مشکور حسین یاد،آپ بہت یاد آئیں گے
1925ء کا زمانہ اور ستمبر کا مہینہ۔ قصبہ بڈولی، ضلع مظفر نگر، اتر پردیش، بھارت کے سادات خاندان میں ایک بچے نے جنم لیا۔ والدین نے اس کا نام مشکور حسین رکھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت ضلع حصار‘ مشرقی پنجاب میں حاصل کی‘ کیونکہ ان کے والد اپنی ملازمت کے سبب وہیں مقیم تھے۔ ایف اے کا امتحان لدھیانہ سے اور بی اے کا امتحان جالندھر میں رہ کر دیا اور پاس کیا۔ اس بچے کو شروع ہی سے لکھنے پڑھنے میں دلچسپی تھی؛ چنانچہ جب یہ بچہ جوان ہوا تو ایک ہفتہ وار اخبار ’’پکار‘‘ سے وابستہ ہو گیا۔ یہ اس کی اولین ملازمت تھی۔ کچھ عرصہ بعد راشننگ کے محکمہ میں انکوائری افسر مقرر ہوئے‘ لیکن جلد ہی اس محکمہ کو چھوڑ کر تعلیم جاری رکھنے کے لیے ڈسٹرکٹ بورڈ ہائی سکول ڈبوالی میں بطور انگریزی کے استاد خدمات سرانجام دینا شروع کر دیں۔
یہ جولائی 1947 کا واقعہ تھا۔ ابھی ایک ماہ بھی نہ پڑھایا تھا کہ اگست 1947ء میں تقسیم کے بعد مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ بھارت میں موجود مسلمانوں کے لئے ہجرت کر کے پاکستان آنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ ہندو اور سکھ ہر گام پر مسلمانوں کے درپے تھے ۔ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ایسے میں بھارت سے پاکستان آتے ہوئے ان کے والد صاحب کے علاوہ ان کی ماں، بیوی، بیٹی‘ بھائی اور دوسرے قریبی عزیز ان کی آنکھوں کے سامنے شہید ہوئے۔ آزادی کی راہ میں اتنی بڑی قربانی دے کر نومبر 1947ء میں مشکور حسین آزاد سرزمین پاکستان میں داخل ہوئے اور اپنے بچھڑ چکے پیاروں کا غم دل میں بسائے ایک نئی زندگی کے آغاز میں جت گئے۔ یہاں انہوں نے کچھ عرصہ ڈائریکٹر تعلیم لاہور کے دفتر میں کلرک کی حیثیت سے کام کیا۔ بعد ازاں محکمہ انہار میں ضلع دار ہو گئے۔ لیکن یہ کام ان کی طبیعت سے لگا نہ کھاتا تھا‘ اس لئے اسے چھوڑ کر محکمہ تعلیم کی طرف رجوع کیا۔ انہوں نے 1955ء میں اردو میں اور 1960ء میں فارسی میں ایم اے کیا‘ اور پھر خاصا لمبا عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ اردو سے منسلک رہے۔ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔
ایسے لوگ ہمیشہ میرے آئیڈیل رہے ہیں‘ جو دکھ سہنے کے باجود لبوں پر مسکراہٹ سجائے رکھتے ہیں۔ اپنے کرب کو آنکھوں اور لبوں کے ذریعے باہر نہیں آنے دیتے۔ مشکور حسین یاد ان میں سے ایک تھے۔ ان کا تعلق اس نسل سے تھا‘ جس نے نہ صرف پاکستان بنتے دیکھا‘ بلکہ وہ قربانیاں بھی دیں جن کے زخم کبھی نہیں بھرتے‘ ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔ ہم ‘ جو پاکستان میں پیدا ہوئے اور یہیں پل بڑھ کر جوان ہوئے‘ نے تو آزادی کے بعد بھارت سے پاکستان آتے ہوئے اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تہہ تیغ ہوتے دیکھنے والوں کی صرف داستانیں سنی ہیں‘ لہٰذا یہ نہیں جان سکتے کہ ہجرت کا دکھ کیا ہے اور اپنے پیاروں کو کھونے کا الم کیا ہوتا ہے۔ لیکن مشکور حسین یاد نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنی روح پر سہا۔ اپنا یہ سارا دکھ انہوں نے اپنی تصنیف ’’آزادی کے چراغ‘‘ میں انڈیل دیا ہے۔ یہ ایسی داستان ہے جسے پڑھتے ہوئے ذرا سی حس رکھنے والے کی آنکھیں بھی چھلک جاتی ہیں۔ بعید نہیں کہ حساس لوگوں کے آنسو ہی بہہ نکلتے ہوں‘ لیکن مشکور حسین یاد نے اپنی آنکھیں نہیں چھلکائیں‘ آنسو نہیں بہائے‘ بلکہ اس ارض پاک کو اپنی تمام امیدوں و آرزوؤں کا محور و مرکز بنا کر نئی منزلوں کا سفر شروع کر دیا۔ یہ بات میرے لئے خصوصی طور پر خوشی و انبساط کا باعث ہے کہ ’’آزادی کے چراغ‘‘ میرے ادارے کاروانِ علم فاؤنڈیشن نے شائع کی۔ اس کتاب میں انہوں نے تقسیم ہندو پاک کے موقع پر ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی تفصیل بڑی درد مندی سے بیان کی ہے، کیونکہ ان کا خاندان بھی متاثرین میں شامل تھا۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
