تنہائی کی محفل اور خود سے ہم کلامی

تحریر :ڈاکٹرسرور حسین
زندگی مسلسل تگ و دو کا نام ہے اور اس کا مزہ بھی اسی میں ہے کہ آپ اپنے گولز اچیو کرتے چلے جائیں اور پھر نئی منزل کی طرف نکل پڑیں۔ لگن اور محنت کا لطف ایسا ہے کہ یہ انسان کو تھکنے نہیں دیتا اور وہ ایک سے ایک مشکل کام کرتا چلا جاتا ہے۔زندگی کے سفرمیں پیچھے مڑ کے دیکھوں تو حیرتوں کے کئی دریچے کھلنے لگتےہیں اور اس کی رحمتوں کا سائبان قدم قدم سایہ فگن دکھائی دیتا ہے۔ نعت کے ساتھ میرا تعلق اوائل عمری سے ہی ہے اور سچی بات ہے کہ وقت بے وقت کی مصروفیت زندگی کو ایک ترتیب میں نہیں رہنے دیتی۔دن رات کا سفر، سونے جاگنے، کھانے پینے کے معمولات کبھی منظم ہو ہی نہیں پائے لیکن اس کے باوجود حتی الامکان کوشش کی کہ جہاں تک ممکن ہو انھیں ایک تہذیب کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔اس نسبت سے شہر شہر اور ملکوں ملکوں سفر بھی کیے، لوگوں کی عقیدتیں اور محبتیں بھی سمیٹیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ فکر ضرور دامن گیر رہی کہ جس فن کے سبب دنیا بھر میں ایک پہچان اور شناخت میسر آئی ہے اس کے لیے میرے بھی ذمے ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا کروں جو قلبی اطمینان کا باعث ہو ۔پرفارمنگ آرٹ سے تعلق رکھنےو الوں کے لیے تعلیم جیسے سنجیدہ عمل کی اتنی اہمیت نہیں رہ جاتی۔
جب آپ پر ایک طرف تو شہرت کی برکھا برس رہی ہو، دوسری طرف آپ کی ضروریات زندگی بھی آسانی سے پوری ہونے لگیں اور لوگوں کی محبتیں بھی نچھاور ہوتی چلی جا رہی ہوں تواس ساری صورت حال جس کو جدید اصطلاح میں کمفرٹ زون کہا جاتا ہے سے باہر نکلنا واقعی ایک مشکل ترین عمل ہے۔شہرت مل جانے سے ایک طرف امتیازی حیثیت کا مقناطیس اپنی ہی طرف کھینچے رکھتا ہے، مالی ضروریات کی فراہمی سے زندگی کی تگ ودو سے انسان دور ہوتا چلا جاتا ہے اور احباب کی محبتیں آپ کو مسند نشین کر کے رکھ دیتی ہیں اور اس سے باہر آنا واقعی کوئی آسان کام نہیں ہے۔لیکن بھلا ہو والدین اور سکول کے اساتذہ کا کہ انھوں نے ہمیشہ عملی زندگی کی اہمیت سے نکلنے نہیں دیا اور غیر محسوس طریقے یہ بات کہیں ذہن میں سرائیت کرتی چلی گئی کہ کہیں رکنا اور تھمنا نہیں ہے۔
گزشتہ تین چار برسوں کے دوران ذہنی و فکری طور پر مقالے کی تکمیل کی مصروفیت سے فراغت پاتے ہی پہلا کام حرمین شریفین کی طرف فوراً حاضری کا ارادہ کیا اور 28 رمضان المبارک کو جب مدینہ منورہ کی فلائیٹ کے لیے روانہ ہوا تو ایک طرف تسکین و تشکر مجھے سمیٹے ہوئے تھے اور دوسری طرف زندگی کے ایک اہم ترین ہدف کی تکمیل پر ذہنی آسودگی کا سائبان بھی تنا ہوا تھا۔ بہت عرصے بعد کسی سفر میں اپنے لیپ ٹاپ کے بغیر جا رہا تھا جو مقالے کی تکمیل کے دوران کہیں بھی اندرون و بیرون ملک مجھ سے جدا نہیں رہا اور سفر میں جہاں کہیں بھی موقع ملتا مقالے کے مختلف ابواب پر کچھ نہ کچھ کام کرتا رہتا ۔
حرمین کا سفر ہر حال میں آسودگی، طمانیت اور راحتوں کے سامان کا باعث ہوتا ہے لیکن اس بار کچھ اور ہی رنگ تھا۔پہلی بار تھا کہ میں کسی ہمسفر کے ساتھ نہیں بلکہ اکیلے سفر کر رہا تھا۔اس بار مجھے کچھ دن اپنے ساتھ تنہا گزارنے تھے ۔تنہائی کی محفل کی بھی اپنی ہی جمال آفرینی ہے، اکیلے پن کا بھی اپنا ہی جمگھٹا ہے اور خود سے ہم کلامی کا بھی اپنا ہی لطف و سرورہے جو بہت کم میسر آتا ہے۔ حرمین شریفین کی حاضریاں اللہ کے فضل سے اب تو یاد بھی نہیں کہ کتنی بار کرم ہوا لیکن یہ حاضری اپنے کیف کے اعتبار سے جداگانہ رنگ کی حامل تھی۔عید حضورﷺ کی بارگاہ میں، سن عیسوی کے اعتبار سے یوم میلاد مدینہ منورہ میں اور پھر اپنا جنم دن بھی پہلی بار سرکار ﷺکے قدموں میں نصیب ہوا جو کئی حوالوں سے ا ن مٹ نقوش چھوڑ گیا ۔
کووڈ 19کے بعد اگرچہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ حاضر ہونے والوں کے لیے بہت ساری تبدیلیاں آ چکی ہیں اور زائرین کے اخراجات کے ساتھ ساتھ مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے جس کے کچھ پہلوؤں پر آئندہ "خیر طلبی " میں آگاہ کیا جائے گا ۔ دوسری طرف سعودی عریبیہ میں ہر پاکستانی کو ملکی حالات کے حوالے سے فکر مند پایا اور واپس آتے ہی چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کی کسی فلمی سین جیسی گرفتاری ، اس کے بعد ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ اور ملکی املاک کا شدید نقصان اور حالات کی اس درجہ بے یقینی اور بے ترتیبی نے آتے ہی بری طرح آزردہ کرکے رکھ دیا ہے۔جانے ملک کے فیصلہ سازوں کو کب یہ خیال آئے گا کہ کسی بھی درخت کی جڑوں کے کھوکھلا ہو جانے سے اس کی شاخیں کبھی ہری نہیں رہ سکتیں۔ہماری انفرادی آسودگی کے خود ساختہ اطمینان نے ہمیں اجتماعی ملکی و قومی مفاد پر سوچنے سے کوسوں دور کر دیا ہے۔شاید اسی لیے جناب حفیظ تائب نے کہا تھا:۔
یا نبیؐ اب تو آشوب حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دئیے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبیؐ
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں