مرے کالج اور علامہ محمد اقبالؒ

مرے کالج اور علامہ محمد اقبالؒ
 مرے کالج اور علامہ محمد اقبالؒ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بات بالکل سیدھی ہے۔ حقائق مکمل طور پر واضح ہیں، لیکن ایک بے علم آدمی بعض اوقات اپنی جہالت کے باعث معاملات کو الجھا دیتا ہے۔ اسے جو نظر نہیں آتا، اُس کی ضد ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی یہ نظر نہ آئے اور سب اُسی کی طرح نابینا ہوجائیں، دوسرے لوگ بھی عقل سے عاری ہو جائیں اور حقائق کو حقائق تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔

ایک نام نہاد محقق نے سیالکوٹ کی ایک سول عدالت میں دعویٰ دائر کیا تھا کہ مرے کالج سیالکوٹ علامہ محمد اقبالؒ کی مادر علمی نہیں، بلکہ علامہ محمد اقبال نے سکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے سٹوڈنٹ کے طور پر 1895ء میں ایف اے کیا تھا۔ نام نہاد محقق کا یہ دعویٰ 15۔اپریل2017ء کو عدم پیروی کی بنیاد پر خارج ہوچکا ہے۔

دعویٰ دائر کرنے والے صاحب کو میں صرف کہنے کی حد تک محقق، لیکن اصل میں تحقیق کے رموز و اسرار سے ناواقف لکھنے پر اس لئے مجبور ہوں کہ علامہ اقبالؒ کے بارے میں اس تحقیق کی تو قطعی طور پر ضرورت نہیں ہے کہ وہ سکاچ مشن کالج سیالکوٹ میں پڑھتے رہے ہیں، اور جب علامہ اقبالؒ نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا تو وہ سکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے طالب علم تھے، کیونکہ علامہ اقبالؒ کی انٹرمیڈیٹ کی سندپر تحریر ہے کہ وہ سکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے سٹوڈنٹ تھے، اگر کوئی شخص علامہ اقبالؒ کی صرف یہ سند دیکھ لے تو اُسے اس تحقیق کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کہ علامہ اقبالؒ کی ایف اے تک تعلیم کے ادارے کا نام کیا تھا؟


اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نے طویل مدت تک سیالکوٹ کی قدیم تاریخ اور علامہ اقبالؒ کے بارے میں تحقیق کی ہے اور پھر صرف اس اکیلے ہی پر یہ راز منکشف ہوا ہے کہ علامہ اقبال کی مادر علمی سکاچ مشن کالج ہے تو یہ دعویٰ بڑا ہی مضحکہ خیز ہوگا۔

1968ء میں شائع ہونے والے پنجاب یونیورسٹی کے اُردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ کی تیسری جلد کے ضفحہ 8پر بھی واضح طور پر تحریر ہے کہ علامہ اقبالؒ نے ایف اے کا امتحان سکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے پاس کرکے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا، اس لئے یہ دعویٰ کرنا کہ 2017ء میں صرف مجھے ہی علم ہوا ہے کہ علامہ اقبالؒ نے جب ایف اے کیا تھا، ان کے تعلیمی ادارے کا نام سکاچ مشن کالج تھا، ایک خارج از عقل دعویٰ اور بحث ہے۔

’’اقبال کی ابتدائی زندگی‘‘ کے نام سے ایک مستند ترین کتاب لکھنے والے نامور محقق ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین کا بھی یہی مؤقف ہے کہ جب علامہ اقبالؒ نے ایف اے کا امتحان پاس کیا تو اس وقت ان کی مادر علمی کا نام سکاچ مشن کالج تھا، لیکن ہر اہل نظر اور اہل علم شخص جو علامہ اقبالؒ کی زندگی کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات بھی رکھتا ہے، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ 1909ء میں علامہ اقبالؒ کی مادرِ علمی سکاچ مشن کالج کو ایک انگریز فوجی افسر مسٹر مرے کے نام سے منسوب کردیا گیا تھا۔


نام تبدیل کردینے سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ علامہ اقبالؒ نے جس تعلیمی ادارے کے طالب علم کے طور پر ایف اے کیا تھا، پھر اسی عظیم ادارے کا نام مرے کالج رکھ دیا گیا تھا۔

جس طرح لائل پور کا نام جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں فیصل آباد رکھ دینے سے کیا یہ حقیقت بدل سکتی ہے کہ جو لوگ لائل پور کے شہری تھے، وہ اب کسی اور شہر کے شہری ہو چکے ہیں۔ لائل پور اور فیصل آباد دونوں ایک ہی شہر کے نام ہیں۔

جو اَب فیصل آباد ہے، وہی لائل پور تھا۔ اسی طرح ساہیوال کا نام پہلے منٹگمری تھا، بلکہ منٹگمری کا نام دیئے جانے سے پہلے بھی اس شہر کا نام ساہیوال تھا۔ گویا اس شہر کا نام دومرتبہ تبدیل ہوا، لیکن نام تبدیل ہونے سے شہر تبدیل نہیں ہوا۔

کوئی سمجھ دار، کوئی صاحب ہوش اِنسان شہر کا نام بدل جانے کے بعد اس طرح کی بحث میں نہیں پڑسکتا کہ وہ منٹگمری سے تو تعلق رکھتا تھا، لیکن ساہیوال سے نہیں۔

اسی طرح علامہ اقبالؒ کی مادر علمی کا نام تبدیل ہونے سے یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہے گی کہ علامہ اقبالؒ کے سیالکوٹ میں تعلیمی ادارے کا سابقہ نام سکاچ مشن کالج تھا اور موجودہ نام مرے کالج، بلکہ سرکاری تحویل میں لئے جانے کے بعد گورنمنٹ مرے کالج ہے۔


مرے کالج کی 75سال کی تاریخ پرانگریزی زبان میں ایک کتاب ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین نے تحریر کی ہے۔ یہ کتاب 2012ء میں شائع ہوئی تھی، لیکن مصنف اور محقق نے اپنا کام 1889ء سے لے کر 1963ء تک محدود رکھا ہے۔ مصنف نے اس کتاب کے صفحہ 9پر یہ حقائق تحریر کئے ہیں کہ 1895ء میں سکاچ مشن کالج کے کل 5طلباء نے ایف اے کا امتحان پاس کیا،جن میں ایک شیخ محمد اقبال بھی تھے۔ ظاہر ہے وہ اس وقت علامہ محمد اقبالؒ نہیں تھے، نہ ہی حکیم الامت تھے، نہ ہی شاعر مشرق تھے، نہ ہی ترجمانِ حقیقت تھے اور نہ ہی خودی کے پیغامبر تھے۔

سکاچ مشن کالج (موجودہ) مرے کالج سیالکوٹ) کے طالب علم محمد اقبال کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ مستقبل میں ملت اسلامیہ کا عظیم شاعر بھی ہوگا، مفکر بھی ہوگا اور صاحب عرفان و و جدان بھی ہوگا۔

اب کوئی احمق اگر عدالت میں یہ دعویٰ دائر کردے کہ 1895ء میں سکاچ مشن کالج سے ایف اے کرنے والا محمد اقبالؒ کوئی اور تھا اور علامہ محمد اقبالؒ ایک اور شخصیت کا نام ہے تو ہمارے پاس اس کا کیا علاج ہوگا؟


ذکر ہورہا تھا، سید سلطان محمود حسین کی تاریخ مرے کالج کا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس سکاچ مشن کالج سے علامہ محمد اقبالؒ نے ایف اے کیا تھا اُسے ڈاکٹر سلطان محمود حسین نے مرے کالج سیالکوٹ کی تاریخ کا حصہ کیوں بنایا؟۔۔۔ اس لئے کہ سکاچ مشن کالج اور مرے کالج ایک ہی ادارے کے نام ہیں۔

