہے تاکہ پاکستان کے اندر فرقہ واریت پر مبنی عدم استحکام پیدا کر کے راہداری منصوبے کو ناکام بنایا جائے۔
اس واقعہ نے سندھ حکومت کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشان چھوڑے ہیں۔ قائم علی شاہ گزشتہ سات سال سے سندھ کے وزیراعلیٰ ہیں، لیکن ان کی کارکردگی صفر ہے۔ سندھ کے حکمرانوں کی ساری ترجیحات صرف پارٹی سیاست تک محدود ہیں، صوبائی اور قومی مفادات کسی کو یاد نہیں۔ سندھ میں کرپشن، رشوت اقرباء پروری اور بد امنی کا راج ہے۔ وفاقی حکومت اور دفاعی ادارے جتنی مرضی کوششیں کر لیں، سندھ حکومت کی عملی شمولیت کے بغیر سندھ میں امن و امان کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