مشکور صاحب علم و ادب اور درس و تدریس کے حوالے سے ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے مختلف اصناف میں قلم آرائی کی۔ انشائیہ نویس، مزاح نگار، شاعر اور ایک استاد کی حیثیت سے جو شاندار خدمات انجام دیں، وہ یقیناً ناقابلِ فراموش ہیں، اور طویل عرصے تک یاد رکھی جائیں گی۔ یاد صاحب مرحوم نے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تصنیفات کی تعداد 60 کے لگ بھگ ہے۔ وہ نظم، غزل کے شاعر اور بہترین انشائیہ نگار تھے۔ انہوں نے یاد تخلص کیا۔ مشکور حسین یاد کی نثری تصانیف میں آزادی کے چراغ، جوہر اندیشہ، دشنام کے آئینے میں، بات کی اونچی ذات، اپنی صورت آپ، لاحول ولا قوۃ، ستارے چہچہاتے ہیں، مطالعہ انیس کے نازک مراحل، میں اردو ہوں، غالب نکتہ جو، وقت کا استخارہ، ستم ظریف اور ممکنات انشائیہ شامل ہیں۔ مشکور حسین یاد کے شعری مجموعوں میں پرسش، پرداخت، برداشت، عرض داشت اور نگہ داشت شامل ہیں جبکہ ان کی شہرہ آفاق تصنیف ’’آزادی کے چراغ‘‘ کے لاتعداد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ مرحوم نے انشائیے اور مزاحیہ مضامین لکھ کر اپنے شاندار اسلوب سے سب کو متاثر کیا۔ ان کی مزاحیہ شاعری کے بھی کئی مجموعے شائع ہوئے وہ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں طویل عرصے تک کالم لکھتے رہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں چیف ایڈیٹر ہفت روزہ ’’پکار‘‘ ایڈیٹر ماہنامہ ’’زعفران‘‘ لاہور‘ ایڈیٹر ماہنامہ ’’چشمک‘‘ لاہور کے طور پر بھی کام کیا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا۔
ان کی شاعری کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
درِ حسین سے جب خون کے خزانے گئے
بقا کے جتنے بھی حق تھے تمام مانے گئے
غمِ حسین کا کوئی جواب مل نہ سکا
وفا کی چھلنی میں کیا کیا نہ درد چھانے گئے
بلا کی دھوپ تھی میدانِ حشر میں لیکن
ہمارے واسطے اشکوں کے شامیانے گئے
ردائے شامِ غریباں کو وقت نے تھاما
عدو حسین کے خیموں کو جب جلانے گئے
معروف شاعر ظفر اقبال نے کسی زمانے میں ’’معاصر‘‘ میں ان کی تصنیف ’’برداشت‘‘کے بارے میں لکھا تھا:’’یبوست زدہ، یکسانیت سے ماری اور مکھی پہ مکھی مارکہ غزلوں کے اس غولِ بیابانی میں جو ایک عرصہ دراز سے ہمارے گرد و نواح میں دھمالیں ڈال رہا ہے‘ یہ کتاب تازہ ہوا کے ایک سیل رواں کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔
ان کی ایک غزل کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:
فلاطون بن بیٹھے ناحق ’’ہوسنے‘‘ کے موقع پہ ہم
خودی کو چلاتے ہیں پیدل ’’فرسنے‘‘ کے موقع پہ ہم
دل آزاد رکھتے ہیں اکثر ’’قفسنے‘‘ کے موقع پہ ہم
اک اک خلائے وقت کو ’’گنجانتا‘‘ ہے کون
گنجان کرکے پھر اسے ’’ویرانتا‘‘ ہے کون
ایک اور شعر ملاحظہ کریں:
جب ترقیء معکوس کا زمانہ ہے
کہ سب چرند پرند آدمی سے لگتے ہیں
مشکور حسین یاد ایک بڑے نعت گو بھی تھے۔ ان کے بارے میں ایک بھارتی محقق نے لکھا ہے: ’’پاکستان میں نعت گوئی کو کافی عروج حاصل ہوا ہے۔ وہاں نعتوں پر تحقیق کا بھی خاصا کام ہوا ہے۔ پاکستان کے نعتیہ شعرا میں حفیظ تائب، عبد العزیز خالد، مظفر وارثی، مشکور حسین یاد اور ریاض مجید نے نعت کو نیا رنگ و آہنگ دیا ہے اور نئی لفظیات سے آراستہ کیا ہے۔ اگرچہ بظاہر نعت گوئی آسان لگتی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر اللہ اگر توفیق نہ دے تو نعت گوئی انسان کے بس کا کام نہیں ہے‘‘۔
مشکور صاحب تو اب ہمارے درمیان نہیں رہے‘ لیکن ان کی یادیں اور لفظوں کی صورت میں ان کی سوچیں تادیر ہمارے ہم سفر رہیں گی اور آنے والی نسلوں کو یہ سبق سکھلاتی رہیں گی کہ دیکھو سب کچھ لٹا کر حوصلے سے جینا اسے کہتے ہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