اسرائیلی جارحیت۔۔۔اُمّتِ مسلم کو اب بیدار ہوناچاہیے !
پیر 14مئی، 2018ء کو اسرائیلی فوج نے جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے فلسطین کے نہتے عوام پر بلا جوازاور براہ راست فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں 55فلسطینی شہید اور 2700شدید زخمی ہوگئے ہیں۔اسرائیلی فوجیوں نے یہ حملہ اس وقت کیا جب ہزاروں فلسطینی امریکی سفارتخانہ کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کے خلاف پر امن احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے۔
شہید ہونے والوں میں 8 خواتین اور6بچے بھی شامل ہیں۔غزہ میں اسرائیلی فوج کی براہ راست فائرنگ سے ہونے والی شہادتوں پر فلسطینی صدر محمود عباس نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے، جبکہ دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم اس وحشت کو دفاعی اقدام قرار دے رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکی سفارتخانہ اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے اعلان پر دنیا بھر میں شدید رد عمل سامنے آیا تھا اور 14مئی کو امریکی سفارتخانہ کی منتقلی اور افتتاح کے موقع پر بھی دنیا کے مختلف ممالک میں اس امریکی اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے ہیں، لیکن ان تمام تر مخالفتوں کے بجائے امریکی صدرٹرمپ یہودیوں کے ساتھ انتخابی مہم کے دوران کئے ہوئے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں پوری طرح یکسو ہیں، ان وعدوں میں سے ایک بڑا وعدہ یہی تھا کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد امریکی سفارت خانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر دیں گے ۔اس وعدے کی تکمیل کے دوران اب تک 550فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی فوجیوں نے بے دردی سے قتل کر دیا ہے، لیکن اس بڑے پیمانے پر ہونے والے قتل عام پر اقوام متحدہ ، عرب لیگ ، او آئی سی ، انسانی حقوق کی تمام بین الاقوامی تنظیمیں اور پوپ فرانسس سمیت سب مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
ایک منٹ کے لئے فرض کریں کہ اگر اس بے رحمی سے 55 نہتے فلسطینی مسلمانوں کی بجائے55 اسرائیلی مارے جاتے تو کیا یہ تمام عالمی ادارے، امریکا، مغرب اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اسی طرح خاموشی اختیار کرتیں؟ہر گز نہیں، امریکاکا ہر منتخب ہونے والا صدر ، اسرائیل کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے اس قدر واضح مظالم کے باوجود اسرائیل کا حمایتی کیوں رہتا ہے؟ اس سوال کا جواب ماضی میں امریکی صدر ٹرومین سے پوچھے گئے ایک سوال اور ان کی طرف سے دئے گئے جواب سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔
امریکی صدرٹرومین کے دور صدارت میں ان سے سوال کیا گیا کہ ’’آپ یہود یوں کی بے جا حمایت اور عربوں سے بے جا دشمنی کیوں کرتے ہیں؟‘‘ اس سوال کا ایک جملے میں جواب دیتے ہوئے صدر ٹرومین نے کہا تھا’’عرب میرے ووٹر نہیں ہیں۔
‘‘ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی معیشت یہودیوں کے زیر قبضہ ہے اور دنیا میں صرف اسرائیل ہی وہ واحد ملک ہے جسے امریکا میں بسنے والے یہودی وہ تمام ٹیکس ادا کرتے ہیں جو وہ امریکا میں بھی ادا کرتے ہیں اور امریکا میں بسنے والے یہودیوں کو یہ ’’شرف‘‘ بھی حاصل ہے کہ وہ قانونی طورپر دوہری قومیت رکھتے ہیں یعنی وہ امریکی شہری ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے بھی شہری ہیں۔
