اعتماد کا قتل
یہ اعتماد کا دوہرا قتل نہیں تو کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے نام نہاد رہنما ایک دوسرے پر مال بنانے کے ایسے ایسے الزامات عائد کر رہے ہیں کہ ان کے ووٹر کان پکڑ رہے ہیں کہ یہ ایسے لوگ ہیں۔اس سے قبل ان تمام خواتین سمیت اراکین نے اپنے ووٹروں کے اعتماد کا قتل کیا، جب انہوں نے سینٹ انتخابات کے لئے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو بھاری رقمیں وصول کرنے کے بعد ووٹ دیئے۔ رقوم وصول کر کے ووٹ دینا تو ایسا ہی تصور کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنی ماں اور بہن کی قیمت لگائی۔ افسوس ہوتا ہے کہ کس قماش کے لوگوں کو موقع ملا، وہ کوئی شناخت نہ رکھنے کے باوجود مہاجروں کے ووٹ لے کر ملک کے ان ایوانوں میں پہنچے،جہاں ان لوگوں کے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو ان ایوانوں کے باہر بھی کھڑا رہنے کی اجازت نہیں ملتی۔ ویسے بھی پاکستانی سیاست دانوں نے وطیرہ اختیار کیا ہوا ہے کہ بات معمولی ہو یا غیر معمولی، وہ ایک دوسرے پر سر عام کیچڑ اچھالنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ ایسا طرزِ عمل ہے جو عموماً خواتین اور خصوصاً غیر تعلیم یافتہ یا غیر خواندہ خواتین میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک مظاہرہ حال ہی میں ایم کیو ایم پاکستان کے برخاست شدہ کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے اختیار کیا۔
اکثر خواتین نے بھی ووٹ فروخت کئے۔ ان میں شازیہ فاروق بھی شامل تھیں۔ شازیہ کے شوہر فاروق پٹنی عرف فاروق دادا کو 1992ء میں ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے آپریشن میں اس وقت کے بدنام زمانہ پولیس افسر بہادر علی نے،جو ملزمان کو پار کرانے کے لئے بدنام تھا، اونچی عمارت پر لے جاکر نیچے پھینک دیا تھا۔ شازیہ کو ووٹ فروخت کرنے سے قبل یہ تو سوچ لینا چاہئے تھا کہ وہ فاروق کا کفن فروخت کر رہی ہے۔ خواتین نے بہر حال مردوں سے کم تناسب میں ووٹ فروخت کئے۔ ایم کیو ایم سے وابستہ مرد اراکین صوبائی اسمبلی نے تو دھڑلے سے اپنے ووٹ فروخت کئے۔ غیرت ہوتی تو کسی اونچی دیوار سے کود جاتے۔ ایم کیو ایم کے نام پر منتخب افراد کے ووٹ اس لئے اہمیت رکھتے ہیں کہ انہیں یہ ووٹ پسے ہوئے طبقے کے لوگ دیتے ہیں، جنہیں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایم کیو ایم کا حامی ہونے کی پاداش میں دیوار سے لگادیا ہے۔ نہ روزگار ہے نہ ہی پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلوں کی سہولت ہے،نہ ہی ان لوگوں کے علاقوں میں سرکاری تعلیمی ادارے قائم کئے جاتے ہیں، حالانکہ پیپلز پارٹی کی قیادت مہاجروں کو گلے لگا کر سندھ کی سیاست کو پلٹ سکتی تھی۔ ایسے لوگوں کے ووٹ سے منتخب افراد جب اپنے ہی لوگوں سے جو بھی بددیانتی اور بے ایمانی کرتے ہیں، وہ اعتماد کے قتل کے تو مرتکب ہوتے ہی ہیں، لیکن انہیں کبھی نہ کبھی اس کی قیمت ضرور ادا کرنا پڑتی ہے۔
