چودھری رحمت علیؒ کا تصورِپاکستان

چودھری رحمت علیؒ کا تصورِپاکستان
چودھری رحمت علیؒ کا تصورِپاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عام طور پر جب کوئی چیز تیار کی جارہی ہوتی ہے،تواس چیز کے تیار کئے جانے کے کچھ مقاصد بھی طے کئے جاتے ہیں۔اور یہ بھی ایک تجربہ شدہ بات ہے کہ مقاصد خود بھی کسی چیز کے تخلیق کئے جانے کا سبب بن جاتے ہیں۔یعنی جب مسلمانانِ برصغیر پاک و ہند نے یہ محسوس کیا کہ جس ہندو قوم کے ساتھ وہ پچھلی کئی صدیوں سے رہتے آ رہے ہیں،اس قوم کے ساتھ اب مزید رہنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے،تو انہوں نے یہ سوچنا اور کوشش کرنی شروع کر دی کہ ہندوستان میں ایک نئی علیحدہ، آزاد اور مسلمان ریاست کیسے قائم کی جائے؟چنانچہ ان کی سوچ اور خیال نے نئی ریاست کی تجسیم و تشکیل شروع کر دی۔ویسے تو جس طرح قائداعظم ؒنے کہا کہ برصغیرپاک و ہند میں ایک نئے مسلم ملک کی بنیاد اسی وقت پڑ گئی تھی جب یہاں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔یہی بنیادی نکتہ ہے ،لیکن اس نکتے کی باریکی یہ ہے کہ پہلے ایک ہندو مسلمان ہوا پھر بہت سارے لوگ مسلمان ہو گئے۔پھر ان مسلمانوں نے اپنے دین اسلام کے مطابق ماحول اور تہذیب و تمدن کی ضرورت محسوس کی پھر یہ محسوس کیا کہ خالص اسلامی تہذیب وتمدن اوراسلامی معاشرہ کا قیام ہندوستان میں ہندو اکثریت کی موجودگی میں ممکن نہیں کیونکہ ہندو مکار بھی ہے اور حاسد بھی اور اسلامی ماحول کو کسی صورت بھی قائم نہیں رہنے دے گا۔تو مسلمانوں نے اپنے زندہ رہنے کے لئے ایک علیحدہ اسلامی ملک کے قیام وتشکیل کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔ان کوششوں کو شکل و صورت مسلمانوں کے اس وقت کے جن عظیم قائدین نے فراہم کی ان میں چودھری رحمت علی کا نام نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ انہوں نے نئی اسلامی ملک کے مجوزہ علاقوں،مجوزہ طرزِتہذیب اور مجوزہ ملک کی زبان و ثقافت کے عین مطابق اس ملک کا نام تجویز کر کے دے دیا۔یہ نام تھا ”پاکستان“۔یہ بات طے شدہ ہے کہ چودھری رحمت علی اس وقت کے کوئی جذباتی نوجوان نہیں تھے۔بلکہ ان کا ایک خاندانی،قومی اور علمی و عقلی پس منظر تھا۔جس پسِ منظر میں انہوں نے اس ملک کا نہ صرف نام رکھا بلکہ ایک نظریہ بھی تشکیل دیااور اس نظریہ پر تاحیات کاربند رہے۔

