وہ وقت جب روم کے کاریگروں نے چینی کاریگروں کو ایسی مات دی کہ یہ واقعہ گھر میں بیٹھ کر پوری دنیا کو مسخر کرنے کا طریقہ سمجھا گیا
مولانا رومی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایاہے کہ ایک دفعہ چینیوں اور رومیوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ رومیوں کا دعویٰ تھا کہ وہ اچھے صناع اورکاری گر ہیں جبکہ چینیوں کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ بڑے کاریگر ہیں ۔بادشاہ کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا ۔ بادشاہ نے کہا ’’تم دونوں اپنی صفائی دکھلاؤ ! اس وقت دونوں صناعیوں کاموازنہ کر کے فیصلہ کیا جائے گا‘‘
بادشاہ نے ایک مکان بنوایا اور اس کے درمیان پردے کی ایک دیوار کھڑی کر دی ۔ چینیوں سے کہا’’ نصف مکان میں تم اپنی کاری گری دکھلاؤ ‘‘ اور رومیوں سے کہا’’ دوسرے نصف میں تم اپنی صناعی کا نمونہ پیش کرو ‘‘ چینیوں نے دیوار پرپلستر کر کے قسم قسم کے بیل بوٹے اور پھول پتے رنگ برنگ کے بنائے ..... اور اپنے حصے کے کمرے کو مختلف نقش و نگار سے گل و گلزار بنا دیا ..... ادھر رومیوں نے دیوار پر پلاستر کر کے ایک بھی پھول پتہ نہیں بنایا..... اور نہ ہی کوئی ایک بھی رنگ لگا یا بلکہ دیوار کے پلاستر کو صیقل کرنا شروع کر دیا ..... اور اتنا شفاف اور چمک دار کر دیا کہ اس میں آئینہ کی طرح صورت نظر آنے لگی.....
جب دونوں نے اپنی اپنی کاریگری اور صناعی ختم کرلی تو بادشاہ کو اطلاع دی ..... بادشاہ آیا اور حکم دیا کہ درمیان سے دیوار نکال دی جائے ..... جو نہی دیوار بیچ میں سے ہٹی چینیوں کی وہ تمام نقاشی اور گلکاری رومیوں کی دیوار میں نظر آنے لگی اوروہ تمام بیل بوٹے رومیوں کی دیوار میں منعکس ہوگئے جسے رومیوں نے صیقل کر کے آئینہ بنا دیا تھا ..... بادشاہ سخت حیران ہوا کہ کس کے حق میں فیصلہ دے.....کیونکہ ایک ہی قسم کے نقش و نگار دونوں طرف نظر آرہے تھے ۔
آخر کار اس نے رومیوں کے حق میں فیصلہ دیا کہ ان کی صناعی اعلیٰ ہے ..... کیونکہ انہوں نے اپنی صناعی بھی دکھلائی اور ساتھ ہی چینیوں کی کاری گری بھی چھین لی .۔
مولانا رومی نے اس قصے کو نقل کر کے آخر میں بطور نصیحت کے فرمایا ہے ’’ اے عزیز ! تو اپنے دل پر رومیوں کی صناعی جاری کر ..... یعنی اپنے قلب کو ریاضت و مجاہدہ سے مانجھ کر اتنا صاف کر لے کہ تجھے گھر بیٹھے ہی دنیا کے سارے نقش و نگار اپنے دل میں نظر آنے لگیں.ساری دنیا مسخر ہوجائے گی..یعنی تو اپنے دل سے ہر قسم کا مادی میل کچیل نکال پھینک ..... اور اسے علم الٰہی کی روشنی سے منور کردے۔ ایسے قلب صافی پر بے استاد و کتاب براہ راست علوم خداوندی کا فیضان ہوتا ہے ..... اور وہ روشن سے روشن تر ہوجاتا ہے ‘‘