چیف جسٹس پر بڑھتا ہوا قوم کا اعتماد
خلفائے راشدین کے ادوار کامطالعہ کرنے کے بعد احساس ہوتاہے کہ ریاست کیا ہے اور کسی بھی حکمران کو اپنی دعایا اور عوام کو کس طرح سے لے کر چلناہوتا ہے اور انکے کیا حقوق ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ حکومت کو دیکھا جائے تو یہ احساس ملتا ہے کہ حکمران کی اولین ذمہ داری اس کی عوام ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ ادوار مسلمانوں کی ترقی کی وجہ بنے۔اور یہی ایک اسلامی ریاست کا نظام ہونا چاہئے کہ جہاں ہر ادارے کے سربراہ کواپنے حقیقی فرائض پر گامزن چلتے نظر آنا چاہئے ۔
پاکستان کی بد نصیبی اور بد قسمتی کی وجہ ہمیشہ اسکے حکمران رہے ہیں۔ جو عوام کی فلاح و بہبود یاخدمت کا مشن لے کر آنے کے بجائے ’’مال بٹورو‘‘ مہم پر کام کرتے نظر آئے۔ کاش کہ ا ن میں سے بھی کوئی بھی مسلمانوں کی خوبصورت اورعروج پر مبنی تاریخ کا مطالعہ کرلیتا ۔ کاش کوئی تو ایسا ہوتا جو اس دور کے خلفائے راشدین کو رول ماڈل بنا کر چلتا کہ جورات کو گلیوں میں بھیس بدل کر چلا کرتے تھے ۔تاکہ رعایا کے اصل حالات کا اندازہ ہو سکے کہ وہ کس حال میں ہیں ۔ کیا کوئی بھوکا تو نہیں سوتا ،کیا کوئی کسی مشکل کا شکار تو نہیں ۔ انکے اندر اس قدر خدا کا خوف موجو د تھا کہ حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو میں خود کو اسکا ذمہ دار سمجھوں گا۔ ‘‘
یہاں ......کیا نہیں ہورہا ۔ آئے روز بھوک غربت اورافلاس سے ستائے لوگ خود کشی کر رہے ہیں ۔ نوجوان ہاتھوں میں اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں تھامے نوکری کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ بنت حوّا چند سکّوں کے عوض اپنی عزت لٹانے پر مجبور ہے ۔ غریب علاج نہ ہونے کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں۔ ہزاروں ہسپتال موجودہیں مگر غریب کے لیے کچھ نہیں۔ کہنے کو تو ہسپتالوں میں سب مفت ملتا ہے مگر دن بھر دھکے کھانے کے بعد نہ تو مریض کی باری آتی ہے اور نہ ہی ڈاکٹر توجہ سے چیک اپ کرتے ہیں۔ اگر کسی کو ایڈمٹ کرنا ہو تو ایک ایک بیڈپر کئی کئی مریض لیٹے ہوتے ہیں۔ غرض غریب کے لیے موت بھی مشکل اور جینا بھی مشکل......ان سب کے ذمہ دار کون ہیں ۔ یقیناً ہمارے حکمران جو خود اے سی خانوں میں بیٹھے عوام کی تقدیر کا فیصلہ سناتے ہیں۔ جنکے خود کے معمولی مسائل بھی لندن یا امریکہ کے ہسپتالوں کے بغیر حل نہیں ہوتے ۔ غریب کی کوئی سنوائی نہیں، وہ غریب ہے لہٰذا اس کی غربت اور مفلسی اسکا جرم ہے اور یہ جرم اس کو بھگتنا ہے۔ ایسے میں کون محمد بن قاسم بن رک آگے آئے گا، کون قائداعظم محمد علی جناح کا نقش ثانی بن کر اپنی قوم کو درد و رنج سے نجات دلائے گا ۔
یہی وجہ ہے کہ عین اس وقت جب عوام کے مسیحا کے انتظار میں تھی ’’چیف جسٹس ثاقب نثار ‘‘ کے سوموٹوز نے تڑپتی بلکتی عوام کی روح کو سکون دے ڈالی ہے ۔ آئے روز چیف جسٹس ثاقب نثار کسی نہ کسی مشن پر روانہ ہوتے ہیں اور لوگوں کی داد رسی کرتے نظرآتے ہیں ۔ کہنے والے تو کچھ بھی کہہ ڈالتے ہیں ،کرنا مشکل ہے اس لیے جو کچھ چیف جسٹس ثاقب نثار کر رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے ۔تبدیلی لانے کے لیے کوشش ضروری ہوتی ہے ۔ لہٰذا باتیں نہیں۔ کل فیس بک پر کی گئی پوسٹ نظر سے گزری جس پرسپریم کورٹ آف پاکستان کا ایڈریس لکھا تھا اور کہا گیا تھاکہ اگر آپ کی داد رسی نہیں ہو رہی تو چیف جسٹس ثاقب نثار سے رابطہ کریں۔ مجھے یہ پوسٹ پڑھ کر بہت اچھا لگا کہ اب لوگوں کو ایک مسیحا مل گیا ہے،اس پوسٹ سے ثابت ہوگیا ہے کہ مقتدر قوتوں کی جانب سے کبھی یہ نہیں لکھا گیا کہ اپنے مسائل صدر پاکستان یا وزیر اعظم تک پہنچانے کے لئے اس ایڈریس پر رابطہ کریں ۔ ان ہستیوں سے تو بات کرنا ہی غریب کا سپنا ہے۔ اللہ تعالیٰ چیف جسٹس آف پاکستان کو زندگی اور ہمت دے اب یقیناً تبدیلی آئے گی کیونکہ بہت سے لوگ انھیں اپنا رول ماڈل بنائیں گے ۔دکھ اور مصائب میں مبتلا قوم ان کے قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتی ہے اور اسکا اندازہ مجھے کورٹ کچہری کے علاوہ عام لوگوں سے مل کر ہوتا ہے جو چیف کے اقدامات کو سراہ رہے ہیں۔ کچھ تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان چونکہ آرمی کی مداخلت نہیں چاہتے ،جمہوریت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اسلیے وہ حالات سدھارنے کے لیے خود سرگرم عمل ہیں ۔ اگر حقیقت یہ بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ عوام نا نہاد جمہوریت اور مارشل لاء دونوں طرح کے ادوار کا مزہ چکھ چکی ہے ۔ان پر یہ بھی اعتراض کیا جارہا ہے کہ وہ ملک کے انتظامی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں ،اعتراض کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ جن قوتوں کو یہ کام کرنا چاہئے ہیں کیا وہ عوامی اور انسانی بہبود و حقوق کے لئے ایسے ٹھوس اقدامات کررہے تھے۔نہیں تو پھر اعتراض کیسا؟چیف جسٹس اگر آج قابل مثال کام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقین رکھنا چاہئے کہ اس سے عوام اور منتخب نمائیندوں کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