عوام کا کیا قصور ہے

عوام کا کیا قصور ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سبزی منڈی میں ایک اخبار کے کالم نگار کھڑے کہنے لگے۔ تمہیں معلوم ہے کتنی مہنگائی ہو گئی ہے۔ جی مجھے معلوم ہے۔ پوری منڈی میں پھرا ہوں۔ ہر چیز پہنچ سے باہر ہے۔ آخرگھیا بینگن لے لیا۔ پیٹ تو بھرنا ہے۔ بچوں کو بھی کھلانا ہے۔ پھر کہنے لگے ،تمہیں بڑا شوق تھا۔ تبدیلی لانے کا۔ آ گئی تبدیلی۔۔۔ میں نے کہا ایک سے چہرے دیکھ دیکھ کر انسان گھبرا جاتا ہے۔صحافی،پہلے والے کھاتے تھے، کچھ لگاتے بھی تھے۔ نظر آتا تھا، کام دکھائی دیتا تھا۔پریس کانفرنس میں وزیراعظم کہنے لگے۔ مجھے کہتے ہیں میں گالی دیتا ہوں۔ ڈاکو کو ڈاکو نہ کہوں تو کیا کہوں۔ ٹھیک ہے آپ نے بڑے چھوٹے چور ڈاکو پکڑ لئے، ان پر ملک کی لوٹی ہوئی دولت کھربوں ڈالر کا الزام ہے۔ مختلف عدالتوں میں کیس بھی چل رہے ہیں، انہیں جیل بھی بھیج دیا۔ گورنر ہاؤس عوام کے لئے کھول دیئے۔ گاڑیاں فروخت کر دیں۔ بھینسیں بھی نیلام کر دیں۔ عدالتوں کا کام پہلے سے زیادہ بڑھ گیا۔کیا عوام کو زندگی بسر کرنے کے لئے سستی اشیاء مل رہی ہیں یا پہلے سے زیادہ مہنگائی کے بھوت نے قبضہ کرلیا ہے۔ اس کا کوئی علاج ہے۔


حکومت چلانے کے لئے عوام پر ٹیکس لگانے اور ادویات مہنگی کرنے سے بہتری آ سکے گی۔ پٹرول، گیس، بجلی کے نرخ بڑھانے سے حالات ٹھیک ہو جائیں گے، جنہوں نے ملک کو لوٹا، قومی خزانے کو کھربوں روپے نقصان پہنچایا۔ان سے ابھی تک کوئی رقم وصول نہیں کی گئی۔ بس ایک غریب عوام ہیں، جو ہر حکومت کے قابو میں آ جاتے ہیں۔اگر کوئی گاڑی خرید لے تو ٹیکس، بینک میں اپنی جمع پونجی نکالے تو ٹیکس گھر بنا لے، خریدے یا فروخت کرے تو لاکھوں روپے ٹیکس۔ وہ تو گھر کی مرغی دال برابر والی بات ہوئی۔ اگر اس کا ٹیکس بجلی کا بل پانی اور ٹیلی فون کا بل آنے میں دیر ہو جائے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ پھر وہ بھاگ دوڑ کرتا ہے۔اِدھر اُدھر سے معلوم کرتا ہے۔محکمے سے معلوم کرتا ہے۔ اس کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ جب تک وہ ادا نہیں کر دیتا، اسے آرام نہیں آتا۔پھر اس پر کوئی شاباش نہیں، عزت نہیں۔ اس کے بدلے میں جو آئین پاکستان اسے حق دیتا ہے، وہ نہیں ملتے۔


اس کی جان و مال خطرے میں رہتی ہے۔ اس کے بچوں کی زندگی محفوظ نہیں۔ علاج معالجے کی سہولت نہیں۔ روزگار کے لئے وہ پریشان پھرتا ہے۔ پھر کبھی بھی اسے کسی جرم میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ پھر اسے کہاں لے گئے پتہ نہیں چلتا۔البتہ چوروں ڈاکوؤں کو ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ وہ معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لئے سیکیورٹی ادارے کام کرتے ہیں۔ شریف عوام کا کام نہیں اسمبلیوں میں جائیں۔ بس وہ اللہ اللہ کریں،صبر و شکر کریں، تھوڑے میں گزارہ کریں، ظلم کو برداشت کریں، قاتلوں کو معاف کریں۔ اب آئی ایم ایف سے قرض لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں، اسے واپس کرنے کے لئے پھر عوام پر مہنگائی کا بم گرایا جائے گا۔ اس میں عوام کا کیا قصور ہے۔

مزید :

رائے -کالم -