منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کیخلاف ریفرنس پر سماعت، پی ٹی آئی کا غیر دستخط شدہ جواب الجواب کارروائی سے حذف کر دیا گیا

منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کیخلاف ریفرنس پر سماعت، پی ٹی آئی کا غیر دستخط شدہ ...
منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کیخلاف ریفرنس پر سماعت، پی ٹی آئی کا غیر دستخط شدہ جواب الجواب کارروائی سے حذف کر دیا گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن )منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے دوران   الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے غیر دستخط شدہ جواب الجواب کو حذف کرتے ہوئے  دستخط شدہ جواب الجواب  کو منظور کرلیا۔

 چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن  منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کے خلاف ریفرنس کی سماعت کر رہاہے ،  پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بیان حلفی اور جواب الجواب  کی دستخط شدہ کاپی جمع کرا دی گئی ۔ منحرف ارکان کے وکیل نے  کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نیا جواب الجواب آج جمع کرا دیا گیا ہے ، گزشتہ سماعت پر جو جواب الجواب جمع کرایا  اس کی کیا حیثیت ہے ، عمران خان نےآج اپنےبیان سےیوٹرن لےلیاہے، عمران خان الیکشن کمیشن پرعدم اعتمادکررہےہیں،  گزشتہ جواب الجواب پہلےالیکشن کمیشن کےریکارڈپرلایاجائے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ  عمران خان کودستخط شدہ کاپی جمع کرانےکی ہدایت کی تھی، غیردستخط شدہ دستاویزات جمع کرانےکےکیانتائج ہوسکتےہیں؟۔منحرف ارکان کے وکیل نے الیکشن کمیشن سے استدعا کی کہ  نئےجواب الجواب کومسترد کیا جائے ، جواب الجواب کی آڑمیں مزیدریکارڈجمع کرایاگیا۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ  دیکھناہےجواب الجواب میں جمع ریکارڈکیس کاحصہ بناناہےیانہیں۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے غیر دستخط شدہ جواب الجواب کو کارروائی سے حذف کرتے ہوئے  آج جمع کرایا گیا دستخط شدہ جواب الجواب منظور کرلیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ  آج جمع کرائےگئےجواب کےتحت کارروائی بڑھائی جائے۔

 علیم خان کےوکیل بیرسٹرسلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ  63 اےکےتحت پارلیمانی پارٹی ارکان کوہدایات جاری کرتی ہے، پارٹی پالیسی جاری نہ کرنےپرآرٹیکل 63 اےکااطلاق نہیں ہوتا، پارلیمانی پارٹی اورپارٹی چیئرمین میں واضح فرق ہے۔ممبر الیکشن کمیشن ناصر درانی نے پوچھا کہ  کیاپارلیمانی پارٹی کالیڈربھی پالیسی جاری کرسکتاہے جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ  نے کہا کہ  پارٹی چیئرمین ہدایات جاری نہیں کرسکتا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ  الیکشن کمیشن پہلےدستاویزات اصل ہونےکافیصلہ کرے، پارٹی چیئرمین کی جانب سےعلیم خان کوپالیسی سےآگاہ نہیں کیاگیا، پارٹی پالیسی کافیصلہ ایک شخص نہیں پارلیمانی پارٹی کرتی ہے،پارٹی چیئرمین کی جانب سےعلیم خان کوشوکازنوٹس جاری نہیں ہوا، ریفرنس تیارکرنےکیلئےجعلی دستاویزات استعمال کی گئیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جمہوریت میں پارلیمانی پارٹی کے اندر گفت و شنید ہونا ضروری ہے،آئین میں اہم فیصلے کرنے کا اختیار پارلیمانی پارٹی کو دیا گیا ،وزیراعلیٰ کے الیکشن کیلئے ہدایات پارلیمانی پارٹی کی جانب سے آنی تھیں، پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ نہ آنے پر ارکان کسی کو بھی ووٹ دینے کیلئے آزاد تھے،وزیر اعلیٰ کےلیےدوسری پارٹی کے رکن کا انتخاب کیا گیا۔ ممبر نثار درانی نے پوچھا کہ سب سیاسی جماعتوں کے اندر ایسی ہی صورتحال ہے؟،ممبر شاہ محمد جتوئی نے کہا کہ  پارٹی پالیسی کے خلاف جا کر تحریک عدم اعتماد آئی۔ بیرسٹرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جمہوریت میں پارٹی کے اندر اختلافی بات بھی سنی جاتی ہے، پارٹی ارکان کے وزیر اعلیٰ کیلئے دوسری جماعت کی حمایت پر اعتراض تھے۔

سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا کہ عمران خان نے یکطرفہ طور پر پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار نامزد کیا، پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کی بجائے ارکان کو عمران خان کی جانب سے ڈکٹیٹ کیا گیا، پارٹی چیئرمین کی یہ ہدایت بھی علیم خان کو موصول نہیں ہوئی،  علیم خان کے خلاف الزامات کا کوئی وجود نہیں،  شوکاز نوٹس آرٹیکل 63 اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

ممبر نثار درانی نے پوچھا کہ ارلیمانی پارٹی کی ہدایت نہ ہو تو رکن ووٹ ڈالنے میں آزاد ہوتا ہے؟،سپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد تھا یا نہیں؟۔ بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر تھا، سپیکر خود بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے امیدوار تھے،ہائیکورٹ حکم کے مطابق ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی صدارت کی۔

سلمان اکرم راجہ نے بھی الیکشن کمیشن سے درخواست کی کہ الیکشن کمیشن آج جمع کرائے جواب الجواب کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنائے۔ بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آج الیکشن کمیشن میں نیا جواب الجواب جمع کرایا گیا، سبطین خان اور سید عباس علی شاہ نے عمران خان کی جانب سے جواب الجواب جمع کرایا،  عمران خان نے جواب الجواب اپنے نام سے جمع نہیں کرایا،  کچھ تو ہے جو عمران خان اپنی بجائے کسی اور کے نام سے ریکارڈ جمع کرا رہے ہیں، جعلی جواب الجواب جمع کرانے کے سنگین نتائج ہیں، قانون شہادت آرڈر کے تحت جواب الجواب کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

مزید :

قومی -