وی آئی پی کلچر اور عوامی ذمہ داری
چند دن قبل ایک عزیز دوست نے فیس بک پر ایک پوسٹ کی جس میں سابق چیرمین سینٹ نیر بخاری کی جانب سے ایک سیکیورٹی اہلکار کو تھپڑ رسید کرنے کا ذکر تھا۔ مذکورہ خبر میرے لیے اتنی حیرت انگیز تھی کہ قلم کی جنبش اس واقعہ کا احاطہ کرنے کو بے تاب ہو گئی ۔آپ کو یاد ہو گا کچھ عرصہ قبل چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی شاہی سواری پروٹوکول کے سائبان تلے اک ہسپتال کی جانب رواں دواں تھی جہاں انہوں نے ٹراما سینٹر کا افتتاح کرنا تھا تو راستوں کی بندش کے سبب ایک معصوم پری بسمہ مجبور و بے کس باپ کے ہاتھوں ہی میں دم توڑ گئی تھی ۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی اور ہر طبقہ فکر کی جانب سے مذمتی بیانات کا سلسلہ بام عروج کو پہنچ گیا اور میڈیا بھی وی آئی پی کلچر کی قباحتوں کو اجاگر کرنے میں پیش پیش تھا۔ تب یوں دکھائی دینے لگا جیسے عوام وی آئی پی کلچر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں لیکن جونہی اس ننھی کلی کی تدفین کا مرحلہ طے پایاتو میڈیا کے ساتھ ساتھ قوم بھی گونا گوں مسائل کی بازگشت میں اس واقعہ کو بھول گئی ۔اب جبکہ سابق چیرمین سینٹ کے تھپڑ کی بازگشت ملک کے طول و عرض میں سنی جا رہی ہے تو میں یہ بات کہنے میں معمولی سی عار بھی نہیں سمجھتا کہ نیر بخاری کی جانب سے یا اس کے کسی حواری کی طرف سے فرض شناس سکیورٹی اہلکار کو رسید کیا جانے والا تھپڑ درحقیقت پورے نظام کے منہ پر اک طمانچہ ہے۔اگرچہ نیر بخاری انکاری ہیں لیکن اگر ان کی شہہ پر یہ کارنامہ ان کے کسی خیرخواہ نے بھی انجام دیا ہے تو بات ایک ہی ہے ۔
وہ اہلکار جو اپنے فرائض منصبی ادا کر رہا تھا اس کو محض اس پاداش میں ذلیل و رسوا کیا گیاکہ اس نے اشرافیہ کو چیک کرنے کی جرات کی ۔ اپنے فرض کو ایمانداری سے نبھایا۔ اب یہ بات کھلی حقیقت کی طرح واٖضح ہو چکی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں متمکن یہ نام نہاد خدمت گار اشرافیہ یا ان کے بے لگام کارندے جب چاہیں جہاں چاہیں کسی سفید پوش کے وقار کو پامال کر سکتے ہیں۔ یہ ملکی قانون سے خوف زدہ ہیں اور نہ ہی انہیں قانون کے رکھوالوں کا ڈر ہے اور ڈر ہو بھی کیسے ؟یہ تو وہ ماہر اور شاطر افراد ہیں جو اس ہنر میں ید طولیٰ رکھتے ہیں کہ قانون سے کیسے کھیلا جاتا ہے اور قانون کے فرض شناس رکھوالوں کو کیسے راستے سے ہٹایا جاتا ہے ۔جب بھی کوئی فرض شناس آفیسر ان نام نہاد خدمت گاروں کے کرتوتوں کی راہ میں حائل ہوا ہے تو اسے راستے سے ہٹانا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔اس ضمن میں ماڈل ایان علی کو گرفتار کرنے والے آفیسر کی تمثیل ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور اس سے ملتی جلتی ہزراروں دیگر مثالیں وطن عزیز کی فضاوں میں معلق ہیں۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں دولت کا ارتکاز چند خاندانوں تک محدود ہونے کے سبب پورا معاشرتی و سماجی ڈھانچہ تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ وطن عزیز میں چند سو خاندانوں کی دولت پوری قوم کی دولت کے مساوی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ اشرافیہ اپنے آپ کو ہر قسم کے ملکی قوانین سے ماورا سمجھتی ہے ۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا ان ڈاکووں اور لٹیروں کی زندگی اک عام محب وطن انسان سے زیادہ قیمتی ہے ۔ ایک مزدور جو اپنا خون پسینہ بہا کر ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالتا ہے ان سے کمتر ہے جو ملک کی بنیاد کو ہر حوالے سے کھوکھلا کرنے میں مگن ہیں اور جن کا کام صرف اور صرف ملکی دولت کو لوٹنا ہے اور ان کی ایک ایک جنبش سے ملکی خزانے پر نقب لگتی ہے اور ان کے بیرونی دوروں کے دوران ملک کا کثیر سرمایہ باہر منتقل ہو جاتا ہے یہ وہی افراد ہیں جو غریب کے ووٹ کو پل بنا کر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور پھر مسند اقتدار پر بیٹھ کر ملک کے وسائل کو لوٹ کر عرب ممالک سے لے کر یورپ تک اپنے بزنس ائمپائر کھڑے کر لیتے ہیں ۔ بہت ہو چکا ۔ عوام ان کے ظلم اور زیادتی کو بہت برداشت کر چکی ہے ۔ اب عوام کو حتمی فیصلہ کرنا ہو گا کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔اگر حالات کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوے غریب کی جامہ تلاشی ضروری ہے تو اشرافیہ کو بھی اس مشق سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے ۔ یاد رہے یہ وہی اشرافیہ ہے جب یہ یورپ و امریکہ جاتے ہیں تو ان ممالک کے ائیر پورٹس پر ان کی تلاشی کے مناظر بیان سے باہر ہیں۔
لیکن پاکستان میں یہ لوگ انا کے بے لگام گھوڑے پر سوار رہتے ہیں اور بلا خوف فرض شناس سکیورٹی اہلکار پر یوں حملہ آور ہوتے ہیں جیسے ملک خدادا دپاکستان ان کے باپ کی جاگیر ہے ۔ ان ظالموں کے ہاتھ جب تک قوم نے سختی سے نہ روکے ان کی بے حسی کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا اور ایسے کئی دوسرے اہلکار ان کی انانیت کا شکار ہوں گے جو یقینی طور پر کسی بھی زندہ قوم کے لیے باعث شرمندگی ہے۔