ایک نیا نام اور ایک سابقہ نام۔ مرے کالج سیالکوٹ کا نام 1989ء سے لے کر 1908ء تک سکاچ مشن کالج رہا اور 1909ء میں سکاچ مشن کالج نئی عمارت میں منتقل کردیا گیا اور کالج کا نام مرے کالج رکھ دیا گیا۔ کالج کا نام بدلنے سے کالج کی ملکیت کسی اور ادارے یا شخص کو منتقل نہیں ہوئی۔

یہ ادارہ جب 1889ء میں قائم ہوا، اُس وقت بھی چرچ آف سکاٹ لینڈ کی ملکیت تھا اور چرچ آف سکاٹ لینڈ نے ہی اس کالج کا نام، جس کے طالب علم علامہ اقبالؒ بھی تھے، مرے کالج رکھ لیا۔ جب 1895ء میں علامہ اقبالؒ نے ایف اے کا امتحان پاس کیا تھا، اُس وقت کالج کے پرنسپل مسٹر جارج واگ تھے۔

جارج واگ 1890ء سے 1896ء تک کالج کے پرنسپل رہے۔ پھر وہ 1899ء سے 1905ء تک پرنسپل رہے۔ تیسری مرتبہ مسٹر جارج واگ 1908ء سے لے کر 1912ء تک کالج کے پرنسپل رہے۔ اس عرصے میں مولوی میر حسن بھی مسلسل بطور استاد کالج سے وابستہ رہے۔

جس دن سے سکاچ مشن کالج کا نام تبدیل ہو کر مرے کالج سیالکوٹ قرار پایا۔ کالج کے وہی ساتذہ، کالج کے وہی طلباء اور کالج کا تمام تر ریکارڈ مرے کالج کو منتقل ہوگیا۔ نہ تو نئی عمارت اور نہ ہی نئے نام سے اس حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی کہ سکاچ مشن کالج ہی مرے کالج سیالکوٹ ہے۔۔۔ تو پھر جھگڑا کس بات کا؟ فتور صرف دماغ کا ہے کہ موجودہ مرے کالج کو سکاچ مشن کالج سیالکوٹ تسلیم نہ کیا جائے۔

علامہ اقبالؒ اگر سکاچ مشن کالج کے طالب علم نہ بھی ہوتے تو بھی یہ سچائی اپنی جگہ موجودہ رہے گی کہ سکاچ مشن کالج کا نام ہی موجودہ مرے کالج یا گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ ہے۔ جس طرح اس سکاچ مشن سکول سیالکوٹ کا موجودہ نام گورنمٹ کرسچین ہائی سکول سیالکوٹ ہے۔ جس سکول سے علامہ اقبالؒ نے مڈل اور میٹرک کے امتحانات پاس کئے تھے۔


مَیں اس وقت یہ کالم اقبال لائبریری پیرس روڈ سیالکوٹ میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں، کیونکہ حوالہ جات کے لئے کچھ کتب کا مطالعہ بھی ضروری تھا۔ انچارج اقبال لائبریری عامر خان بتا رہے تھے کہ یہ لائبریری 1894ء میں منٹگمری لائبریری کے نام سے قلعہ سیالکوٹ پر تعمیر کی گئی تھی۔

پھر 1961ء میں یہ لائبریری علامہ اقبالؒ کے نام سے منسوب کردی گئی۔ عامر خان نے بتایا کہ ہم بھی فخر کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اقبال لائبریری 1894ء میں قائم ہوئی تھی۔

اب اگر کسی شخص نے ہمارے خلاف یہ دعویٰ کردیا کہ 1894ء میں تو سیالکوٹ میں کسی اقبال لائبریری کا وجود نہیں تھا تو ہم کیا کریں گے؟ میں نے انہیں تسلی دی کہ جواب جاہلاں اگرچہ خاموشی ہے، لیکن آپ کو عدالت میں جواب دعویٰ تو داخل کرنا ہی ہوگا۔

اب اگر کوئی یہ دعویٰ عدالت میں دائر کردے کہ وہ سیالکوٹ یا وہ لاہور کوئی اور شہر تھے جو متحدہ انڈیا میں شامل تھے اور پاکستان میں شامل لاہور اور سیالکوٹ کوئی اور ہیں تو اس نامعقولیت کا جواب کیا دیا جاسکتا ہے؟ لیکن حقائق کو درست رکھنے کے لئے بعض اوقات جواب دینا پڑتا ہے۔

