بجلی بم، حکومتی طرز عمل، منافع کی شرح اور بوڑھے پنشنر!
وفاقی حکومت کے ادارے نیپرانے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے حوالے سے بجلی کے سابقہ نرخوں اور بلوں کے مطابق 41پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے جو اسی ماہ کے بلوں میں شامل کردی جائے گی، اعدادوشمار کے مطابق اس اضافے سے حکومت کو تین ارب 80کروڑ روپے اضافی وصول ہوں گے اور مجموعی طور پر صارفین کی جیبوں سے نکلیں گے، اس سے پہلے یہی حکومت بجلی کے روزمرہ استعمال کے نرخ بڑھا چکی اور گیس بھی مہنگی کردی گئی تھی، مزید یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب اور چین سے معاونت کے باوجود آئی، ایم، ایف سے چھ ارب ڈالر مزید قرض کی بات ہو رہی ہے، عالمی مالیاتی فنڈر کا وفد پاکستان میں ہے اور حکومت سے مذاکرات کررہا ہے، ان ملاقاتوں کے حوالے سے یہ اطلاعات ہیں کہ آئی،
ایم،ایف نے بہت سے امور پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور خاص طور پر ہر شعبہ سے سبسڈی ختم کرنے کی ہدائت کی یہ حکمران تو پہلے ہی سبسڈی ختم کرنے کا اعلان کئے ہوئے ہیں، حالیہ بات چیت کے دوران حکومت نے بجلی اور گیس کے نرخ مزید بڑھانے پر بھی آمادگی ظاہر کردی ہے، یوں ایک محتاط اندازے کے مطابق آئندہ چودہ روپے آٹھ پیسے والی بجلی سولہ روپے یونٹ سے بڑھ جائے گی اور 700 یونٹ والی 20روپے فی یونٹ تک چلی جائے گی۔ جبکہ نئے نرخ نامے کے مطابق اب 20 یونٹ سے 200یونٹ تک بھی اضافہ ہوگا اور اگلا مرحلہ 300سے 700یونٹ والا ہوگا، یوں صارفین پر یہ بوجھ پڑا تو اس کے اثرات ہر شے پر پڑیں گے ہمارے ملک کا رواج ہے کہ تیار کنندگان اور تاجر ہر اضافے کے بعد نرخ بڑھا دیتے ہیں اور بوجھ صارف پرآتا ہے، پہلے ہی عام آدمی دنیا بھر کے ٹیکس ادا کررہا ہے اور جتنے بالواسطہ ٹیکس عائد ہیں وہی جان دوبھر کر دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک مثال بجلی ہی سے لے لیتے ہیں، ایک بل جو 308یونٹ کا ہے (یہ یونٹ اصل سے 35فی صد زیادہ ہیں کہ میٹر تیز ہیں) اس کا بل کچھ یوں بنا ایک سے 300یونٹ تک نیپرا کا نرخ 12.330 روپے فی یونٹ لکھا گیا اور اس پر رعائت 2.130 روپے دی گئی اور وصولی 10.220 روپے فی یونٹ لکھی گئی، تین سو کے بعد والے آٹھ یونٹ کا نرخ 14.080 روپے ہے اس پر کوئی رعائت نہیں، اب تک یہ تین سو یونٹ تک ہے جسے لائف لائن قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ گرمیوں میں تو یہ معمولی بات ہے، پنکھے سے ہی اتنے یونٹ آجاتے ہیں، اب ان 308یونٹوں پر صارف کیا ادا کرتا ہے وہ بھی دیکھ لیں۔ تین سو یونٹ بجلی کی قیمت 3.060.00 روپے بنی اس کے بعد 8یونٹ کی 112.64 روپے بنی یوں بجلی خرچ کرنے کی اصل قیمت 3172.64 روپے ہے،
اس کے بعد اس پر پہلا ٹیکس ایکسائیز ڈیوٹی کی صورت میں 47.59 روپے، ٹی،وی فیس 35.00 روپے، جنرل سیلز ٹیکس 573 روپے، نیلم جہلم سر چارج 30.80روپے، ایف، سی سرچارج 132.44 روپے اور ٹی آر سرچارج 15.36روپے لگایا گیا یوں یہ سب 1834.19روپے ہوئے، ان پر ایک اور ایف، پی، اے ہے جو 996.47روپے لگایا گیا یوں لیسکو نے اپنا خرچ 79فی صد وصول کیا جبکہ ٹیکسوں کی شرح 21فی صد تھی اور صارف کو ادائیگی 5003.00روپے کرنا پڑی یہ صرف بجلی کی موجودہ شرح کا حساب ہے، جب مزید اضافہ ہوگا تو اسی تناسب سے ٹیکسوں کی شرح بھی بڑھ جائے گی، بجلی پر ایکسائیز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس بھی تو سمجھ سے بالا تر ہے اور پھر ٹی، وی فیس بھی وصول کی جارہی ہے چاہے کوئی، پی،ٹی، وی دیکھے یا نہ دیکھے اس کے گھر ٹی، وی ہو یا نہ ہو۔
یہ ایک اجمالی ساخاکہ ہے، جو عرض کیا گیا ورنہ ہر یوٹیلٹی بل کا یہی حال ہے اور ٹیلیفون کے بل میں تو انکم ٹیکس بھی عائد کردیا جاتا ہے چاہے صارف خود ٹیکس ادا کررہا ہو یا اس پر انکم ٹیکس کی حد ہی لاگو نہ ہوتی ہو، یوں ہر طرف جو لوٹ ہے وہ بالآخر عوام ہی کی جیب سے لی جاتی ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ عوام پر بوجھ نہیں پڑے گا اب عدالت عظمیٰ نے منرل واٹر کے نام پر فلٹر پانی بیچنے والی کمپنیوں پر ایک روپیہ فی بوتل ٹیکس عائد کرنے کا حکم دیا ہے تو یہ بھی صارفین ہی کی جیب سے جائے گا۔
ہم بھی ان دوستوں کے ساتھ ہیں جو ہمیشہ پُر امید ہوتے ہیں اور ہر آنے والے کو مناسب موقع دینے کے حامی ہیں۔ اسی لئے ہم مسائل کی نشان دہی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ یہ حکومت خود ہی ان کے حل کا سوچے لیکن اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ ہماری یہ خوش فہمی بھی دور ہو رہی ہے اور اس کا انتظام خود حکومت کررہی ہے، یہ حضرات دعویٰ لے کر آئے تھے کہ سب ہوم ورک کیا ہوا ہے، پھر زور کرپشن کے خاتمے اور کرپشن سے بنائے گئے مال کی واپسی پر تھا، اب تک تو صرف ایک خاندان کے تین افراد کو سزا ہوئی وہ ضمانت پر ہیں، چند ایک تحقیقات بھگت رہے ہیں جبکہ ایک دوسرے ’’بزرگ‘‘ (صحت کے حوالے سے) بھی احتساب کا سامنا کررہے ہیں
لیکن ابھی تک کسی طرف سے کسی برآمدگی کے آثار نہیں ہیں اور سیاسی طور پر یہ ملزم حضرات بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، جہاں تک کرپشن کا سوال ہے تو اگر ان سیاسی حضرات نے کی تو جو ایوان میں بیٹھے ہیں ان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اور بھی تو بہت حضرات نشان زد ہیں، کیا ان میں سے کسی کے خلاف پہلے سے موجود مقدمات میں بھی پیش رفت ہوئی۔ جواب نفی میں ہے، اس کے علاوہ اداروں کی بات کی جاتی ہے تو ہر ادارے میں نچلی سطح پر کرپشن کی جو دھول اڑتی ہے اس کا کسی نے سوچا تک نہیں، ان سب سے ہر روز واسطہ پڑتا ہے، اس کے علاوہ سرکاری ملازم سسرال کا گھر سمجھ کر جاتے ہیں اور اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دینا تو کجا، سرے سے ادا ہی نہیں کرتے، ان اداروں کو ٹھیک کرنے کے دعوے کیا ہوئے۔
اس سلسلے میں ہم ایک مثال غائب دماغی کی دیتے ہیں، وزیر خزانہ اسد عمر نے جب منی بجٹ پیش کیا تو اعلان کیا کہ پنشنر حضرات کی پنشن میں دس فی صد اضافہ کردیا گیا مراد سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے پنشنر تھے، پھر انہوں نے اعلان کیا کہ سینئر شہریوں( ای، او، بی، آئی والے) کی پنشن دس ہزار روپے کر دی گئی ہے، کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ قومی اسمبلی سے یہ بجٹ منظور ہو جانے کے بعد بھی ابھی تک بوڑھے پنشنر( ای،او، بی، آئی والے) منہ تک رہے ہیں، کوئی اضافہ نہیں ہوا کہ نوٹیفکیشن نہ کیا گیا، اب چارروز قبل محترم زلفی بخاری نے ایک بیان میں کہا ای، او، بی، آئی کے فنڈز خورد برد کئے گئے سستی زمینیں مہنگی خرید کر اربوں روپے کھا لئے گئے، انہوں نے مزید اعلان کیا، ہم نے بزرگ پنشنروں کی پنشن دس ہزار روپے ماہوار کردی جو 14نومبر سے ہوگی۔ وزیر خزانہ نے عمل درآمد یکم جولائی سے قرار دیا تھا، اب دوسرا مذاق یہ ہے کہ ای، او، بی، آئی کی انتظامیہ نوٹیفکیشن کی منتظر ہے یوں یہ اضافہ نہیں ہوسکا، جہاں تک خورد برد کا تعلق ہے تو جس چیئرمین کے خلاف نیب نے کارروائی کی گرفتار کیا وہ ضمانت پر ہیں اور ان کا پورا خاندان تحریک انصاف میں شامل ہوچکا، اب زلفی بخاری اور اسد عمر کیا فرمائیں گے، کارروائی کیوں رکی ہوئی اور یہ بوڑھے کب تک اضافے کا انتظار کریں گے؟