پاکستان سمندری نمک برآمد کرکے 20 ارب ڈالر زرمبادلہ کماسکتا ہے
کراچی(آن لائن)وفاقی حکومت گڈانی، ڈام تاگوادرکے درمیان 800 کلومیٹر کے ساحلی بیلٹ پر مائننگ لیز کے تحت 25 نمک فیکٹریزقائم کرنے کی اجازت دے تو پاکستان سالانہ 25 کروڑ ٹن ہائی کوالٹی سمندری نمک عالمی مارکیٹ میں برآمد کرکے 20 ارب ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔سمندری، لیک اور راک سالٹ کے مینوفیکچرر اور لسبیلہ چیمبر آف کامرس کے سابق صدراسماعیل ستار نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ دنیا میں فی الوقت 30 کروڑ ٹن نمک کی سالانہ کھپت ہے جس میں 15 تا 20 کروڑٹن نمک کی کھپت چین، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، عمان، ابوظبی، قطر، کویت اور سعودی عرب میں ہوتی ہے جبکہ نمک کی مجموعی کھپت کا صرف2 فیصد خوراک میں استعمال ہوتا ہے، دنیا بھر میں ہائی کوالٹی سمندری نمک کا استعمال صنعتی شعبے میں ہوتا ہے خصوصاً کلوروایلکلی بنانے کے لیے جس معیار کا نمک درکار ہوتا ہے اس کی ایک وسیع مقدارکی پاکستان میں تیاری ممکن ہے۔سمندری نمک کی مینوفیکچرنگ کے لیے سالٹ انڈسٹری کو نہ بجلی اور نہ ہی گیس کی ضرورت ہے البتہ حکومتی تعاون اور متعلقہ اداروں کی توجہ اس شعبے کی اہم ضرورت ہے، یہ شعبہ غیرروایتی پروڈکٹ برآمد کر کے زرمبادلہ میں آمدنی کو وسیع پیمانے پر بڑھانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ فی الوقت آسٹریلیا اور میکسیکو ہائی کوالٹی نمک کی پیداوار میں اپنے معمولی نوعیت کے پیداواری حصے کے باوجود بین الاقوامی نمک منڈی میں اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں جو نہ صرف طلب ورسد بلکہ قیمتوں کو بھی کنٹرول کر رہے ہیں، یہ ممالک ہائی کوالٹی سمندری نمک سے ”کلوروایلکلی گریڈ آف سالٹ“ کی مینوفیکچرنگ کررہے ہیں جس کی عالمی مارکیٹ میں 80 ڈالر فی ٹن قیمت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نمک کی عالمی منڈی میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس ضمن میں وزیراعظم نوازشریف کو براہ راست دلچسپی لینا پڑے گی کیونکہ بھاری زرمبادلہ کمانے کی صلاحیت کا حامل پاکستان کا یہ واحد شعبہ ہے جسے نہ بجلی اور نہ گیس کی ضرورت ہے بلکہ حکومت کی جانب سے صرف گڈانی،ڈام تا گوادر800 کلو میٹر سمندری پٹی پر اراضی کی ضرورت ہے جو فی الوقت کسی کام میں نہیں آرہی، اگر اس سمندری پٹی پر حکومت مائننگ لیز کے تحت رقبہ فراہم کرے تو 25 سالٹ فیکٹریاں قائم اور 20 ہزار مقامی افراد کو روزگار بھی دیا جا سکتا ہے۔ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ گڈانی، ڈام تا گوادر ساحلی پٹی ہائی کوالٹی سمندری نمک کی پیداوار کے لیے مثالی ہے کیونکہ سمندری نمک کی پیداوار کے لیے ساحلی پٹی سے متصل مطلوبہ اراضی کے علاوہ سورج کی شعائیں اورہوا کی ضرورت ہوتی ہے جو مذکورہ پٹی میں وافر مقدار میں دستیاب ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہائی کوالٹی سمندری نمک کی ڈیمانڈ چونکہ قریبی ممالک میں ہی زیادہ ہے اس لیے پاکستانی نمک کے برآمدی اخراجات بھی کم ہوں گے۔