یہ کالم لکھنے کی ضرورت بھی مجھے اس لئے پیش آئی کہ 6نومیر2017ء کے روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں ایک خبر شائع ہوئی کہ پنجاب یونیورسٹی نے 108سال بعد مرے کالج کا نام مسترد کرکے سکاچ مشن کالج کو علامہ محمد اقبالؒ کی ’’مادری تعلیمی درسگاہ‘‘ تسلیم کرلیا ہے۔


’’تعلیمی درسگاہ‘‘ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ مادری درسگاہ بھی ایک نئی اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب ماں کی درس گاہ بنتا ہے۔ سکاچ مشن کالج اقبال کی ماں کی درسگاہ ہرگز نہیں، بلکہ مادر علمی ہے اور مرے کالج کا نام کیسے مسترد کیا جاسکتا ہے، کیونکہ مرے کالج ہی سکاچ مشن کالج کا موجودہ نام ہے۔

خبر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ڈاکٹر سید محمد اکرام، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور ڈاکٹر فخرالحق نوری کی طرف سے ایک دستاویز حارث علی سول جج سیالکوٹ کی عدالت میں پیش کی گئی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ دستاویز متذکرہ بالا محترم پروفیسر صاحبان کی تحریر کردہ ضرور ہے، لیکن یہ دستاویز انہوں نے خود کسی عدالت میں پیش نہیں کی۔

اسی دستاویز میں یہ بھی تحریر ہے کہ پنجاب یونیورسٹی یا اس کے وائس چانسلر اس مقدمے میں فریق نہیں بن سکتے جو سیالکوٹ میں ایک سول جج کی عدالت میں دائر ہے اور جب دعویٰ بھی اپریل 2017ء میں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج ہوچکا ہے اور آج کی تاریخ تک بحال بھی نہیں ہوا تو یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ایک خارج شدہ مقدمے میں مدعی کی طرف سے پیش کی گئی دستاویز کی بنیاد پر اخبار میں اس طرح کی خبر شائع کردی گئی ہے۔

مدعی کا دعویٰ سات ماہ پہلے خارج ہوچکا ہے اور خبر مدعی کی حمایت میں شائع کی گئی ہے اور خبر میں یہ لکھنا تو سراسر غلط ہے کہ پنجاب یونیورسٹی نے مرے کالج کو مسترد کردیا ہے اور سکاچ مشن کالج کو علامہ اقبالؒ کی ’’مادری درسگاہ‘‘ تسلیم کرلیا ہے۔


کسی عدالت کے آخری اور حتمی فیصلہ کے بغیر کوئی بھی ادارہ مرے کالج کا نام مسترد کیسے کرسکتا ہے۔ پروفیسر صاحبان نے تو لکھا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے یہ بات منسوب ہی نہیں کی جاسکتی کہ اس نے مرے کالج کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔

فیصلہ عدالت کرسکتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نہیں اور پنجاب یونیورسٹی کے محترم وائس چانسلر خود عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔ انہیں کسی فضول، نامعقول اور مجہول مدعی کے ساتھ کھڑے ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ بہر حال کوئی دعویٰ اگر پنجاب یونیورسٹی بھی کرے تو فیصلہ عدالت ہی کرسکتی ہے، خود یونیورسٹی نہیں۔۔۔ تاہم میرے لئے یہ بات حیرت اور افسوس کی ہے کہ دعویٰ تو مرے کالج کو علامہؒ کی مادر علمی تسلیم نہ کرنے والے مدعی کا خارج ہوا ہے اور خبر مرے کالج کے خلاف شائع ہوئی ہے۔ ممکن ہے نامہ نگار کو کسی صاحب نے درست معلومات فراہم نہ کی ہوں، لیکن ایسی خبر بھیجنے سے پہلے تحقیق لازم ہے۔

مزید :

کالم -