فاروق ستار ہوں یا خواجہ اظہار الحسن، وسیم اختر ہوں یا خالد مقبول صدیقی، عامر خان ہوں یا کوئی اور پھنے خان، وہ مکافات عمل سے کیوں کر بچ سکے گا۔ مکافات عمل حکومت پاکستان کے قوانین کے تحت تو ہوتا نہیں، جسے فروغ نسیم اپنے الفاظ میں تشریح کرکے ملزمان کو بچالے۔ کیا ایم کیو ایم کے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ مکافات عمل ہی سے تو گزر رہے ہیں۔ آج کوئی ان کی سنتا ہی نہیں ہے۔ اکثر لوگ مالی طور پر مستحکم ہونے کے باوجود مختلف جسمانی اور روحانی بیماریوں کا شکار ہیں۔ آج کوئی انہیں ون، ٹو، تھری کہنے والا بھی نہیں ہے تو انہوں نے اپنی زبانیں نکال کر دراز کرلی ہیں، یہ زبانیں کبھی سکڑی ہوئی تھیں اور منہ سے باہر ہی نہیں نکلتی تھیں۔ ون ٹو تھری پر لاکھوں افراد کے مجمع پر خاموشی طاری ہوجاتی تھی، ان رہنماؤں کی حالت تو یہ تھی کہ انہیں جب گھور کر دیکھ لیا جاتا تھا تو اکثر کا پیشاب خطا ہو جاتا تھا۔ کچھ بھی کہیں ، اب سمجھ میں آتا ہے کہ نظم (ڈسپلن) کے بغیر سیاسی جماعت کے معاملات بہتر طور پر چلتے ہی نہیں ہیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے اپنے پر پھیلا لیتے ہیں۔ پارٹی کی اس وقت کی قیادت سے بھی غلطیاں سر زد ہوئی تھیں۔ پارٹی ایک ہی فرد کے گرد گھوم رہی تھی۔ پارٹی میں کوئی نمبر دو پیدا ہی نہیں ہونے دیا گیا تھا۔ ایسی پارٹیوں کا انجام وہی ہوتا ہے، جو ایم کیو ایم کا ہورہا ہے۔
فاروق ستار کو تو یہ گلہ ہے کہ انہیں ایم کیوایم سے باہر کر دیا گیا، جس پر انہوں نے اپنے ہی ساتھیوں کا اعمال نامہ کھول دیا۔ خالد مقبول والی ایم کیو ایم نے دھمکی دی ہے کہ وہ فاروق ستار کے خلاف مقدمہ دائر کرے گی۔ ذرا جلدی ہوجائے تو بہتر ہوگا کہ لوگوں کو اپنے ان نام نہاد رہنماؤں کے اصل چہرے دیکھنے کو مل سکیں۔ معمولی حیثیتوں کے حامل لوگوں نے کس طرح دبئی جیسے مہنگے ملک میں جائیدادیں بنائیں۔اربوں کروڑوں کے مالک کس طرح بن گئے۔ یہ تو ایسے سیاست دانوں کا طریقہ ہے، جو کسی نظریے یا اعتماد کی بنیاد پر ووٹ حاصل نہیں کرتے ہیں۔ قتل و غارت گری اور خون کا دریا عبور کر کے آنے والوں کو یہ کسی طرح زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے ووٹ اپنے ووٹروں کی رائے یا مرضی کے بغیر فروخت کریں اور ووٹ کرنا تو ویسے بھی ناقابل معافی جرم قرار دیا جاتا ہے۔ اس تماش گاہ میں سیاست دانوں کے اعمال ناموں کی جانچ پڑتال اس لحاظ سے ضروری ہے کہ جو بھی اعتماد کے قاتل نظر آئیں،انہیں سیاست ہی سے بے دخل کردیا جائے۔ یہ کارروائی پارلیمنٹ کرے تو زیادہ بہتر ہے، لیکن پارلیمنٹ کے اراکین بوجوہ ایسا نہیں کریں گے، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں ہے تو چار و ناچار لوگ سپریم کورٹ کی طرف ہی دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