”ایڈز“ کی طرح ”کورونا“مستقل ہو گا؟
عالمی ادارہئ صحت کی طرف سے واضح کیا گیا ہے کہ دُنیا کو کورونا کے ساتھ رہ کر زندگی گزارنا ہو گی، کیونکہ کارونا بالکل ختم نہیں ہو گا اور ”ایڈز“ کی طرح باقی رہے گا، عالمی ادارہئ صحت کی یہ اطلاع اور انتباہ اپنی جگہ اہم ہے اور اسے پلے باندھنا ہو گا، لیکن یہاں تو ابھی تک مسئلہ یہاں پر اٹکا ہوا ہے کہ یہ کورونا ہے کیا،کیونکہ مختلف ممالک سے اب تک ہر روز کوئی نئی تشریح سامنے آ جاتی ہے، اب یہ بھی کہا گیا ہے کہ کورونا آدمی سے آدمی کو منتقل ہوتا ہے تاہم یہ فضا میں بھی رہتا اور متاثرکرتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ منہ سے نکلنے والی سانس میں بھی ذرات ہوتے ہیں، جو فضا میں پھیل کر آلودگی اور دوسروں کو متاثر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں،یہ وائرس چار سے پانچ روز تک فضا میں رہتا ہے، اس کے لئے ماسک اور گلوز تحفظ دیتے ہیں، اب اگر ہر دو طرف کے انکشاف اور ہدایت کی روشنی میں دیکھا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ وائرس جس بھی طرح باہر آیا اس کی بحث چلتی رہے گی،لیکن خوفناک حقیقت یہ ہے کہ اب اِس سے پیچھا نہیں چُھوٹے گا اور ویکسین کے ساتھ علاج کی دریافت کے باوجود یہ وائرس ختم نہیں ہو گا اور زندگی بھر اپنی ہیئت کی تبدیلی کے ساتھ رہے گا اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بین الاقوامی ادویات ساز اداروں کا کاروبار بھی مستقل طور پر ہی چلتا رہے گا۔
ڈبلیو ایچ او کی وارننگ کے حوالے سے غور کیا جائے تو یہ سو فیصد حقیقت اور سچ ہے کہ ساتھ ہی ”ایڈز“ کی بھی مثال دی گئی ہے، ایڈز بھی لاعلاج مرض ہے،جس کسی کو ہو جائے اسے قبر میں پہنچا کر ہی دم لیتا ہے، اس کی ادویات بھی بک رہی ہیں۔ اس مرض کی ابتدا بھی وائرس سے ہوئی، جو اب وبال جان ہے کہ طبی نقطہ نظر سے جنسی اتصال بنیادی سبب ہوتا ہے یا پھر متاثرہ فرد کا خون کسی دوسرے ضرورت مند کو لگنے سے وائرس منتقل ہو کر مریض کو بھی متاثر کر دیتا ہے، اس سلسلے میں ایک دوست نے دلچسپ بات کی اور دلیل دی کہ اس مرض کی وجہ اور پھیلاؤ کے حوالے سے جو کہانی سنائی جاتی وہ ناقابل ِ اعتبار ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کا سبب ہم جنس پرستی ہے، ہمارے دوست نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ اگر یہ وجہ ہوتی تو پاکستان دُنیا کے متاثرہ ترین ممالک میں ہوتا کہ یہاں یہ سلسلہ جاری ہے اور خصوصاً شمالی پاکستان میں بہت رواج ہے۔