اب چونکہ یہودی، امریکا اور اسرائیل کی دوہری شہریت رکھتے ہیں اس لئے وہ امریکا کے انتخابات میں ووٹ بھی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ امریکا میں صدارتی الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو مالی سپورٹ بھی کرتے ہیں۔
لہٰذا یہودیوں کے اس ووٹ بینک کو اپنے حق میں محفوظ رکھنے اور ان کی بے انتہا دولت کو اپنی الیکشن مہم میں استعمال کرنے کے لئے ہر امریکی صدر کی مجبوری بن گئی ہے کہ وہ ہر جائز و ناجائز مسئلہ پر یہودیوں کی حمایت کرتا رہے۔
یہی مجبوری صدر ٹرمپ کو بھی مجبور کر رہی ہے کہ وہ اسرائیلیوں کے تمام تر انسانیت سوز مظالم کے باوجود ان کی حمایت میں کمر بستہ رہے اور انتخابات میں کیے ہوئے تمام وعدوں کو خواہ وہ کتنے ہی غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور ناجائز کیوں نہ ہوں، پورا کرے۔
انسانی خون کو پانی کی طرح بہانے والے اسرائیلی فوجیوں اورانسانیت کو شرما دینے والے اقدامات کو اپناوطیرہ بنانے والے یہودیوں میں انسانی نفسیات میں پائے جانے والے عناصر مفقود دکھائی دیتے ہیں۔ٹریک ریکارڈ گواہ ہے کہ یہ یہودی قوم حیوانی جبلت رکھنے والی ایک ایسی خوں خوار بلا بن چکی ہے، جس کا مقصد بے گناہ انسانیت کے قتل کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
دنیا میں کوئی ایسی قوم موجود نہیں جو تقریباً چار ہزار سال کی طویل مدت سے اپنے سوا تمام نوع بشر سے شدید ترین نفرت کرتی آئی ہو۔ اس کا سبب ان کی تحریف شدہ مذہبی کتاب ہے۔ ان کی فقہ(تالمود) کو بیشتر مفکرین نے ’’ہدایت نامہ جرائم‘‘(Manual of Crime)قرار دیا ہے، جس میں واضح طورپر تحریر ہے کہ ’’یہودی اپنے مفاد کے لئے ہر غیر یہودی کو قتل کرسکتا ہے۔‘‘دو ہزار سال کے بعد کوہ صہیون (Mount Zion)کی زمین(فلسطین) میں آباد ہونے کا حکم بھی اس ہدایت نامۂ جرائم میں موجود ہے۔
اس ’’ہدایت نامہ جرائم‘‘ کی تعلیمات کے تحت آج یہودی اپنے سوا ہر مذہب کے پیروکار کے خون ناحق کو جائز سمجھتے ہوئے دنیا بھر میں بالعموم اور فلسطین میں بالخصوص اپنی خونریز کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسرئیل دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے ابھی تک اپنی جغرافیائی حدود کا تعین نہیں کیاہے، بلکہ 1897 ء میں یہودی ماہرین، مدبرین و مفکرین نے جو پروٹو کول تیار کیا تھا، اس میں اسرئیلی سرحدوں کا جو نقشہ تیارکیا گیا تھا، وہ بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔
اس نقشہ میں فلسطین، لبنان، شام، ایران، عراق، مصر، سعودی عرب، اردن اور کویت بھی اسرائیلی مملکت میں دکھائے گئے ہیں۔ ان ممالک کی طرف یہودی قوم امریکی کندھوں پر سوار ہوکر تیزی سے بڑھ رہی ہے تاکہ پورے عرب کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کر کے اپنے مالی وسائل میں اضافہ کرے،مسلمان ممالک کا وجود دنیا کے نقشے سے مٹا ڈالے اور بتدریج دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت بن جائے۔
اسرائیل کی نظر نہ صرف سرزمین عرب پر ہے، بلکہ وہ پاکستان کی ایٹمی قوت سے بھی انتہائی خائف ہے۔ چار عشرے قبل عراق کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل نے کھلے الفاظ میں کہا تھا کہ ’’ وہ ہر اس اسلامی ملک کو تباہ کر دے گا، جو ایٹمی صلاحیت کے حصول میں مصروف ہو یاجس سے اسرائیل کو خطرہ لا حق ہو‘‘۔
ایک جانب امریکا، ہندوستان اور اسرائیل یعنی یہود ، ہنود و نصاریٰ عالم اسلام کے خلاف متحد دکھائی دے رہے ہیں اور ان کی مسلمانوں کے خلاف مشترکہ کاوشیں بڑھتی جارہی ہیں، جبکہ دوسری جانب افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام ہمہ داغ داغ کا منظر پیش کر رہا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں اسلامی دنیا کے کم و بیش پچپن ممالک میں ترکی کے طیب اردوان اور ملائشیا کے نومنتخب وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمدکے سوا کوئی ایک بھی ایسا حکمران بر سر اقتدار نہیں جو امت مسلمہ کا درد اور اسلام کے خلاف جاری بین الاقوامی صہیونی سازشوں کاادراک رکھتا ہو۔
ان اندوہ ناک عالمی حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’تاریک خیال‘‘ حکمرانوں پہ تکیہ کرنے کی بجائے مسلمان قوم کاہرفرد اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ارض فلسطین کو صہیونی پنجے سے بچانے کے لئے اپنا بھرپور کردار اداکرے۔
آخر فلسطینی مسلمان کب تک اسی طرح بے بسی سے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟کیا دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ وہ مٹھی بھر یہودیوں کو لگام نہ ڈال سکیں۔
یہ بات ایک روشن حقیقت ہے کہ اہل فلسطین کی تنظیمیں خواہ وہ الفتح ہو یا حماس ہر کسی کا ایک ہی نصب العین ہے کہ مقبوضہ عرب علاقوں پر سے اسرائیل کا فوجی قبضہ ختم کروایا جائے اور اس پر آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے، جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔
اس وقت عالمی حالات اس بات کا تقاضا کررہے ہیں کہ اسلامی دنیا، امریکا اور اقوام متحدہ کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے طورپر متحد ہوکر ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دے، جس کے تحت فلسطینی تنظیموں کی جدو جہد کے اس مشترکہ نصب العین پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کو درپیش دیگر مسائل حل کرنے کے لئے اپنی ایک مضبوط قوت تشکیل دی جائے۔
یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین تنازعہ یااسلامی دنیا کو درپیش دیگر گنجلک مسائل ،جن میں کشمیر کا مسئلہ سر فہرست ہے، کبھی امریکا یا اقوام متحدہ کے ذریعے حل نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کہ یہودیوں نے ووٹ اور اقتصادی طاقت کے ذریعے امریکا اور اقوام متحدہ کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں،جبکہ بھارت نے اسرائیل اور امریکا کوان کے اسٹرٹیجک مفادات کے عوض مسئلہ کشمیر پر اپنا اندھا حمایتی بنا رکھا ہے، جن کو نہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیر کے نہتے عوام کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی نظر آتی ہے۔
ان اسلام دشمن قوتوں کے نہ صرف معاشی مفادات مشترک ہیں، بلکہ ان کا مسلم ممالک پر بالواسطہ یا بلا واسطہ قبضہ کرکے مسلمانوں کو غلام بنانے کا ایجنڈا بھی مشترک ہے۔ عالم اسلام اس حقیقت کا ادراک جس قدر جلد کرے، اسی قدر اس کے حق میں بہتر ہوگا۔
مسلم ممالک کے سربراہان، مذہبی و سیاسی رہنما اورمسلمان عوام ’’اسلامی بلاک‘‘ بنانے کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کب قدم بڑھائیں گے؟
کفر کے آگے کرے دستِ طلب کیونکر دراز
صاحبِ ایمان کو خود دار ہوناچاہیے
بن نہ جائے خوابِ غفلت ، مرگِ ملت کا سبب
امتِ مسلم کو اب بیدار ہوناچاہیے