سابق وزیر اعظم اپنے بیان پر قائم، ہر صورت حال کا مقابلہ کرنے کو تیار!

سابق وزیر اعظم اپنے بیان پر قائم، ہر صورت حال کا مقابلہ کرنے کو تیار!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سابق وزیراعظم ومسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف نے ممبئی حملوں بارے انٹرویو دیکر نیا پنڈوڑابکس کھول دیا ہے ،نوازشریف کا متنازع بیان اس وقت اہم ایشو بنا ہوا ہے پیر کو پیپلزپارٹی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیان پرقومی اسمبلی میں تحریک التو جمع کروا دی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم کا حالیہ بیان جس میں ممبئی دھماکوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کا عندیہ دیا گیا ہے پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ۔ایسے غیرذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے ہماری قومی سلامتی اور سفارتی کاوشوں پر برا اثر پڑے گا ۔ لہذا اس معاملے کو فوری طور پر بحث کے لئے اسمبلی میں لایا جائے ۔تحریک التوا سید نوید قمر، شازیہ مری، نواب یوسف تالپور، سید غلام مصطفی شاہ وغیرہ نے جمع کروائی،پیر کے روزہی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی نے انگریزی اخبارمیں شائع بیان کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے ان الزامات کو مسترد اور ان گمراہ کن دعوؤں کی مذمت کی ہے جبکہ کمیٹی نے قرار دیاہے کہ ممبئی حملوں کے کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں تاخیر کا ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ بھارت ہے۔ شرکاء اجلاس کاکہنا تھا کہ بدقسمتی سے اس بیان سے جو تاثر ابھرا ہے اور جو رائے سامنے آئی ہے وہ نہ صرف غلط فہمی پر مبنی ہے بلکہ اس میں ٹھوس حقائق کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ ٹھوس حقائق کے برعکس بیان جاری کرنا افسوسناک ہے۔ شرکاء نے متفقہ طورپر ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے گمراہ کن دعووں کی مذمت کی ہے۔ ادھر سینٹ میں جاری اجلاس میں اپوزیشن نے نوازشریف کے بیان کو آڑے ہاتھوں لیا، اپوزیشن رہنماؤں کاکہنا تھا کہ ادارے اگر اپنی اپنی حدود میں کام کریں تو ملک میں ٹکراؤ کی کوئی کفیت پیدا نہیں ہو گی، ایف اے ٹی ایف کا اجلاس قریب آنے پر میاں نواز شریف کا نان سٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے بیان ملک کیلئے مزید مشکلات پیدا کرے گا، نواز شریف کے بیانیہ پر انڈیا میں شادیانے بجائے جارہے ہیں، انہوں نے اپنی ریاست کو ملزم قرار دے دیا، ملک و قوم کے مستقبل کی خاطر اپنا بیان واپس لیں، انڈیا نے آج تک ممبئی کے حوالے سے کوئی ثبوت پاکستان کو فراہم نہیں کئے، بڑے میاں اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور چھوٹے میاں صفایاں پیش کررہے ہیں۔ سینٹر عثمان خان کاکڑ اور سردار اعظم خان موسیٰ خیل کی جانب سے تحریک پیش کی گئی جسمیں کہا گیا کہ ملک کی سیاسی صورتحال کو زیر بحث لایا جائے جس پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈی والا نے قوائد ضوابط معطل کرتے ہوئے تحریک کو زیر بحث لانے کی منظوری دیدی، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینٹر جنرل ریٹائر عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جمہوری ملک کے اندر اداروں کی حدود و قیود کا تعین ہونا چاہیے، ہر ادارے کی اپنی ذمہ داریاں ہیں، قوم کے مسائل کے حل کیلئے اسمبلیاں اور سینٹ موجود ہے، قوم کی رہنمائی کی ذمہ داری انہی کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے داخلی سیاست کو علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال سے الگ نہیں کرسکتے ، سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری کلچرل،آزادی کا استعمال صحیح طریقے سے کرنا ضروری ہے۔ صرف سیاسی جماعتوں پر ہی نہیں میڈیا پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ہر ادارے کو خوداحتسابی کا عمل تیز کرنا ہوگا۔ پاکستان ہر طرف سے مشکل صورتحال میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف افغانستان جبکہ دوسری طرف انڈیا ہے ملک نان سٹیٹ ایکڑز سے بھرا پڑا ہے ان کو پالنے والے سی آئی اے ، را، این ڈے اے سمیت کئی طاقتوں کا ہدف پاکستان ہے جو نان سٹیٹ ایکڑز کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ سینٹر عثمان خان کاکڑ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا ملک کی صورتحال گھمبیرہے بدقسمتی سے ملک میں طاقت اختیار حکومتوں کومنتقل نہیں کیئے جاتے ، ادارے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں، حکومت خودمختار ہے اور نہ پارلیمنٹ ۔ وزرات داخلہ بے بس ہے ایک طرف عدالتی احکامات اور دوسری طرف فیض آباد دھرنا، سیاسی جماعتیں وفاداری کا دم نہ بھریں تو ان میں توڑ پھوڑ شروع کی جاتی ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے سینٹر طلحہ محمود نے کہا کہ میاں نواز شریف کے بیان پر انڈیا میں شادیانے بجائے جارہے ہیں اس کی مذمت کرتے ہیں سمجھوتہ ایکپریس میں انڈیا ملوث تھا۔ جسیے کرنل اروڑا نے تسلیم کیا انڈیا نے بمبئی حملہ ایک بہت بڑا الزام ہے اس قسم کی بیان بازی ملک کیلئے اچھی نہیں۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے اراکین پارلیمٹ نوازشریف کے دفاع میں سامنے آئے ہیں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر کاکہناتھاکہ نواز شریف اس ملک کی خاطر اپنی جان تو قربان کر دیں گے لیکن قومی سلامتی پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے،جو اس ملک کے اندر امن لیکر آیا اس پر غداری کے الزامات لگائے جارہے ہیں اور جنہوں نے آئین سے غداری کی ان کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا،جو سیاسی یتیم نواز شریف کوووٹ سے نہیں ہرا سکتے وہ پروپیگنڈے کا سہارا لے رہے ہیں، نواز شریف کی قیادت میں پاکستان نے پورے خطے میں دہشتگردی کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑی ہے۔وفاقی وزیربرائے بین الصوبائی رابطہ ریاض پیر زادہ کاکہناتھاکہ نواز شریف کے بیان کے بعد اگر بین الاقوامی سطح پاکستان پر پابندیاں بھی لگتی ہیں ہے تو اس سے پاکستان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، نواز شریف کوئی ایسی بات نہیں کریں گے جس سے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑے، اگر نوا شریف کے محب وطن ہونے پر کوئی شک کرتا ہے تو پھر اس ملک کے اندر کوئی بھی محب الوطن نہیں ہو سکتا، ایک شخص کے خلاف ملک بھر کے ادارے تحقیقات کر رہے ہوں اور نا کردہ گناہوں میں پھنسایا جارہا ہو تو وہ کب تک صبر کرے گا۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے انکا کہنا تھا کہ نواز شریف کے بیان کے بعد بھارت میں خوشیاں منائی گئیں،نواز شریف نے کہا کہ پاکستان دہشت گرد بھارت بھیجتا ہے، پاکستانی اداروں کے خلاف بیانیہ ترتیب دیا جا رہا ہے،نواز شریف کے پانامہ میں پھنسنے کے بعد پاکستانی اداروں پر حملے تیز ہوئے نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیرداخلہ سینیٹر رحمان ملک نے اس حوالے سے کہا کہ نواز شریف اپنے بیان کو مکمل قبول کریں یا رد کریں، بھارت ممبئی حملہ کیس کو سلامتی کونسل اور ایف اے ٹی ایف میں بھی لے کر جا سکتا ہے جہاں نواز شریف کو ثبوت پیش کرنے کیلئے بلا یا جا سکتا ہے،ممبئی حملوں میں پاکستانی ریاست نہیں نان سٹیٹ ایکٹرز ملوث تھے جن کو بھارت نے اکسایا تھا، آج میں ملک کا وزیر اعظم ہوتا تو اس معاملے پر کابینہ اجلاس بلاتا اور وضاحتی بیان جاری کرتا۔ جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نوازشریف کے حوالے سے کہا ہے کہ وضاحتی بیان دینے کا فیصلہ میرا اپنا ہے، نواز شریف کاانٹرویو توڑ مروڑ کرپیش کیا گیاانہوں نے بیان کی تردید کی ہے، نان اسٹیٹ ایکٹرز سے متعلق غلط رپورٹنگ کی گئی، سابق وزیراعظم نے بتایا کہ انہوں نے ممبئی حملوں سے متعلق ایسا بیان نہیں دیا، نواز شریف سے منسوب بیان کے کچھ حصے درست نہیں،سول ملٹری تعلقات ویسے ہی ہیں، جیسے نواز شریف کے بیان سے پہلے تھے،خلائی مخلوق ہو یا زمینی ،ہم الیکشن لڑیں گے اور جیتیں گے، مجھے نہ کوئی کھینچ رہا ہے اور نہ ہی کسی کو کھینچنے کی اجازت ہے، میں نہ ہی استعفے کا سوچ رہا ہوں اور نہ ہی استعفیٰ دوں گا، قومی سلامتی کمیٹی نے ان الفاظ کی مذمت کی جو غلط پیش کئے گئے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -