عید کا اچانک چاند
خیال کیا یقین تھا کہ عیدالفطر جمعہ کو منائی جائے گی۔چاند بدھ کو نظر آنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ موسمیات اور فلکیات کے ماہرین اس پر اصرار کر رہے تھے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے سابق وزیر برادرم فواد چودھری نے دو ٹوک اعلان کر رکھا تھا کہ بدھ کو چاند دیکھا نہیں جا سکے گا، جن کو افغانستان اور سعودی عرب کے ساتھ عید منانے کا شوق ہے، وہ جھوٹ بولنے گویا جھوٹا چاند دیکھنے کے بجائے صاف الفاظ میں اپنی بات کہیں اور جو کرنا چاہتے ہیں کر گذریں۔اس کے باوجود رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اس کے نئے نویلے سربراہ حضرت مولانا عبدالخبیر آزاد کی سربراہی میں طلب کر لیا گیا، تاکہ بدھ کو چاند دیکھنے کی کوشش کی جا سکے۔ بھارت اور بنگلہ دیش سے چاند نہ دیکھنے کے اعلانات جاری ہو چکے تو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعض حصوں سے چاند دیکھنے کے دعوے موصول ہو گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں منگل ہی کو چاند دیکھا جا چکا تھا،”چشم دید“ گواہوں کی فہرست بھی جاری کی جا چکی تھی، مقامی مولوی صاحبان کے زیر اثر بدھ کو عید منا ڈالی گئی تھی۔
رویت ہلال کمیٹی رات گئے تک روایتوں میں الجھی رہی،دور افتادہ افسروں اور مولوی صاحبان کو لمبی لمبی کالیں ہوتی رہیں۔ خیبرپختونخوا کی زونل کمیٹی نے چاند دیکھنے والوں کی تفصیل مرکزی کمیٹی کو ارسال کر دی،جبکہ مفتی پوپلزئی حسب ِ معمول مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا انتظار کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ نہ کر سکے،انہوں نے جمعرات کو عید کا اعلان داغ دیا۔مولانا عبدالخبیر آزاد کہ بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب اور امام ہیں،حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن کی مسند سنبھالے ہوئے تھے۔ مفتی صاحب قریباً دو عشرے رویت ہلال کمیٹی کی سربراہی کا فریضہ ادا کرتے رہے، لیکن پھر مرکزی حکومت نے انہیں سبکدوش کرنے میں عافیت جانی۔وزیر مذہبی امور حضرت نور الحق قادری نے خود یہ فیصلہ کیا یا وزیراعظم کو بھی اس میں شریک کر لیا یا وہ وزیراعظم کے فیصلے میں شریک ہو گئے،اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا،چاند کو بہرحال مفتی صاحب کی ”قید“ سے آزاد کرا لیا گیا۔ مفتی صاحب اپنی متانت اور ثقاہت کی وجہ سے ملک بھر میں ممتاز ہیں۔ اہل ِ سنت کے بریلوی مکتب فکر سے ان کا تعلق ہے لیکن دوسرے مسالک کے متعلقین بھی ان کا احترام کرتے،اور ان کی سوجھ بوجھ سے استفادہ کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کی بات اگرچہ لمبی ہو جاتی ہے لیکن استدلال سے خالی نہیں ہوتی۔وہ اگر ایل ایل بی کر لیتے تو پاکستان کے ممتاز ترین وکلا میں ان کا شمار ہو سکتا تھا اب اپنے مدرسے میں اپنا چراغ جلائے ہوئے ہیں لیکن ان کے مداح انہیں مفتی اعظم قرار دیتے،اور ان کے فتوے کا انتظار کرتے ہیں۔مفتی منیب الرحمن کے سامنے مولانا عبدالخبیر آزاد طفل ِ مکتب یعنی نوآموز ہیں لیکن مولانا عبدالقادر آزاد مرحوم کا فرزند ہونے کے ناطے ان کا حلقہ تعارف بھی محدود نہیں ہے۔اعتدال اور توازن کی بدولت ان کا بھی احترام کیا جاتا،اور اخوت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
رویت ہلال کمیٹی نے طویل اجلاس کے بعد چاند کے طلوع ہونے کا اعلان کر دیا۔موصول ہونے والی گواہیوں کو قبول کرتے ہوئے جمعرات کی عید کا نقارہ بجا دیا۔ تراویح پڑھنے کے بعد اس غیر متوقع اور اچانک اعلان نے بہت سوں کو بدحواس کر دیا۔عامتہ المسلمین تو صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئے، لیکن مفتی منیب الرحمن نے اختلافی نوٹ جاری کرنا ضروری سمجھا۔رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے جمعرات کو نمازِ عید ادا کرنے پر تو آمادگی ظاہر کر دی، لیکن ساتھ ہی یہ تلقین بھی کر دی کہ ایک روزہ بعدازاں رکھ لیا جائے اور اعتکاف میں بیٹھنے والے حضرات بھی کسی اور وقت ایک دن کا اعتکاف کر کے کمی پوری کر لیں۔کئی حضرات نے مزید حوصلہ پکڑا،اور جمعرات کو روزہ رکھنے کی تلقین کر دی۔تحریک لبیک کے بعض متعلقین اور متوسلین ان میں شامل تھے۔ سو، لاہور،گوجرانوالہ اور کئی دوسرے شہروں میں بہت سے لوگوں نے جمعہ کو نمازِ عید ادا کی۔ بتایا گیا کہ رویت ہلال کمیٹی نے ایک ہی دن عید منانے اور حکومت کے سر پر اتحاد کا سہرا سجانے کے لیے رویت ہلال کی مشتبہ گواہیوں کو تسلیم کر لیا ہے۔مولانا مفتی منیب الرحمن کا کہنا تھا کہ جب چاند نظر آ ہی نہیں سکتا تھا، تو پھر جو حضرات اسے دیکھنے کا دعویٰ کر رہے تھے، ان کی کڑی جانچ پرکھ اور کرید پڑتال ضروری تھی، جیسا کہ اگر ایک شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ لاہور سے کراچی بذریعہ کار ایک گھنٹے میں پہنچ گیا ہے،اور اپنے حق میں گواہ پیش کر دے تو بھی اس کا دعویٰ قبول نہیں کیا جائے گا، شفا خانہ امراض دماغی میں البتہ اس کا اور اس کے گواہوں کا معائنہ ضرور کرایا جائے گا…… لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر رویت ہلال کا کوئی احتمال ہی نہ تھا، تو پھر رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کیوں طلب کیا گیا؟ اور یہ کہ خود مولانا مفتی منیب الرحمن بھی اس طرح کی مشکوک فضا میں کمیٹی کا اجلاس طلب کرتے، اور چاند کا اعلان کرتے پائے جاتے رہے ہیں …… کئی علما یہ کہتے ہوئے میدان میں آ گئے کہ احتمال تو موجود تھا،اور اسی بنیاد پررویت ہلال کا دعویٰ یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔جمعہ کی عید کے حوالے سے ایک خلجان یہ تھا کہ مبینہ طور پر دو خطبے حکمرانوں پر بھاری ہوتے ہیں، عید کے ساتھ جمعے کا خطبہ بھی مل جائے تو پھر اہل ِ اقتدار کے لیے بدخبری کا باعث بن جاتا ہے۔یہ افواہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے آخری سالوں میں اس قدر عام ہوئی کہ جمعے کی عید سے ان کے متعلقین و متوسلین گھبرا گئے۔ اس زمانے میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی تو ہوا نہیں کرتی تھی، اس کا ڈول بعد میں ڈالا گیا، اس لیے حکام نے کوشش کی علمائے کرام بدھ کو چاند دیکھنے کا اعلان کر دیں، مثبت جواب نہ ملنے پر چند بڑے بڑے علما گرفتار کر لیے گئے۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے پریس نوٹ میں ان حضرات کے نام کے ساتھ مولانا کے بجائے مسٹر کا لاحقہ لگایا گیا تھا، مسٹر ابوالاعلیٰ مودودی، مسٹر اختشام الحق تھانوی وغیرہ، لوگوں کی بڑی تعداد نے عید جمعہ ہی کے روز منائی، اور ایوب خانی اقتدار کو دو خطبوں کا ”بوجھ“ اٹھانا پڑ گیا۔ اب بھی بہت سوں کو برسوں پرانا واقعہ یاد آیا، لیکن دلچسپ معاملہ یہ تھا کہ جمعتہ المبارک کو عید منانے پر اپوزیشن نہیں محترم فواد چودھری بضد تھے، اس لیے عمرانی اقتدار اس بوجھ تلے اس طرح نہ دب پایا،جس طرح ایوب خانی اقتدار دبا ہوا پایا گیا تھا۔
بہرحال…… جمعرات کو قوم کی بھاری تعداد نے عید منائی، چند فی صد ہی معاملہ جمعہ تک لے جا سکے۔ مولانا مفتی تقی عثمانی اور بعض دوسرے اکابر نے مشکل یوں آسان کر دی کہ:جس کو اللہ نے فیصلہ کرنے کا حق اور صلاحیت دی ہے، وہ اگر یہ اعلان کرے کہ ہمارے سامنے ایک جم غفیر نے شہادت دی ہے تو پھر ہماری ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ ہم اس کے اعلان کے پابند ہیں، اگر قاضی (رویت ہلال کمیٹی) یہ اعلان کرے کہ چاند نظر آ گیا ہے تو ہمارے لیے حجت ہے، اس میں شک و شبہ پیدا کرنے کی ضرورت نہیں …… اگر تمام شہادتوں کو یک جا کرنے کی کوششوں میں دیر ہوئی تو یہ بھی کوئی قابل ملامت بات نہیں ہے۔ الحمدللہ عیدالفطر صحیح وقت پر ہوئی ہے اور صحیح طریقہ پر ہوئی ہے،روزہ قضا کرنا شرعاً کسی کے ذمے واجب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انتشار و افتراق سے محروم رکھے……سو باتوں کی ایک بات یہی ٹھہری کہ چاند کا اعلان کرنا رویت ہلال کمیٹی کی ذمہ داری ہے، کسی اور شخص یا ادارے کی نہیں۔ حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن کے دور میں بھی یہی رائے صائب تھی اور آج بھی یہی رائے مستند ہے۔ اہل ِ پاکستان کو یہ ایک نکتہ پلے باندھ لینا چاہیے ؎
فرد قائم ربط مِلّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں،اور بیرون دریا کچھ نہیں
اگر حکومت ”چاند کے سوداگروں“ سے نبٹنے کی ہمت یا صلاحیت نہیں رکھتی، تو پھر میڈیا اور قوم کو انہیں نظر انداز کر کے آگے بڑھ جانا چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)