چودھری رحمت علیؒ کے حالات زندگی ان کی تصانیف،بیانات،انٹرویوزاور گوناگوں سرگرمیوں کے عمیق مطالعہ کے بعدہم اس لازمی نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ ان کی زندگی کے چند بنیادی اور اعلیٰ مقاصد تھے ان کی تمام سرگرمیوں کا مرکزی نکتہ اسلامی نظریہ حیات اور قیام پاکستان تھا۔ان کا نظریہ پاکستان دراصل ان کے تصور اسلام ہی کا شجربار آور تھا۔جب سے انہیں اپنے مقصد حیات کا شعوری ادراک ہوا تھا وہ مسلمانانِ ہند کیلئے مکمل آزادی اور عالم اسلام کے اتحاد کے علمبردار بن گئے تھے۔جیسا کہ اس سے پیشتر بیان کیا جاچکا ہے کہ انہوں نے تقسیم ہند کا مطالبہ اپنی قائم کردہ سوسائٹی ”بزم شبلی “کے پلیٹ فارم سے بلند کیا تھابعدازاں وہ الگ آزاد خطہ زمین کے نعرہ کو ہر جگہ بلند کرتے رہے۔یہی نظریہ پاکستان ان کی قومی عظمت،ملی خدمت اور بین الاقوامی شہرت کا ذریعہ بن گیا ہے۔
ان کے تصور پاکستان کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں©:
مغربی تصور قومیت کی رو سے ایک خاص خطہ زمین میں رہنے والے تمام انسان بلا امتیاز ثقافت و مذہب ایک قوم ہیں۔مغربی نظامِ سیاست چونکہ دین و سیاست کی جدائی کا حامی ہے اس لیے یہ لادین نظریہ قوم وہاں مروج ہے۔ہندولیڈر اور ان کے حاشیہ نشین مسلمان بھی ہندوستان میں بسنے والے تمام لوگوں کو ایک ہی قوم تسلیم کرتے تھے۔علامہ اقبالؒ کی طرح چودھری رحمت علیؒ بھی اس مغربی اور کانگریسی نظریہ قومیت کے شدید مخالف تھے۔وہ ہندوستان میں ایک قوم یعنی ہندوو¿ں کے علاوہ دیگر قوموں کے وجود میں پختہ ایمان رکھتے تھے۔اس لیے وہ اسلامیان ہند کی مذہبی اور ثقافتی قدروں کی حفاظت کیلئے مکمل طور پر آزادی کے حق میں تھے۔ چودھری رحمت علیؒ اپنی تنظیم ”پاکستان نیشنل موومنٹ“کی پاکیزہ آئیڈیالوجی اور مشترک ہندوستانی قومیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:  The effect of pak ideology on the myth of Indian has been devastating .It has“ destroyed the cult of the uni-nationalism and uni-territorialism of India and created instead the creed of the multi-nationalism and multi-territorialism of India.''
(The fatherland of the pak nation, p_2_5)
اس میں شک نہیں کہ دنیا میں عروج و زوال کا قانون رائج ہے۔ افراد کی مانند قومیں بھی زندگی اور موت کے مراحل سے گزرا کرتی ہیں۔جو قومیں قوانین فطرت اور ہدایت خداوندی کے ابدی ضابطوں کی پیروی کرتی ہیں وہ صفحہ دہر سے نیست و نابود نہیں ہوتیں۔اس کے برعکس عمل نہ کرنے والی قومیں ابد تک باردوش روزگار نہیں رہ سکتیں۔ چودھری رحمت علیؒملک کو تو عارضی مان سکتے ہیں مگر وہ ابدی حقائق کی حامل قوم کو فنا پذیر تسلیم نہیں کرتے۔ان کی رائے میں حکمران اور ملک بدلتے رہتے ہیں لیکن زندہ اقدار حیات میں ایمان رکھنے والی اقوام فنا نہیں ہوتیں۔وہ ملت اسلامیہ کو زندہ و پائندہ قوم سمجھ کر اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں:
-------While empires, by their very creation, are ephemeral: Nations, by their “ very nature, are eternal. Unlike empires, they may declinein power and prestige, but they never disappear----as long as they actively believe in their future, they can survive any crisis in their fate. And no wonder: for faith spells, life, and defeatism demise.''
(Ibid: P_209)
علامہ اقبالؒ بھی اہلِ ایمان کے عارضی زوال کو مانتے ہیں مگر وہ خورشید حیات کی مکمل رو پوشی کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
 اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
اسلام کی عالمگیر اور ابدی تعلیمات کی بدولت اس کے ماننے والے دنیا کے مختلف ملکوں میں بس رہے ہیں زبان،رنگ،جغرافیائی حالات اور نسلی تفاوت اسلامی وحدت کی راہ میں حائل نہیں ہونے چاہئیں۔ہر دور اور ہر جگہ   ن مقامی اثرات کے باوجود اسلامی نظریہ حیات کے حامل بن کر اپنے اسلامی تشخص کو بر قرار رکھتے رہےں۔اسلامی مذہب و ثقافت کی یہی ہمہ گیری اس کی مقبولیت و بقا کی ضامن ہے۔ہندوستان میں مسلمان صدیوں سے آباد ہیں اور وہ کسی قدر ہندو تہذیب سے بھی متاثر ہوئے مگر انہوں نے اپنے
مسلمااسلامی تشخص کے نمایاں پہلوو¿ں کو زندہ رکھا۔1857ءکی جنگ آزادی میں مسلمان زوال آمادہ ہو ئے لیکن انہوں نے اسلام کا عطا کردہ پاک نظریہ حیات تو نہیں چھوڑا تھا۔یہی اسلامی تشخص قیامِ پاکستان کا باعث بنا۔ چودھری رحمت علیؒ نے اس کے بارے میں یہ پیشگوئی کی تھی:
------Thought our defeat of 1857 suspended our national sovereignty in “ pakistan and superessed our imperial supremacy in dinia, it did not extinguish our nationhood. Indeed, it could not. For that remaind eternally embodied in our people,living in our homelands.
(Ibid: P_209)
چودھری رحمت علیؒ دو الگ تہذیبوں اور مذہبوں کے اختلاف کے سبب مسلمانوں کو ہندوو¿ں سے جدا سمجھتے تھے اس لیے وہ اسلامی اقدار اور ثقافتی تحفظ کیلئے تقسیم ہند کے قائل تھے۔انہوں نے اپنی تنظیم ”بزم شبلی“کے ایک اجلاس منعقدہ 1915ءمیں یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا:
North of india is Muslim and we will keep it Muslim. Not only that we will make“ it a muslim state. But this we can do can only if and when we and our north cease to be Indian-----So the sooner we shed indianism, the better for us all and for Islam.
(Ibid: P_214)
علامہ اقبالؒ بھی اسلامی قومیت کے حامی اور مغربی قوم پرستی کے سخت ناقد تھے جیسا کہ وہ بانگ درامیں فرماتے ہیں:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی  
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
قیام پاکستان کو چودھری رحمت علیؒ بالآخر عالم اسلام کے اتحاد کا موثر مرکزو محور بنانے کے خواہاں تھے۔وہ مسلمان ممالک کو متحد کرنے سے پہلے مسلمانانِ ہند کی مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے تاکہ یہ مکمل طور پر آزاد اسلامی ملک دیگر مسلمان ممالک کے ساتھ ایک وفاق میں منسلک ہو سکے۔اس بارے میں ان کی یہ رائے ملاحظہ ہو وہ فرماتے ہیں:
--We Muslims are a milat distinet from the caste hindoo jati,--our destin lies in integration with other muslims, and not with caste hindoo.
 (Ibid: P_213)
مندرجہ بالا حقائق و تفصیلات سے چودھری رحمت علیؒ کا نظریہ اور ان کی سوچ اور عمل کے مطابق ان کا نظریہ پاکستان واضح ہو جاتا ہے۔اپنے اس نظریہ سے وہ تاحیات وابستہ رہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانانِ برصغیر کے اس محسن کو کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔(آمین)     ٭

مزید :

کالم -