شواہد اور ہیئت اور غور کرنے سے ماضی کی اس تحقیق کو بہت زیادہ تقویت ملتی ہے کہ یہ وائرس بھی ”بائیو لوجیکل وار“ کا شاخسانہ ہے کہ اس وائرس کو تیار کر کے تجربہ کیا گیا تو مہنگا ثابت ہوا اور ”ایڈز“ ایک وبا بن گیا اور اب انسانی کوتاہی سے انسان مرتے رہتے ہیں۔شفایابی کی توقعات کم ہوتی ہیں، یوں یہ انسانی تجربہ اب روگ بن چکا ہے، ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے سے صحت مند بھی مریض بن جاتا ہے، اسی طرح یہ خطرناک وائرس کورونا بھی ہے،جس کی تیاری بڑی عرق ریزی سے ہوئی اور جب ایک بار پھیل گیا تو شاید پھر ختم نہ ہوپائے کہ اب تک تو اس کے حوالے سے کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچا جا سکا، ہر روز کوئی نئی کہانی سامنے آ جاتی ہے اور اب یہ کہ دیا گیا کہ یہ و ائرس ختم نہیں ہو گا،بلکہ ہر خطے میں اس کی ہیئت مختلف ہے اور یہ بھی انسانی کارروائی کا بڑا حصہ ہے،اِس لئے کہ یہ بھی کوئی آسمانی وبا نہیں، انسانوں کا اپنا کیا دھرا ہے اور توقع کے خلاف زیادہ کارگر ثابت ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ رہنے ہی کا تجربہ کرنا ہو گا۔
صورتِ حال یہ ہے کہ کورونا میں کمی تو ضرور ہوئی،لیکن ابھی تک اس سے سنبھلا نہیں جا سکا۔ دوسری طرف جب لاک ڈاؤن ہی بچاؤ ٹھہرا تو انسانی امتحان شروع ہو گیا جو ہم پاکستانیوں کے لئے بھی ہے، ہم کو اس میں پورا اترنا ہو گا،لیکن ایسا ہو نہیں رہا،اور یہاں کنفیوژن ہے، حتیٰ کہ خود سرکار حتمی فیصلے نہیں کر پا رہی اور نہ ہی عوام تحمل اور برد باری سے اس ”کورونا“ کا مقابلہ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ درست کہ ہم جیسے معاشی مسائل میں گھرے ملک کے لئے مکمل اور مستقل لاک ڈاؤن نئے مصائب کا سبب ہے، لیکن ابھی تک کوئی حتمی علاج اور بچاؤ کی ویکسین کے حوالے سے بھی کوئی بڑی خوشخبری نہیں ہے، جہاں تک صحت مند ہونے والوں کا تعلق ہے تو یہ سب مریض ایسے ہیں جو ابتدائی علامات ہی کے وقت علاج کے لئے لائے گئے، یہ مریض روایتی ادویات سے تندرست ہو گئے،جو مختلف ممالک میں مختلف متاثرین پر آزمائی گئیں، پاکستان میں بھی ایسا ہو چکا ہوا ہے
تاہم حتمی ویکسین یا ادویات ابھی تک سامنے نہیں آئیں اور تب تک زندگی مجبوری کا نام بن کر رہے گی اور سخت پابندیوں کے ساتھ گزارہ کرنا ہو گا اس کے لئے شاید ترقی یافتہ ممالک کے شہری تو تیار ہو چکے اور لاک ڈاؤن اور اب نرمی کے دوران وہ ماسک اور سماجی فاصلوں کا لحاظ کرتے نظر آ رہے ہیں،لیکن جو توقعات پاکستان کے عوام سے وابستہ کی گئیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کو لاک ڈاؤن کا خاتمہ جان لیا گیا اور سب نے احتیاط کو بالائے طاق رکھ دیا،اِس لئے حکومتوں کو سخت رویئے پر واپسی کی طرف رُخ کرنے کا اعلان کرنا پڑا، آج(جمعتہ المبارک) سے تین روز تک مکمل لاک ڈاؤن کا دورانیہ ہے، ان تین دِنوں میں سب کو غور کر کے لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا، یہ سچ کہ طویل عرصہ کے لئے سب کچھ بند کر کے بھی زندگی گزارنا مشکل ہے،لیکن یہ بھی ممکن نہیں کہ آپ خود فرشتہ ئ اجل کو دعوت دیں کہ وہ کسی کا وقت پورا ہو یا نہ ہو،تشریف لائے اور اس کو لے جائے۔ یہ ایک اجتماعی رویئے کا معاملہ ہے۔ اب اگر دُنیا کو کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہے تو سلیقہ بھی اختیار کرنا ہو گا۔